پاکستان

فیصلے پر جشن منانے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے پرویز مشرف سے حلف لیا،فردوس عاشق

ہمارے جوان دشمن کے دانت کھٹے کرنے میں مصروف عمل ہیں، ایسی صورتحال میں جوانوں کے حوصلے بلند رکھنا ضروری ہے، معاون خصوصی
|

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کی حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے فیصلے پر ان کی جانب سے دائر کی جانے والی اپیل کی سماعت کے دوران سابق صدر کے دفاع کا فیصلہ کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے سنگین غداری کیس کے فیصلے کو ’غیرمنصفانہ قرار دیتے ہوئے مذکورہ فیصلہ کیا۔

اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ ’ میں اس کیس میں کسی فرد کو نہیں بلکہ قانون کا دفاع کروں گا‘۔

قبل ازیں وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے پر جشن منانے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے پرویز مشرف سے حلف لیا۔

مزید پڑھیں: پرویز مشرف سے متعلق فیصلہ: 'افواج میں شدید غم و غصہ اور اضطراب ہے'

اٹارنی جنرل انور منصور خان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ 'آج پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے اس میں تمام اداروں کے درمیان باہمی اعتماد اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے، افواج پاکستان اور موجودہ حکومت نے مل کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جبکہ دونوں یکجہتی سے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔'

انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان نے ملک کے دفاع کے لیے لازوال قربانیاں دی ہیں، افواج پاکستان کے بہادر جوانوں، افسران نے اپنے خون سے امن کے دیے روشن کیے، موجودہ حکومت اور افواج پاکستان مل کر خارجی، داخلی مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہوئی جبکہ معیشت کو استحکام ملنے پر عالمی سطح پر پذیرائی مل رہی ہے۔

فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم اور عسکری قیادت پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہے، ہمارے بہادر جوانوں کا حوصلہ بلند رکھنا ہمارا فرض ہے، آج ایسا فیصلہ آیا جس کے بعد کچھ لوگ مسلسل جشن منا رہے ہیں، دوسری جانب ہمارے جوان دشمن کے دانت کھٹے کرنے میں مصروف عمل ہیں، ایسی صورتحال میں سرحدوں پر کھڑے جوانوں کے حوصلے بلند رکھنا ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نئے پاکستان کا جنم رول آف لا، انصاف پسندی کے ساتھ جڑ ا ہے، جشن منانے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے پرویز مشرف سے حلف لیا، ایک ایسا فیصلہ ٹی وی اسکرین پر رہا جس پر لوگ جشن منار ہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: خصوصی عدالت کا تفصیلی فیصلہ آتے ہی اپیل دائر کریں گے، وکیل پرویز مشرف

انہوں نے کہا کہ پوری قوم افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتی ہے لیکن کچھ نادان لوگ اداروں پر تنقید کرکے کیچڑ اچھال رہے ہیں، وہ جماعتیں اپنی سیاسی تسکین کے لیے اس فیصلے کی تشریح کر رہی ہیں، جبکہ ان سیاسی جماعتوں کا بیانیہ قومی بیانیے سے نہیں ملتا۔

معاون خصوصی نے کہا کہ یہ پہلی دفعہ ہے کہ افواج پاکستان نے سویلین حکومت کو سپورٹ کیا، جمہوری پودے کو پروان چڑھانے میں افواج پاکستان کا کردار ہے لیکن یہ لوگ کسی فرد واحدکو ٹارگٹ کرتے ہوئے پورے ادارے کی ساکھ پر حملہ کرتے ہیں۔

پرویز مشرف کی غیر حاضری میں فیصلہ سنانے کی کیا جلدی تھی، اٹارنی جنرل

اس موقع پر اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ 'آج فیصلہ سنایا گیا جس میں غیر حاضر پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی گئی، میں کسی کے حق میں یا حمایت میں بات نہیں کر رہا بلکہ قانونی نکات پر بات کر رہا ہوں۔'

انہوں نے کہا کہ یہ کیس سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق شروع کیا گیا، اسپیشل کورٹ میں ایک شخص نے شکایت درج کی جس میں کہا گیا کہ پرویز مشرف نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے، شکایت کے مطابق یہ خلاف ورزی آرٹیکل 6 کے زمرے میں آتی ہے لہٰذا سابق صدر کے خلاف غداری کا مقدمہ کیا جائے۔

مزید پڑھیں: ’سنگین غداری کیس فیصلہ تاریخی ہے، اس کے دور رس نتائج ہوں گے‘

ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف نے یہاں رہتے ہوئے اپنے اوپر فرد جرم بھی سنی، لیکن وہ اس وقت بیمار ہیں اور آئی سی یو میں زیر علاج ہیں، ان کی غیر موجودگی میں سزا دی گئی، کیا جلدی تھی فیصلہ سنانے کی، پرویز مشرف کو سنا ہی نہیں گیا، قانون کہتا ہے کہ ہر شخص کا ٹرائل فیئر ہونا چاہیے اور ٹرائل صرف فیئر ہونا نہیں چاہیے نظر بھی آنا چاہیے، جبکہ جس نے شکایت کی اس کو کابینہ نے اجازت نہیں دی تھی۔

