مالی سال 19-2018 میں پیٹرولیم مصنوعات کی طلب میں کمی
کراچی: رواں مالی سال کے ابتدائی 11 ماہ میں پیٹرولیم مصنوعات کی مجموعی فروخت 25 فیصد کمی کے ساتھ ایک کروڑ 69 لاکھ 72 ہزار ٹن ہوگئی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فرنس آئل کی فروخت 57.7 فیصد کم ہو کر 27 لاکھ 43 ہزار ٹن،ہائی اسپیڈ ڈیزل کی فروخت 19 فیصد کمی کے ساتھ 67 لاکھ 64 ہزار ٹن ہوئی جبکہ پیٹرول کی فروخت 1.2 فیصد اضافے کے ساتھ 68.08 ٹن ہوگئی۔
پیٹرول، آئل اور لبریکنٹس ( پی او ایل) کے مجموعی آف ٹیک میں سالانہ بنیادوں پر 32 فیصد کمی کے ساتھ 16 لاکھ 80 ہزار ٹن ہوگئی خاص طور پر مئی کے مہینے میں فرنس آئل کی فروخت میں کمی کی وجہ سے ایسا ہوا۔
اسی طرح موٹر اسپرٹ ( ایم ایس ) 5.2 فیصد کمی کے ساتھ 6 لاکھ 4 ہزار ٹن اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کے حجم میں 20.6 فیصد کمی کے ساتھ 7 لاکھ 6 ہزار ٹن ہوگئے۔
شجر کیپٹل رپورٹ کے مطابق مئی کے مہینے میں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اس کی فروخت میں ماہانہ بنیادوں پر 10.7 فیصد اور سالانہ بنیادوں پر 5.2 فیصد کمی آئی جس کا تعلق اقتصادی اتار چڑھاؤ اور توانائی سے متعلق حکومتی پالیسی کی وجہ سے فرنس آئل اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی فروخت میں کمی آئی۔
ڈیزل کی فروخت میں مسلسل کمی کے رجحان کی ایک اور وجہ مقامی طور پر اسمبل کیے جانے والے ٹرکوں کی فروخت میں کمی ہے۔
مزید پڑھیں: مالی سال 19-2018: سست معیشت، بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ میں بھی کمی کا باعث
مقامی طور پر اسمبل کیے جانے والے ٹرکوں کی تعداد جولائی تا اپریل 2019-2018 میں 5،120 یونٹ ہوگئی جو گزشتہ مالی سال کے اس عرصے میں 7،703 یونٹ تھی۔
جولائی تا اپریل 2019-2018 کے عرصے میں مقامی طور پر اسمبل کی جانے والی گاڑیوں کی فروخت کم ہو کر ایک لاکھ 77 ہزار 4 سو 35 یونٹ ہونے کی وجہ سے پیٹرول کی فروخت میں کمی آئی جو گزشتہ مالی سال کے اس عرصے میں ایک لاکھ 82 ہزار 9 سو 11 یونٹ تھی۔
دو اور 3 پہیے والی گاڑیوں کی فروخت میں بھی ملا جلا رجحان پایا گیا۔
اقتصادی سروے 19-2018 کے مطابق مارچ 19-2018 کے دوران خام تیل کی پیداوار 2 کروڑ 46 لاکھ بیرل رہی جو گزشتہ مالی سال کے اس عرصے میں 2 کروڑ 18 لاکھ بیرل تھی۔
جولائی تا مارچ کے دوران درآمد کیے جانے والے خام تیل کی مقدار 66 لاکھ ٹن تھی جس کی لاگت 3 ارب 40 کروڑ ڈالر تھی جبکہ گزشتہ مالی سال کے مذکورہ عرصے میں یہ تعداد 78 لاکھ ٹن تھی جس کی لاگت 2 ارب 90 کروڑ ڈالر تھی۔
یہ کمی بنیادی طور پر عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے آئی۔
سروے میں کہا گیا کہ سعودی عرب سے موخر ادائیگیوں پر تیل کی درآمد سے حکومت کو ادائیگیوں کو متوازن کرنے میں آسانی ہوگی۔
اسٹاک مارکیٹ کی صورتحال
اقتصادی سروے میں سال 19-2018 کی کارکردگی کو شامل کرنے کے بجائے یکم جنوری 2016 سے انڈیکس کو شامل کیا گیا ہے جو 33،229 سے 16 فیصد اضافے کے بعد 31 مارچ تک 38،649 پوائنٹس ہوا۔
ڈان اخبار کی علیحدہ رپورٹ کے مطابق مالی سال 17-2016 میں انڈیکس میں تیزی آئی اور 24 مئی 2017 پر 52،876.46 پوائنٹس پر پہنچا تاہم وہ مستحکم نہیں رہ سکا اور مالی سال 18-2017 کے درمیان انڈیکس میں مجموعی طور پر تسلسل کا رجحان رہا۔
سروے میں کہا گیا کہ مالی سال 19-2018 کے آغاز پر مارکیٹ میں تیزی کا رجحان رہا اور 30 جولائی 2018 کو انڈیکس 43،557 پوائنٹس کی بلند ترین سطح تک پہنچا جس کے بعد انڈیکس میں کمی کا رجحان رہا اور 16 اکتوبر 2018 تک 36،663 پوائنٹس تک پہنچا۔
یہ بھی پڑھیں: غیر ملکی قرضے ایک کھرب 5 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے
اقتصادی سروے میں کہا گیا کہ مارکیٹ کے رجحان کو نئی حکومت کی پالیسیوں کے مطابق کیے جانے والے ریگولیٹری اقدامات اور ایکسچینج ریٹ معیشت میں غیر متوازن صورتحال کی تصیح سے جوڑا جاسکتا ہے خاص طور پر معیشت میں خسارے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو اس سے جوڑا جاسکتا ہے۔
جنوری میں پیش کیے گیے منی بجٹ میں متعارف کی گئی کاروبار دووست پالیسیوں کی وجہ سے انڈیکس میں تیزی کا رجحان دیکھا گیا، تاہم 26 فروری کو بھارت کی جانب سے پاکستان میں دراندازی اور سرحد پر جاری کشیدگی کی وجہ سے مارکیٹ میں اعتماد میں کمی آئی اور 31 مارچ کو انڈیکس 38،649 پوائنٹس پر بند ہوا جبکہ مارکیٹ کیپٹیلائزیشن 7،868.6 ارب روپے تھا۔
رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ میں مجموعی طور پر یومیہ تجارتی ویلیو 7ارب 20 کروڑ روپے رہی اور مجموعی یومیہ ٹرن اوور 17 کروڑ حصص تھے۔