ہارتے ہارتے ہم جیتنا کیسے شروع ہوگئے؟
کھیل کے میدان میں کیسی لڑائی؟
ہمسایوں کا تو حق بنتا ہے۔
کرکٹ تو ہے ہی محبت کا دوسرا نام اور ایک ہمسائے سے زیادہ محبت پر کس کا حق ہے؟
ویرات کوہلی کے لیے تو بندے کا دل کھنچتا ہے۔
ہم تو ویسے بھی امن کی آشا والے لوگ ہیں۔
وغیرہ وغیرہ.
اس طرح کے بہت سارے بیانات سوشل میڈیا پر کم از کم اگلے 4 دن چلتے نظر آئیں گے۔ وجہ اس کی پاکستانی ٹیم کی شاندار کارکردگی ہے۔ تاہم دیر سے اٹھنے والے اس جوش نے ہمیں ہمسایوں کی طرف دیکھنے پر مجبور کردیا ہے، کیونکہ انگلینڈ اور بھارت کا اتوار کو ایک اہم ترین میچ کھیلا جانے والا ہے، اور اگر اس میچ میں بھارت نے فتح حاصل کرلی تو پاکستان کے لیے سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے ایک بڑی رکاوٹ دُور ہوجائے گی۔
نوبت یہاں تک پہنچی کیسے؟
ایک بار پھر کرکٹ ورلڈ کپ میں ہمارا آغاز بُرا رہا۔ قومی ٹیم کو پہلے ہی میچ میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں بدترین شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اگرچہ دوسرے میچ میں فیورٹ انگلینڈ کو غیر معمولی شکست دے کر یہ خیال تھوڑی دیر کے لیے ضرور آیا کہ ٹیم اٹھ گئی ہے، مگر سری لنکا کے خلاف اگلے میچ میں بارش اور پھر آسٹریلیا اور بھارت کے خلاف شرمناک شکستوں کے بعد تو یہ طے ہوچکا تھا کہ ہم اسی رسوائی کے ساتھ ایونٹ سے باہر ہورہے ہیں۔
پھر ڈریسنگ روم میں سیاست اور اختلافات کی خبریں آنا شروع ہوگئیں اور اندرونی تنازعات کو لے کر ماضی کے حوالے دے دے کر کھلاڑیوں کی زندگی اجیرن کر دی گئی۔ ایک ظالم نے تو کپتان سرفراز کے ساتھ بدتمیزی کی انتہا کر دی اور نازیبا زبان استعمال کر ڈالی۔ کھلاڑی یہ سب شاید دل پر لے بیٹھے۔ بعض اوقات تنقید آپ کے اندر کے طاقتور انسان کو جگا دیتی ہے، اور شاید بعد میں ایسا ہی ہوا۔
'1992 میں بھی ایسا ہوا تھا' والی تھیوری جس پر یار لوگ چڑتے تھے، اب آفیشل براڈکاسٹرز اور بڑی بڑی ویب سائٹس بھی اس پر بات کرنے لگے ہیں، اور پھر کل پورے دن 1992 کے ورلڈ کپ کو دنیا بھر میں یاد کیا جاتا رہا۔ دنیا ہمیں ایسے ہی کارنرڈ ٹائیگرز نہیں مانتی۔ اگر 2 سال پہلے ہونے والی چیمپئنز ٹرافی کو یاد کیا جائے تو اس وقت بھی صورتحال یہی تھی، ابتدا میں شکست اور بعد میں چیمپئنز۔
ورلڈ کپ 2019ء کے ابتدائی 5 میچوں میں سے 3 میں بدترین ناکامیوں کی کئی وجوہات پیش کی جاتی ہیں، لیکن میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ غلط ٹیم کامبی نیشن ہے۔
ذاتی رائے یہی ہے کہ جب اتنے بڑے ٹورنامنٹ کھیلے جارہے ہوں تو کھلاڑیوں کو منتخب کرنے کے لیے پیمانہ ماضی کی کارکردگی یا تجربے سے زیادہ موجودہ کارکردگی ہونی چاہیے۔ کسی کھلاڑی کی ٹیم میں جگہ صرف اس وجہ سے پکی نہیں ہونی چاہئے کہ وہ 20 سال سے کھیل رہا ہے۔
بہرحال ہم نے جب اپنی اس غلطی کو ٹھیک کرلیا اور آوٹ آف فارم شعیب ملک اور حسن علی کی جگہ اِن فارم حارث سہیل اور شاہین شاہ آفریدی کو ٹیم میں شامل کرلیا، تو اس کا نتیجہ ہمارے سامنے آچکا ہے۔
