2019ء ورلڈ کپ فائنل: کیوی باؤلنگ کا انگلش بیٹنگ سے سخت مقابلہ متوقع
زندگی چھوٹے چھوٹے اتفاقات سے مزین ہے۔ ایک سیکنڈ کا ہزارواں حصہ صرف جاسوسی کہانیوں میں ہی نہیں عملی زندگی میں بھی بہت کچھ بدل سکتا ہے۔
مارٹن گپٹل بنام مہندرا دھونی کھیل کے ایسے ہی لمحات میں سے ایک تھا. دھونی اگر بچ جاتے تو یہ بالکل بھی ضروری نہیں تھا کہ بھارت 9 گیندوں پر درکار 25 رنز بنا ہی لیتا لیکن دھونی آؤٹ ہوئے تو یہ مہر لگ گئی کہ اب یہ ممکن نہیں رہا۔
اپنے حصے کا کام نہ کر پانے کا بوجھ دماغ پر لیے ڈیپ اسکوائر لیگ پر کھڑے گپٹل نے شاید سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اعتماد کی واپسی ایسے بھی ہوسکتی ہے۔ اپنے لیے احترام حاصل کرنے کے لیے ایک سے زیادہ طریقے دستیاب ہوتے ہیں شرط یہ ہے کہ آپ میدان میں ڈٹے رہیں۔
نیوزی لینڈ کی بیٹنگ
لیکن اب بڑا دن آ پہنچا ہے اب انہیں اپنا وہ کھیل دکھانا ہوگا جس کے لیے وہ جانے جاتے ہیں۔ سری لنکا کے خلاف 73 رنز کی ایک اننگ وہ واحد اننگ ہے جس میں ان کا بلا چلا، ورنہ پورے ہی ایونٹ میں وہ بالکل ناراض بچے کی طرح خاموش رہا۔
مزید پڑھیے: سیمی فائنل میں متنازع فیصلے کے باوجود دھرماسینا فائنل کیلئے امپائر برقرار
بیٹنگ کے حوالے سے دیکھا جائے تو نیوزی لینڈ کی کارکردگی مجموعی طور پر ہی بُری رہی ہے۔ جہاں دیگر ٹیموں نے لمبے لمبے رنز کیے وہاں حیران کن طور پر کیوی ٹیم کم اسکور کرتے ہوئے بھی فائنل میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔
ورلڈ کپ، جس میں ٹیموں کا اوسط اسکور 280 کے قریب رہا ہے فائنل کھیلنے والی ٹیم نے صرف ایک بار 250 سے زیادہ رنز بنائے ہیں۔ جہاں باقی ٹیموں نے 27 بار 300 سے زیادہ کا مجموعہ حاصل کیا ہے وہاں فائنل کھیلنے والی ٹیم نے ایک بار بھی 300 سے زائد رنز نہیں بنائے۔ ایسا کرنے والی دوسری ٹیم صرف افغانستان ہے جو 10ویں نمبر پر رہی ہے۔
اس سے نیوزی لینڈ کی باؤلنگ اور فیلڈنگ کے معیار کا آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ کین ولیمسن واحد کیوی بلے باز ہیں جنہوں نے مستقل مزاجی سے رنز بنائے ہیں لیکن ان کا اسٹرائیک ریٹ محض 76 کے قریب ہے۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم جو مار دھاڑ کے لیے کافی مشہور ہے اس بار ان کا صرف ایک بلے باز کولن ڈی گرینڈ ہوم 100 سے زیادہ کے اسٹرائیک ریٹ سے رنز بنا سکا ہے۔ یہ ساری باتیں ہم نیوزی لینڈ سے کم ہی جوڑتے ہیں تاہم اس بار ایسا ہی ہوا ہے۔
نیوزی لینڈ کی تاریخ کے کامیاب ترین بلے بازوں میں سے ایک روس ٹیلر نے ابھی تک صرف 2 یا 3 اچھی اننگز کھیلی ہیں، لیکن خوش قسمتی کی بات یہ کہ وہ سب کی سب ٹیم کے کام آگئیں۔ لیکن ایک تجربہ کار بلے باز کی طرف سے اتنے بڑے ٹورنامنٹ میں یہ اوسط درجے سے بھی کم کی کارکردگی مانی جائے گی۔
اس پورے ورلڈ کپ میں ایسا محسوس ہوا جیسے کیوی بیٹسمنوں سے بڑے شاٹ لگ ہی نہیں رہے۔ ایسا کہنے کی وجہ یہ ہے کہ پورے ایونٹ میں انہوں نے اب تک صرف 21 چھکے ہی لگائے ہیں۔ فائنل میں جس ٹیم سے ان کا مقابلہ ہے یعنی انگلینڈ، تو ان کے کپتان ایون مورگن نے اکیلے ہی اس ایونٹ میں اب تک 22 چھکے لگا رکھے ہیں۔
