کرکٹ ٹیمیں اور مساوی مذہبی و لسانی نمائندگی کا مسئلہ
شیکسپئر کے کردار فلاسٹاف جیسی چوڑائی رکھنے والے اور کھڑے ہوئے گھنگرالے بالوں کے مالک ہمیشہ کی طرح اپنے چہرے پر شریر مسکراہٹ سجائے کرکٹ لیجنڈ فرخ انجینئر کو اولڈ ٹریفرڈ میں کرکٹ تماشائیوں کے درمیان بیٹھا دیکھ کر میں ان عظیم پارسی کرکٹ کھلاڑیوں کی یادوں میں کھو گیا جن پر کبھی بھارت نازاں ہوا کرتا تھا۔
پھر اچانک ایک حقیقت اُجاگر ہوئی۔
1983ء اور 2011ء کی جن بھارتی کرکٹ ٹیموں نے ورلڈ کپ اپنے نام کیا تھا، ان میں بقول راہول ڈریوڈ ملک کے ثقافتی رنگوں کا امتزاج پایا جاتا تھا، تاہم یہ گونا گونیت ویرات کوہلی کی ٹیم کے سماجی امتزاج میں نظر نہیں آئی۔ یہاں میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ثقافتی تنوع ہی ٹیم کو ناقابلِ شکست بنانے کا ضامن ہوتا ہے یا پھر یہ کہ اگر ایسا ہوتا تو نیوزی لینڈ کے خلاف اہم سیمی فائنل میں کامیابی یقینی بن جاتی۔
بلکہ اس قسم کے خیال کے بالکل برعکس سفید فام کھلاڑیوں پر مشتمل جنوبی افریقی ٹیم اپنے دور کی مضبوط ترین ٹیموں میں شمار ہوا کرتی تھی، لیکن سخت گیر نسل پرستی مخالف قوانین کے ڈر کی وجہ سے ایک دو افراد ہی ایسے تھے جو ان کے دفاع کے لیے آگے بڑھے۔
اس کے علاوہ صرف سیاہ فام کھلاڑیوں پر مشتمل ویسٹ انڈیز کی ٹیم پہلے دن سے ہی ناقابلِ شکست بنی ہوئی تھی لیکن جب اس ٹیم میں روہن کنہائی اور ایلون کالی چرن جیسے دیگر رنگوں کے کھلاڑی شامل ہوئے تب اس ٹیم کو کسی قسم کے نقصان کے بجائے فائدہ ہی پہنچا، ٹھیک جس طرح نسل پرستانہ قوانین کی منسوخی کے بعد ماکھایا نی تینی، ہاشم آملہ یا عمران طاہر وغیرہ جیسے کھلاڑیوں نے جنوبی افریقی ٹیم میں ایک نئی روح پھونکی۔