نیوزی لینڈ کے خلاف اہم ترین میچ سے پہلے شاہین شاہ آفریدی کو وسیم اکرم نے کچھ وقت دیا اور باؤلنگ کے حوالے سے مفید ٹپس دیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاہین نے اس ورلڈ کپ کا شاید سب سے بہترین اسپیل کیا۔ 7 لگاتار اوورز کروائے اور 3 خطرناک وکٹیں لے کر نیوزی لینڈ کو بالکل دیوار سے لگادیا۔
نیوزی لینڈ کا حیران کن فیصلہ
میچ سے پہلے نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن نے پچ پڑھ لی تھی لیکن اس کے باوجود انہوں نے صرف ایک اسپنر کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا، جو یقیناً حیران کن تھا اور سچ پوچھیے تو اس کا خاطر خواہ فائدہ پاکستان کو ہوا۔
پاکستان کی فیلڈنگ میں کچھ مثبت اور منفی پہلو
اس ورلڈ کپ میں ہمارے لیے سب سے پریشان کن پہلو فیلڈنگ تھی، لیکن کل سب کچھ اچھا رہا، کپتان سرفراز احمد کی وکٹ کیپنگ بھی، خاص طور پر راس ٹیلر کا مشکل کیچ، جس نے ان کے حوصلوں کو مزید بلند کردیا۔ بعض اوقات ایک مشکل کیچ پکڑ لینے سے آپ کا اعتماد واپس آ جاتا ہے۔ یہی سرفراز کے ساتھ ہوا۔ جب کپتان خود مثالی کارکردگی دکھائے تو ناصرف ٹیم کا مورال بلند ہوتا ہے بلکہ خود کپتان کے فیصلوں میں بھی نکھار آتا ہے۔
گراؤنڈ فیلڈنگ تو کل بہتر تھی ہی لیکن مزے کی بات یہ کہ ہم نے سارے کیچ پکڑے اور کوئی ایک بھی نہیں چھوڑا، اور جب فیلڈرز اپنے باؤلرز کا ساتھ دیتے ہیں تو باؤلرز کا اعتماد بھی آسمانوں کو چھونے لگتا ہے۔ اب خود سوچیے کہ اگر شاہین آفریدی کی گیند پر پکڑے جانے والے کیچ چھوڑ دیے جاتے تو کیا وہ اتنی اچھی باؤلنگ کرسکتے تھے؟ کیا پاکستان یہ میچ جیت سکتا تھا؟ کبھی بھی نہیں۔
لیکن اگرچہ ہم نے کل کیچ تو سارے ہی پکڑ لیے اور فیلڈنگ ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر رہی، لیکن ایک خامی واضح طور پر نظر آئی۔ پاکستانی فیلڈرز گیند پر جھپٹتے دکھائی نہیں دیے بلکہ ساکت کھڑے گیند کو اپنی طرف آتا دیکھتے رہے جس کی وجہ سے کم از کم 15 رنز نیوزی لینڈ نے اضافی بٹور لیے۔
آج جبکہ کھیل ایک سائنس بن چکا ہے تو ایسا پہلو نظر انداز ہونا عجیب بات ہے۔ مڈل اوورز میں اکثر ٹیمیں ایسی چھوٹی چھوٹی خامیوں کی وجہ سے میچ گنوا بیٹھتی ہیں۔ ایسے آسان رنز کی وجہ سے بیٹسمین کو یہ سہولت میسر آجاتی ہے کہ اسے غیر ضروری رسک نہیں لینا پڑتا، کیونکہ مسلسل رنز بننے کی وجہ سے دباؤ محسوس نہیں ہوتا اور وہ بڑا شاٹ کھیلنے کے لیے خراب گیند کا انتظار کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے۔
کل پانچویں وکٹ گرنے کے بعد نیوزی لینڈ کے دونوں کھلاڑیوں نے یہی کیا۔ اسی وجہ سے وہ ایک بڑی پارٹنرشپ کرنے میں کامیاب ہوئے۔
لیکن یہ سب خامیاں اور غلطیاں ایک طرف، نیوزی لینڈ جیسی مضبوط اور ناقابلِ شکست ٹیم کو اتنے سستے میں پکڑ لینا بہرحال کمال تھا۔
نیوزی لینڈ کی فیلڈنگ سے سیکھنے کی ضرورت ہے
