ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے ہندوستان اور چین سے سبق سیکھیں
تحریکِ انصاف نے اپنی حکومت کا پہلا بجٹ پیش کردیا ہے، جو ماضی کے بجٹوں سے کچھ مخلتف نہیں کیونکہ اس میں بھی عوام کو ریلیف ملتا دکھائی نہیں دیتا۔
اس بجٹ میں کوئی بھی اقدام ایسا نہیں ہے جسے انقلابی کہا جاسکے یا جسے پڑھ کر یہ محسوس ہو کہ حکومت پاکستانی معیشت کو راہِ راست پر لانے میں کامیاب ہوجائے گی۔
اس بجٹ کا سب سے خوفناک پہلو ساڑھے 5500 ارب روپے کا ٹیکس ہدف ہے جو کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر رکھا گیا ہے۔ جبکہ حکومت پچھلے 9 ماہ کا 3 کھرب کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اگر پاکستان یہ ہدف حاصل نہ کرسکا تو آئی ایم ایف پاکستان کی قسط روک لے گا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت یہ ٹیکس ہدف کیسے حاصل کرے گی؟ کیا حکومت کے پاس کوئی منصوبہ بندی ہے؟ حکومت کی گھبراہٹ اور خاموشی سے یہ احساس ہو رہا ہے کہ بظاہر ان سوالات کے جوابات نہیں ہیں۔
حکومت کس طرح آئی ایم ایف کے ٹیکس ہدف کو حاصل کر سکتی ہے اس حوالے سے کچھ تجاویز حکومت کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ تجاویز دینے سے پہلے میں آپ کی توجہ ہندوستان اور چین کے ٹیکس وصولی نظام کی طرف دلوانا چاہتا ہوں۔
ہندوستان میں 14-2013ء کی ٹیکس آمدنی 6.38 لاکھ کروڑ تھی جو 19-2018ء میں بڑھ کر 12 لاکھ کروڑ ہوگئی ہے۔ ٹیکس ریٹرن جمع کروانے والوں کی تعداد 3.79 کروڑ سے بڑھ کر 6.85 کروڑ ہو گئی ہے۔
ہندوستان نے یہ کامیابی کیسے حاصل کی آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