لیکن اب تک کیوی ٹیم سے کچھ غلطیاں بھی سرزد ہورہی ہیں۔ کولن منرو خراب فارم کی وجہ سے ٹیم سے باہر ہیں اور ان کی جگہ ہنری نکولس کو بطور اوپنر کھلایا جارہا ہے، مگر وہ بھی اب تک کچھ خاص نہیں کرپائے ہیں۔ لیکن دوسری طرف سجھ نہیں آ رہی کہ جب ٹام لیتھم جیسا اچھا ٹاپ آرڈر بلے باز ٹیم کو میسر ہے تو اسے مڈل آرڈر میں کیوں ضائع کیا جارہا ہے؟ نکولس بہترین مڈل آرڈر بلے باز ہے اسے میک شفٹ اوپنر بنایا جا رہا ہے۔ اگر نیوزی لینڈ ٹام لیتھم سے اننگز اوپن کروا لے اور نکولس کو واپس مڈل آرڈر میں لے جائے تو شاید حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔
ویسے بھی جہاں جیمز نیشام اور کولن دی گرینڈ ہوم جیسے تیز کھیلنے والے نیچے نمبروں پر موجود ہیں تو لیتھم کو اوپر ہی آنا چاہئے، یوں اننگ کو اب تک میسر نہ آنے والا توازن مل سکے گا اور بہت حد تک استحکام بھی نصیب ہوگا۔
انگلینڈ کی بیٹنگ
اب اگر بات کریں انگلش ٹیم کی تو یہاں بیٹنگ کے شعبے میں سب کچھ کمال ہے۔ جونی بیئراسٹو اور جیسن رائے آتے ہیں اور بغیر کوئی تکلف کیے مخالف ٹیموں کی دھلائی شروع کردیتے ہیں۔ ان دونوں کا آغاز دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ڈریسنگ روم سے ہی بلے بازی کرتے آئے ہیں۔ دنیا کے ہر اچھے باؤلر کی ان دونوں نے جم کر دھلائی کی ہے۔
2015ء کے ورلڈ کپ کی شرمناک شکست نے تو جیسے انگلینڈ کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور گیم پلان ہی تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ اس ورلڈ کپ میں جب سری لنکا کے خلاف ایک خراب دن نے انگلینڈ کو خطرات سے دوچار کیا تو وہ بیئراسٹو ہی تھے جنہوں نےہاتھ کھڑا کیا اور پہلے بھارت اور اس کے بعد نیوزی لینڈ کی باؤلنگ کے بخیے ادھیڑ دیے۔
مزید پڑھیے: انگلینڈ کو 1992 کے ورلڈ کپ کی جرسی سے مماثلت راس آ گئی، 27سال بعد فائنل میں
یہ اس اعتماد اور قابلیت کا اظہار تھا کہ انگلینڈ کی موجودہ ٹیم کسی حادثے یا مخصوص حالات اور کنڈیشن میں ملنے والے میچوں کی وجہ سے فیورٹ نہیں بنی بلکہ مسلسل عمدہ پرفارمنس اور خود پر یقین نے انہیں یہاں تک پہنچایا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ انگلینڈ کے بلے بازوں نے مسلسل 3 میچوں میں 3 سب سے عمدہ باؤلنگ اٹیکس کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ پہلے بھارت، پھر نیوزی لینڈ اور سیمی فائنل میں آسٹریلیا۔ ان تینوں ٹیموں کے پاس بہترین باؤلنگ اٹیک موجود تھے اور تینوں کو ہی انگلش ٹاپ آرڈر کے غضب کا نشانہ بننا پڑا ہے۔
اس انگلش بیٹنگ لائن کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ ان کے آپشنز محدود نہیں ہیں بلکہ اگر کسی دن بیئراسٹو یا روئے ناکام ہوجائیں تو جو روٹ اور کپتان مورگن موجود ہیں۔ روٹ کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ گراؤنڈ شاٹس اور سنگل ڈبل لے کر مخالفین کو مشکل سے دوچار کردیتے ہیں تو وہیں کپتان مورگن اور ان کے بعد آنے والے جارحانہ بلے باز بین اسٹوکس اور جوس بٹلر اننگ کی رفتار 240 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آگے لے جانے کا فن جانتے ہیں۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ بٹلر جو کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس ورلڈ کپ میں وہ اب تک دکھا نہیں سکے، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ان کا بلا خاموش ہے تو انگلینڈ کی ٹیم اتنی مضبوط ہے، اگر وہ بھی بولنا اور چیخنا شروع کردے تو سوچیے کہ پھر میدان میں کیا کچھ ہوگا؟
