کھیل

سینئر پاکستانی کھلاڑی کیریئر کو بلاوجہ طول دے کر ٹیم پر بوجھ بنتے ہیں، وقار

وقار یونس نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کھلاڑیوں کی فٹنس اور فارم پر کوئی سمجھوتہ نہ کرے۔

سابق عظیم فاسٹ باؤلر اور قومی ٹیم کے سابق کپتان وقار یونس قومی ٹیم کی دوبارہ کوچنگ میں دلچسپی ظاہر نہ کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ بورڈ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کھلاڑیوں کی فٹنس اور فارم پر کوئی سمجھوتہ نہ کرے۔

یاد رہے کہ حال ہی انگلینڈ میں ختم ہونے والے ورلڈ کپ میں قومی ٹیم راؤنڈ مرحلے میں ہی باہر ہو گئی تھی اور میزبان ٹیم نے چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔

مزید پڑھیں: انضمام الحق کا سلیکشن کمیٹی چھوڑنے کا اعلان

قومی ٹیم کے سابق کپتان وقار یونس نے ورلڈ کپ سے قومی ٹی کے اسکواڈ کے حوالے سے غیریقینی صورتحال کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ آخری لمحات تک ہمارے حتمی ورلڈ کپ اسکواڈ کا فیصلہ نہیں ہوا تھا، یہ ایک بڑا مسئلہ ہے کہ ہمارے سینئر کھلاڑی اپنے کیریئر کو بلا وجہ طول دینے کی کوشش کرتے ہیں اور انہیں کوئی یہ کہنے والا نہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ آپ عزت کے ساتھ ریٹائر ہو جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم گزشتہ کچھ سالوں سے اسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں، آخری لمحات پر سینئرز کو ٹیم کا حصہ بنا لیا جاتا ہے کیونکہ حکام بڑے ایونٹس میں ہارنے سے ڈرتے ہیں۔

ورلڈ کپ میں قومی ٹیم اپنے آخری چار میچوں میں کامیابی سمیت 5 میچ جیت کر 11 پوائنٹس ٹیبل پر پانچویں نمبر پر رہا اور خراب رن ریٹ کے سبب ایونٹ کے سیم یفائنل میں رسائی حاصل نہ کر سکا لیکن وقار یونس نے قومی ٹیم کی کارکردگی کو تسلی بخش ماننے سے انکار کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’لارڈز کا معجزہ‘، انگلینڈ بن گیا ورلڈ چیمپیئن

انہوں نے کہا کہ جس طرح ہم بمشکل افغانستان کے خلاف آخری اوور میں جیتے، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، ہمارا مسئلہ یہی ہے کہ ہم ٹیم کا انتخاب کرتے ہوئے فٹنس مسائل، سینئر کھلاڑیوں سمیت دیگر چیزوں پر سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔

وقار یونس نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مکی آرتھر کی باتیں بھی شاید میری طرح نہیں مانی گئیں کیوں کہ نتائج تو وہی ہیں، اس لیے پاکستان کرکٹ کو لگی لپٹی سیاست کی نذر کرنے کے بجائے آگے جانا چاہیے۔

سابق کوچ نے کہا کہ ہر ورلڈ کپ کے بعد یہی طریقہ کار اپنایا جاتا ہے اور ایک جیسے اسکرپٹ پر عمل کیا جاتا ہے لیکن ہم اس طرح سے آگے نہیں جا سکتے اور ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہو گا کہ ہم کہاں غلطی کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر چار سال بعد ہم ایک جیسی مشق دہراتے ہیں، کپتان کو تبدیل کردو، کوچ کو عہدے سے ہٹا دو، چیف سلیکٹر کو گولی مار دو اور ڈومیسٹک کرکٹ کے ڈھانچے کو ذمے دار ٹھہراؤ لیکن اس طرح ہم کہیں نہیں جا سکتے اور بار بار وہی غلطیاں دہراتے رہتے ہیں۔

وقار یونس اس سے قبل دو مرتبہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ کی ذمے داریاں انجام دے چکے ہیں اور 2016 میں ان کی جگہ مکی آرتھر کو قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ کی ذمے داریاں سونپی گئی تھیں۔

مزید پڑھیں: معروف کرکٹرز بڑھاپے میں کیسے نظر آئیں گے؟ تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل

بحیٰثت ہیڈ کوچ تیسری اننگز کھیلنے کے حوالے سے سوال پر وقار یونس نے کہا کہ نئی پیشکش کے بارے میں کبھی نہیں سوچا، نیا بورڈ نئی سوچ کے ساتھ نئے لوگوں کو لارہاہے جو اچھی بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں عہدے کے بجائے پاکستان کرکٹ کی بہتری چاہتا ہوں اور یہ ضروری نہیں کہ میں ہیڈ کوچ بن کر ہی بہتری لائوں، کسی بھی جگہ رہ کر بہتری لائی جا سکتی ہے البتہ اگر مجھے پیشکش ہوئی تو ضرور سوچوں گا۔

ورلڈ کپ میں بھارت انگلینڈ میچ کے بعد وقار یونس کی ٹوئٹ کا بڑا چرچہ رہا انہوں نے کہا کہ میں میچ کو متنازع نہیں کہوں گا لیکن جس طرح نظر آرہا تھا وہ میری رائے تھی لیکن یہ نہیں کہا کہ بھارت جان کر ہارا ہے۔