’پرویز مشرف سزا کے خلاف 30 روز میں سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں‘
اسلام آباد کی خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کے حکم پر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سابق صدر کے پاس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اختیار ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج محمود عالم رضوی اور متعدد وکلا کے مطابق پرویز مشرف سنگین غداری کیس میں سنائے گئے سزائے موت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر سکتے ہیں۔
سزا کے خلاف اپیل کیلئے پرویز مشرف کو پاکستان واپس آنا ہوگا، سابق جج
سابق جج محمود عالم رضوی نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ پرویز مشرف کے پاس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اختیار ہے لیکن انہیں اپیل دائر کرنے کے لیے واپس ملک آنا پڑے گا۔
مزید پڑھیں: سنگین غداری کیس: خصوصی عدالت نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنادی
محمود عالم رضوی کے مطابق ایسے کیسز میں سپریم کورٹ کا حکم موجود ہے جس کے تحت اگر کسی مفرور ملزم کو سزا سنائی جاتی ہے تو اسے واپس آکر اپیل دائر کرنی پڑے گی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ابھی خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں مختصر فیصلہ سنایا ہے اور تفصیلی فیصلہ آنے سے قبل اس پر مکمل رائے نہیں دی جا سکتی۔
یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس: کب کیا ہوا؟
سابق جج کا کہنا تھا کہ ماضی میں اس کیس میں دائر کی جانے والی درخواستوں میں کہا گیا کہ سنگین غداری کا کیس صرف ایک شخص کے خلاف نہیں بلکہ 2007 کی پوری حکومتی کابینہ پر چلنا چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں سابق جج نے واضح کیا کہ اگر پرویز مشرف خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہیں کرتے تو یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ خصوصی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کروائے۔
پرویز مشرف سزا کے خلاف 30 دن میں عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں، وکلا
اسی حوالے سے وکیل اور نجی ٹی وی کے رپورٹر عبدالقیوم صدیقی کا کہنا تھا کہ متعدد وکلا کا ماننا ہے کہ قانون کے مطابق سزا حاصل کرنے والا شخص 30 دن کے اندر فیصلے کے خلاف عدالت میں اپیل دائر کر سکتا ہے۔
عبدالقیوم صدیقی کے مطابق وکلا و قانونی ماہرین کے مطابق اپیل دائر کرنے کے لیے ملزم کو عدالتی حدود میں جسمانی طور پر رہنا ہوگا اور خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں 30 دن کے اندر درخواست دائر کی جاسکتی ہے۔
فیصلے کو چیلنج کرنے کیلئے سرنڈر کرنا لازمی ہے، سابق وزیرقانون
پرویز مشرف کے دور حکومت میں وزیر قانون رہنے والے خالد رانجھا نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کورٹ تمام وجوہات کے ساتھ تفصیلی فیصلہ جاری کرے گا، ٹرائل کورٹ کو مختصر حکم نامہ جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ سابق صدر صرف مختصر حکم نامے کو بھی چیلنج کر دیں تو سپریم کورٹ اسے غیر قانونی و غیر آئینی قرار دے سکتی ہے۔
خالد رانجھا کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت کے تفصیلی فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے سرنڈر کرنا لازمی ہے۔