’جنوبی افریقی ٹیم کو دعا دیجیے‘
ورلڈ کپ کے ابتدائی 5 مقابلوں میں صرف ایک کامیابی اور ان زخموں پر نمک چھڑکنے والی بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد پاکستان کے لیے جیت کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا اور 'گرین شرٹس' نے اس مشکل راستے پر اپنا اگلا قدم جنوبی افریقہ کے خلاف ایک شاندار کامیابی کے ساتھ آگے بڑھا دیا ہے، یوں 6 میچوں میں صرف 2 کامیابیوں کے باوجود قومی ٹیم کے ورلڈ کپ میں امکانات اتنے ہی ہیں، جتنے 1992ء میں تھے۔
ورلڈ کپ 2019ء میں پاکستان کرکٹ ٹیم اب تک بہت سے نشیب و فراز دیکھ چکی ہے۔ اپنے پہلے میچ میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں بدترین شکست کے بعد اس نے ہاٹ فیورٹ میزبان انگلینڈ کو شکست دی۔ پھر سری لنکا کے خلاف مقابلہ بارش کی نذر ہوجانے کے بعد آسٹریلیا اور بھارت کے ہاتھوں مسلسل 2 شکستیں کھائیں۔ ان 2 ناکامیوں نے جہاں قومی ٹیم کو پوائنٹس ٹیبل پر بدترین حالت تک پہنچایا وہیں بھارت کے ہاتھوں شکست پر تو گویا آگ ہی لگ گئی۔ وہ بھی تنقید کرتے دکھائی دیے کہ جو سالوں بعد ہونے والا پاک-بھارت میچ ہی دیکھتے ہیں۔
مزید پڑھیے: پاکستانی ٹیم کس طرح سیمی فائنل میں پہنچ سکتی ہے؟
بہرحال، میدان میں پیش کی گئی مایوس کن کارکردگی کا جواب بھی میدان ہی میں دینا چاہیے اور پاکستان کرکٹ ٹیم نے ایسا ہی کیا۔ پے در پے شکستوں کے بعد ایک زخمی شیر کا روپ دھارنے والی جنوبی افریقی ٹیم کے خلاف قومی کرکٹ ٹیم نے ایک لمحے کے لیے بھی مقابلے کو اپنی گرفت سے نکلنے نہ دیا۔
اس کامیابی میں جہاں باؤلرز نمایاں تھے، وہیں 300 سے زیادہ کی نفسیاتی حد عبور کروانے میں حارث سہیل کا کردار اہم تھا۔ وہی حارث سہیل کہ جنہیں ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلے میچ میں شکست کے بعد اس طرح باہر کردیا گیا، گویا وہ اسکواڈ میں موجود ہی نہیں۔
غالباً بھارت کے ہاتھوں شکست اور اس کے بعد سخت ترین ردِعمل نے ٹیم انتظامیہ کو مجبور کیا کہ حارث کو اسکواڈ میں جگہ دی جائے اور انہوں نے 59 گیندوں پر 3 چھکوں اور 9 چوکوں کی مدد سے 89 رنز بنا کر اپنے انتخاب کو بالکل ٹھیک ثابت کردیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ حارث کا لگایا گیا ہر شاٹ جنوبی افریقہ کے باؤلرز کے لیے نہیں بلکہ ان کے لیے ہے جنہوں نے انہیں پچھلے میچوں میں باہر بٹھائے رکھا۔ بہرحال، اس اننگز کے ساتھ حارث سہیل ثابت کر چکے ہیں کہ پاکستان کو ورلڈ کپ میں واپس آنے کے لیے ان کی سخت ضرورت ہے۔
ویسے پاکستان کی بھی کیا قسمت ہے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف اہم ترین مقابلے میں اسی بلے باز نے مشکل سے نکالا جسے پچھلے کئی میچوں سے نظر انداز کیا جارہا تھا، اور باؤلنگ میں بھی اب تک وہی باؤلرز چل رہے ہیں جو ورلڈ کپ کے لیے ابتدائی اسکواڈ کا حصہ ہی نہیں تھے یعنی محمد عامر اور وہاب ریاض۔ ذرا تصور تو کیجیے کہ پاکستان اپنے اصل پلان کے مطابق ورلڈ کپ کھیل رہا ہوتا تو اس وقت کیا حال ہوتا؟
خیر، کامیابی ایک سیاہ کپڑے کی مانند ہوتی ہے جس پر لگنے والے بیشتر داغ سِرے سے نظر ہی نہیں آتے جبکہ ناکامی ایسی ہوتی ہے جیسے ایک سفید کپڑے پر پر لگنے والا ایک معمولی سا دھبہ بھی سب کو نمایاں نظر آتا ہے۔ اس لیے پاکستان کی جنوبی افریقہ کے خلاف کامیابی میں ہوسکتا ہے ہمیں چند مایوس کن پہلو نظر نہ آئیں لیکن اس میچ میں بھی پاکستان کی فیلڈنگ ناقابلِ برداشت حد تک خراب تھی۔
ورلڈ کپ میں پاکستانی فیلڈرز کی روایتی سخاوت کے مظاہرے اس مقابلے میں بھی جاری رہے جس میں انہوں نے ایک، دو نہیں کم از کم 5 مواقع ضائع کیے۔
پہلے ہی اوور میں وہاب ریاض کے ہاتھوں کوئنٹن ڈی کوک کو نئی زندگی ملی۔ جنہوں نے بعد میں 47 رنز بنائے اور پھر آخری 20 اوورز میں تو حد ہی ہوگئی۔ سب سے پہلے محمد عامر نے اپنی گیند پر ہی ایک کیچ چھوڑا اور کچھ دیر کے بعد وہاب ریاض کی 2 مسلسل گیندوں پر کپتان سرفراز احمد اور محمد عامر نے نسبتاً آسان مواقع ضائع کیے۔