انور منصور خان نے کہا کہ ’غیرحاضری میں ٹرائل روزانہ کا معاملہ نہیں ہے، پرویز مشرف کو آئین کی شق 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے یا اپنے گواہان پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا‘۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے اپنی ٹیم کو تبدیل کرنے کی بھی کوشش کی، حکومت نے ایک اسٹیج پر اپنی ٹیم بدلنا چاہی کہ ماضی کی کوتاہیوں کو ٹھیک کیا جائے، سینئر وکلا کی ٹیم نے کہا کچھ وقت دیں تاکہ کیس پڑھ سکیں لیکن عدالت نے کہا ابھی دلائل دیں ورنہ فیصلہ سنا دیں گے، جبکہ کمال کی بات ہے کہ جو فیصلہ سنایا گیا وہ اب تک جاری نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 10 'اے' کے تحت سب کا منصفانہ ٹرائل ہونا چاہیے، عدالت میں جب بیان لینے کا کہا تو عدالت نے کہا پاکستان لائیں اور بیان رکارڈ کرائیں، چوہدری شجاعت نے کہا انہیں پارٹی بنایا جائے اس سے بھی انکار کیا گیا، مقدمے میں فریق بننے کی بیوروکریٹس کی درخواستیں بھی مسترد کردی گئیں اور منصفانہ ٹرائل کے لیے آرٹیکل 10 اے سے انحراف کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حکومت کا نظریہ مختلف ہے، اس حکومت کا نظریہ ہے کہ ہر شخص کو انصاف ملنا چاہیے، ناانصافی اس ملک کے لیے بڑا عذاب ہے اور یہ حکومت کہتی ہے کہ ناانصافی کے خلاف کھڑی ہوگی، کسی نے آئین کی خلاف ورزی کی تو اس کو ضرور سزا ملنی چاہیے اس میں کوئی ابہام نہیں جبکہ ہم کہتے ہیں اگر فیئر ٹرائل نظر نہیں آتا تو سزا نہیں دی جاسکتی۔

****یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس: کب کیا ہوا؟**

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ یہ آئینی انحراف ہے، جب آئین کے خلاف فیصلے دیے جاتے ہیں‘۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ ہم کسی ایسے فیصلے کو کیا قرار دے سکتے ہیں جہاں ضروری شرط، آرٹیکل 10- اے کے تحت کسی شخص کے بنیادی حق سے انحراف کیا جائے‘۔

عدالتی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ’ عدالتوں نے قانون کے دائرہ کار سے باہر فیصلہ کیا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ اگر کوئی یہ کہے کہ عدالتیں آزاد ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ عدالت قانون کے باہر فیصلہ کرے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کسی شخص کو اس کا بنیادی حق نہ دیں اور سب سے اہم یہ کہ اگر کسی شخص کو شواہد پیش کرنے کی اجازت نہ دی جائے، کسی شخص کے خلاف اس سے زیادہ ناانصافی نہیں ہوسکتی جتنی ہم نے اس کیس میں دیکھی ہے‘۔

اٹارنی جنرل نے نشاندہی کی کہ ’ کسی شخص کو سزا نہیں دی جاسکتی جب اسے سنے جانے کا حق، ثبوت پیش کرنے کا حق اور منصفانہ ٹرائل کا حق نہ دیا جائے‘۔

’قانونی پہلو‘

پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے فیصلے سے متعلق بات کرنے سے قبل اٹارنی جنرل نے میڈیا کو تنبیہ کی تھی کہ زیرِ غور رکھا جائے کہ وہ کسی فرد یا کسی کی حمایت میں بات نہیں کررہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’ میں صرف کیس کے قانونی پہلوؤں پر بات کروں گا‘۔

انور منصور خان نے کہا کہ پرویز مشرف پاکستان میں تھے جب ان کے خلاف فرد جرم کا اعلان کیا گیا تھا اور انہوں نے کچھ درخواستیں بھی دائر کیں تھیں جس میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے فیصلے میں شامل دیگر افراد کو بھی کیس میں فریق بنانے کی استدعا کی گئی تھی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد جس میں آرٹیکل 90 میں ترمیم کی گئی تھی اور وفاقی حکومت کی جانب سے صدر کو شکایت دائر کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’ صدر شکایت درج نہیں کرواسکتے تھے تو اس لحاظ سے پرویز مشرف کے خلاف لیا گیا ایکشن شروعات سے ہی غلط تھا اور قانونی طور پر کارروائی نہیں ہوسکتی تھی‘۔

انور منصور خان نے کہا کہ ’ پرویز مشرف بیمار ہیں اور انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) میں ہیں لہذا یہ ایک اور بڑا مسئلہ ہے،جب آپ جانتے ہیں کہ ایک شخص ہسپتال میں ہے تو کیا اس کی غیرموجودگی میں فیصلہ سنانا صحیح تھا یا نہیں؟

پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کا حکم

واضح رہے کہ اسلام آباد میں خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت انہیں سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔

وفاقی دارالحکومت میں موجود خصوصی عدالت میں پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس وقاراحمد سیٹھ کی سربراہی سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر اور لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی۔

عدالت میں سماعت کے بعد 3 رکنی بینچ نے 2 ایک کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کو غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انہیں سزائے موت کا حکم دیا۔

خیال رہے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف اس وقت دبئی میں ہیں، جہاں انہیں طبیعت ناسازی کے باعث ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ’پرویز مشرف سزا کے خلاف 30 روز میں سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں‘

آج دیے گئے فیصلے پر پرویز مشرف کی قانونی ٹیم سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتی ہے، تاہم اگر عدالت عظمیٰ بھی خصوصی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتی ہے تو آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت صدر مملکت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مجرم کی سزا کو معاف کرسکیں۔

یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئین توڑنے پر کسی سابق فوجی سربراہ یا سابق صدر کو پھانسی کی سزا ہوئی ہے۔