اسٹوکس کی بات کی جائے تو انہوں نے اس میگا ایونٹ میں ایک سے زیادہ مرتبہ انگلینڈ کو مشکلات سے نکالا اور مڈل آرڈر کا سارا بوجھ اٹھایا ہے۔ وہ بالکل مستند بلے باز کی طرح کھیلے ہیں۔ اس ٹورنامنٹ میں وہ انگلینڈ کی طرف سے 4 نصف سنچریاں بنا چکے ہیں۔
انگلینڈ کو ایک اضافی فائدہ یہ بھی حاصل ہے کہ اس ٹیم کی ٹیل نہیں ہے۔ یہاں جوفرا آرچر کے علاوہ سب ہی بلے بازی کرسکتے ہیں۔ عادل رشید اور لیام پلنکٹ 20 سے 30 قیمتی رنز شامل کرسکتے ہیں اور کرس ووکس تو ایک مستند آل راؤنڈر ہیں۔ ان کے آپشنز کا یہ عالم ہے کہ معین علی جیسا میچ ونر بنچ گرما رہا ہے۔ سو فائنل کھیلنے والی دونوں ٹیموں میں بیٹنگ کے حوالے سے کوئی موازنہ نہیں۔ انگلینڈ دوگنے فرق سے بہترین بیٹنگ سائیڈ ہے۔
نیوزی لینڈ کی باؤلنگ
اس میں کوئی شک نہیں کہ باؤلنگ میں نیوزی لینڈ کو برتری حاصل ہے۔ ٹرینٹ بولٹ جنہیں دیکھ کر کبھی کبھی وسیم اکرم یاد آتے ہیں۔ بولٹ کی سوئنگ کرنے کی صلاحیت کمال ہے۔ پچ میں اگر مدد نا بھی ہو تب بھی وہ بیٹسمین کو سکون کا سانس نہیں لینے دیتے۔ وہ موجودہ دور کے واحد فاسٹ باؤٔلر ہوں گے جو مسکراتے ہوئے آپ کے ٹخنے سینک دیں۔ اننگز کے آغاز میں بولٹ کی اِن سوئنگ گیندیں دیکھنے لائق ہوتی ہیں۔ دیکھتے ہیں فائنل میں وہ روئے اور بیئراسٹو کو گھیرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں یا نہیں۔
پھر ان کے ساتھی میٹ ہنری ہیں جو 150 کی رفتار سے بال کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے گلین میگراتھ کی طرح آف اسٹمپ چینل نہیں چھوڑتے۔ بھارت جیسے دیو کو بھی انہوں نے ہی گرایا تھا۔ ہنری کے ایک اسپیل نے نیوزی لینڈ کو سیمی فائنل میں پار لگا دیا ہے۔ یہ سوئنگ بولنگ کا ایک شاندار مظاہرہ تھا۔
فرگوسن ایک سرپرائز پیکج ہیں۔ جہاں ہنری اور بولٹ روائتی طریقوں سے بیٹسمین کو پکڑتے ہیں فرگوسن اپنی رفتار اور لینتھ سے یہ کام کرتے ہیں۔ ان کا باؤنسر کمال ہے اور نتیجہ خیز بھی۔ اس ورلڈ کپ میں وہ نیوزی لینڈ کے سب سے کامیاب باؤلر ہیں۔
ان تینوں کے بعد باری آتی ہے مچل سینٹنر کی جو اچھے اسپنر ہیں خاص کر محدود اوورز کے میچز کے سارے پینترے وہ جانتے ہیں اور کسی بھی کپتان کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ہیں۔ نیوزی لینڈ کے لیے پانچواں باؤلر اگر بہت اچھا نہیں تو بُرا بھی نہیں ہے۔ یہاں بات ہورہی ہے نیشام اور گرینڈ ہوم کی۔ دونوں ہی معقول باؤلرز ہیں اور جہاں پچ میں ہلکی سی بھی نمی ہو تو یہ خاصے مہلک ثابت ہوسکتے ہیں۔ سو باؤلنگ میں نیوزی لینڈ خود کفیل ہے۔
انگلینڈ کی باؤلنگ
انگلینڈ کے لیے جوفرا آرچر ایک نعمت سے کم نہیں ہیں۔ جوفرا اس ورلڈ کپ میں سب سے بہترین انگلش باؤلر ثابت ہوئے ہیں۔ ان کے پاس رفتار ہے، سوئنگ ہے، دہشت ہے اور سب سے بڑھ کر اعتماد ہے۔ اس انگلش باؤلنگ اٹیک میں اعتماد اور جارحیت کی بہت کمی تھی جسے جوفرا نے پورا کردیا۔