ایک بات جس کا تذکرہ کرنا انتہائی ضروری ہے اور وہ ہے نیوزی لینڈ کی فیلڈنگ کا۔ جہاں ہمارے کھلاڑی ایک کی جگہ دوسرے رن کا موقع دیتے ہیں نیوزی لینڈ کے فیلڈرز اپنے پنجوں پر نظر آتے ہیں۔ وہ 2 رن کو ایک تک محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گیند کو جلد سے جلد پکڑنے کے لیے وہ دوڑ بھی لگاتے ہیں اور اپنی جان جوکھم میں بھی ڈالتے ہیں، لیکن یہ سب اسی وقت ہوگا جب کھلاڑیوں کی فٹنس کا معیار بہتر ہوگا۔
ہماری خراب فیلڈنگ کی ایک وجہ فٹنس کی کمی بھی ہے۔ لیکن یہ کمی ہمیں خاصی مہنگی پڑتی ہے۔ ہمارے کھلاڑی بیٹنگ کرتے ہوئے ہمیشہ 10 سے 15 رنز کھا جاتے ہیں اور باؤلنگ کرتے ہوئے تقریباً اتنے رنز مخالف ٹیموں کو تحفتاً دے دیتے ہیں۔
کچھ غلطیاں کل بھی ہوئیں
جہاں کل سب کچھ اچھا رہا، وہاں کچھ غلطیاں بھی ہوئی، اور ایک خامی واضح طور پر نظر آئی، یعنی باؤلنگ چینجز کی خامی۔ اگر آپ مسلسل جیتنا چاہتے ہیں تو آپ کو مسلسل عمدہ فیصلے کرنا ہوں گے۔ کل جب نیوزی لینڈ کی ٹیم مکمل دباؤ میں تھی اور محض 83 رنز پر آدھی ٹیم پویلین لوٹ چکی تھی، تو ایسے وقت میں عماد وسیم کو باؤلنگ کے لیے لانا بالکل بے جا تھا، یہ ایسے ہی جیسے مرتے مریض کو آکسیجن فراہم کردیا جائے۔
یہ وہ موقع تھا جب کپتان کو جارحانہ فیصلہ کرنے کی ضرورت تھی، مگر وہ دفاعی انداز اختیار کرگئے اور مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کو سنبھلنے کا کسی حد تک موقع میسر آگیا جس کا ہمیں نقصان ہوا۔ حالانکہ عامر نے ابتدائی اسپیل میں صرف 4 اوورز کیے تھے، اگر اس فیصلہ کن موقع پر عماد کی جگہ 2 سے 3 اوور کے لیے عامر کو واپس لے آیا جاتا تو یہ عین ممکن تھا کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم 150 سے پہلے ہی نمٹ جاتی۔
عماد وسیم کو لانے کی وجہ شاید یہ ہو کہ اگر عامر کو ابھی لے آیا گیا تو آخری اوورز میں کیا ہوگا؟ اگر ایسا ہی ہے تو یہ ڈر اور خوف سے بھرپور سوچ ہے، کیونکہ یہ وہ موقع تھا جب آپ کو یہ میچ 35 اوورز کا سمجھ کر کھیلنا چاہئے تھا۔ اسٹیو واہ اور عمران خان اسی لیے بڑے کپتان تھے کہ وہ ان باریک چیزوں پر بہت غور کرتے تھے۔ سرفراز نے ایسی غلطی پہلی دفعہ نہیں کی بلکہ ماضی میں بھی وہ ایسا کرچکے ہیں۔ مگر کل کی یہ غلطی تو کافی مہنگی پڑی ہے۔ جیمز نیشام اور کولن ڈی گرینڈ ہوم کو سیٹ ہونے کا موقع ملا اور انہوں نے 150 پر ختم ہوتی اننگز کو 237 تک پہنچا دیا۔
جس طرح کی پچ تھی یہ ایک بہت مشکل اسکور تھا، اور اگر ہمارے بلے باز غیر معمولی طور پر سمجھداری کا مظاہرہ نہیں کرتے تو آج ہم شائقین کرکٹ شدید صدمے کا شکار ہوتے۔
کل عامر کا بُرا دن تھا، اور ایسا ہوجایا کرتا ہے۔ مسلسل 5 اچھے دنوں کے بعد ایک آدھ بُرا دن آنا ہی ہوتا ہے لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ یہ بُرا دن تب آیا جب باقی لوگوں کا اچھا دن تھا۔ کرکٹ ایک ٹیم گیم ہے اس میں 11 کھلاڑی مل کر شکار کرتے ہیں۔ مسئلہ ہے ہمت کا، حوصلے کا، لڑنے کے جذبے کا اور پاکستانی قوم نے یہ جذبات ان کھلاڑیوں میں جگا دیے ہیں، اور اب ایسا لگ رہا ہے کہ ہم اس میگا ایونٹ میں کچھ بڑا کرنے جارہے ہیں۔