کرس ووکس ایک روزہ کرکٹ میں انڈر ریٹڈ باؤلر ہیں حالانکہ انگلینڈ کی موجودہ ون ڈے کارکردگی میں ان کا بہت عمل دخل ہے۔ بھارت کے خلاف میچ ہو یا آسٹریلیا کے خلاف سیمی فائل، نئی گیند کے ساتھ وہ خوب دباؤ بناتے ہیں۔ یہ علیحدہ بات کہ اس ورلڈ کپ میں زیادہ وکٹیں وہ حاصل نہیں کر پائے، لیکن انگلینڈ کو فائنل میں پہنچانے میں ان کا بہت اہم کردار ہے۔
مڈل اوورز میں جو کام کبھی حسن علی کیا کرتے تھے انگلینڈ کے لیے اب وہ کام لیام پلنکٹ کر رہے ہیں اور میچ جیتنے کے لیے یہ سب سے عمدہ کام ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ٹیمیں میچ پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ عادل رشید کو انگلینڈ والے معین علی پر ترجیح دیتے ہیں۔ کم از کم سیمی فائنل میں تو انہوں نے اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فائنل میں وہ مشتاق احمد والا کردار ادا کرسکتے ہیں یا نہیں۔
انگلینڈ کے پاس ایک اور ہتھیار مارک ووڈ کی صورت میں بھی ہے۔ ووڈ اچھی باؤلنگ کرتے ہیں لیکن انہیں مار زیادہ پڑ جاتی ہے اسی لیے وہ اب تک پہلا انتخاب نہیں بن سکے ہیں، لیکن وکٹ ٹیکر وہ ضرور ہیں۔ اسٹوکس چند اچھے اوورز نکال دیتے ہیں سو انگلینڈ کے لیے نسبتاً کمزور اٹیک بھی کسی پریشانی کا باعث نہیں بنتا کیونکہ ان کے پاس آپشنز بہت ہیں۔
آخری بات
اگر مجموعی طور پر بات کی جائے تو فائنل کیوی باؤلنگ بمقابلہ انگلش بیٹنگ کے درمیان کھیلا جائے گا۔ دونوں ٹیمیں اس لحاظ سے خوش قسمت رہی ہیں کہ ان کے حریفوں نے بُری پرفارمنس کے لیے سیمی فائنل کا دن چنا۔
دونوں سیمی فائنلز میں آسٹریلیا اور بھارت کے جو سب سے عمدہ بلے باز تھے وہ پہلے ہی اسپیل میں چلتے بنے۔ ایسا تحفہ ہر روز نہیں ملتا۔ سو قسمت کی دیوی دونوں پر مہربان ہے۔ لیکن انگلینڈ یہاں تک لڑ کر پہنچا ہے۔ اس نے اچھے حریفوں سے میچ جیتے ہیں جبکہ نیوزی لینڈ نے اچھی ٹیموں کے خلاف میچ ہارے ہیں۔
انگلینڈ پر جب مشکل وقت آیا تو انگلینڈ نے اپنا کھیل بہت اوپر اٹھا دیا۔ انگلینڈ کی اس ٹیم نے اپنی 4 سالہ محنت کو مزید چمکا دیا اور اب وہ فائنل میں ہے۔ کیوی ٹیم کا معاملہ دوسرا ہے ان کا ’پینک بٹن‘ پاکستان کے خلاف ایسا دبا کہ اوپر نیچے 3 میچ وہ ہار گئی۔ دل چاہے نیوزی لینڈ کے ساتھ ہو لیکن دماغ کہتا ہے کہ انگلینڈ میچ نہیں دے گا۔ خاص کر جس طرح کی کرکٹ انگلینڈ نے مشکل میں پھنس جانے کے بعد کھیلی ہے، جب ٹورنامنٹ ان کے لیے ناک آؤٹ بن چکا تھا تب انہوں نے اپنی مضبوطی دکھائی۔
نیوزی لینڈ کو بہرحال ایک ایڈوانٹیج حاصل ہے کہ انہیں کمتر ٹیم گنا جا رہا ہے۔ سو ان پر دباؤ بھی نسبتاً کم ہے۔ انگلینڈ تو پہلے ہی دن سے ورلڈ کپ کا مضبوط دعویدار تھا سو قابلیت کا زیادہ سوال ان سے ہوگا۔
نیوزی لینڈ والے ضرور چاہیں گے کہ 2015ء ورلڈ کپ کے فائنل والی کارکردگی نہ دہرائی جائے۔ پھر تماشائی بھی یہی چاہیں گے کہ فاتح چاہے جو بھی ہو، مگر میچ کم از کم یکطرفہ نہیں ہونا چاہیے۔
محسن حدید کرکٹ سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھتے ہیں اور مختلف اخبارات اور ویب سائٹ کے لیے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