پاکستان

پاکستان کی معیشت کو خطرہ لاحق ہے،ڈالر لے کر خوشحالی نہیں لاسکتے،مشیر خزانہ

کرنسی دباؤ کا شکار، اخراجات آمدنی سے زیادہ ہیں، قرضے لینا اور مہنگائی کرنا پڑے گی، اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش

مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو خطرہ لاحق ہے، ملکی معاشی استحکام کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔

اسلام آباد میں اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے مشیر خزانہ نے کہا کہ ہماری کوشش یہ ہے کہ عوام کے سامنے ملکی معیشت کی درست صورتحال اور اس سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو پیش کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک چیز جو نظر آرہی ہے کہ گزشتہ سال جب یہ حکومت بنی تو پاکستان کی معاشی صورتحال کیا تھی، ہمیں دیکھنا ہے کہ آخر ہم یہاں کیوں کھڑے ہیں، ہماری معیشت کی کمزوریاں ابھر کر سامنے آرہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملکی معاشی استحکام کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں، ملکی معیشت کی بہتری کے لیے اہم فیصلے کرنے ہیں۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تو معیشت زبوں حالی کا شکار تھی، ڈالر کمانے کی استعداد گزشتہ 10 سال میں صفر رہی۔

انہوں نے کہا کہ طویل عرصے سے اس ملک کے بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دی گئی اور جو اصلاحات کرنی تھیں وہ نہیں کی گئیں۔

مزید پڑھیں: حکومت آئندہ مالی سال میں شرح نمو 4 فیصد کرنے کی خواہاں

مشیر خزانہ نے کہا کہ وہی ممالک آگے بڑھتے ہیں جو اپنی چیزیں باہر کے ممالک میں بیچنے کا راز سمجھیں لیکن 10 سال میں صفر فیصد تجارت میں اضافہ ہوا۔

ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ آمدنی سے 2 ہزار 300 ارب روپے زیادہ خرچ کیے گئے جس کا مطلب ہے آپ کو قرض لینا ہوگا، قیمتوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ قرضوں کے باعث کرنسی دباؤ کا شکار ہے، گزشتہ 2 سال میں اسٹیٹ بینک کے ذخائر 18 ارب سے کم ہو کر 9 ارب ڈالر ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 5 برس میں برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا، ماضی کی حکومتوں نے قرضوں کی دلدل میں پھنسایا اور 2018 میں قرضہ 31 ارب تک پہنچ گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ برآمدات 20 ارب ڈالر پر منجمد ہیں، گزشتہ حکومت کے دور میں تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر تک بڑھا۔

ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ ملک کا امیر طبقہ ٹیکس نہیں دیتا، سابق حکومتوں کے قرضوں کا 2 ہزار 9 سو ارب سود دینا پڑتا ہے، ماضی کی حکومتوں نے دیگر ذرائع سے بھی 100 ارب ڈالر کے قرضے لے رکھے تھے۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ خسارے میں جانے والے ادارے ملکی معیشت پر 1300 ارب روپے کا بوجھ ڈال رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر آپ اس معاملے سے نہیں نمٹتے تو آپ ڈیفالٹ ہوجائیں گے اور اس کا کوئی حل نہیں ہے، وزیر اعظم نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ مشکل فیصلے کریں گے تاکہ حالات مستقل بہتری کی طرف جائیں۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ سب سے پہلے ہم جو فوری خدشات ہیں ان کو دیکھیں اور جو لگژری اشیا ہم باہر سے خرید رہے ہیں اس پر قابو پائیں اور جن امیر لوگوں کو اسے خریدنے کا شوق ہے وہ اس کے لیے اضافہ پیسے دیں۔

ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ ارادہ یہ تھا کہ ہمارے بر آمد کنندگان کی مدد کی جائے اور دوسری جانب ڈالر کو موبلائز کیا، اسلامک ڈیولپمنٹ بینک سے تاخیری ادائیگی پر رقم حاصل کی گئیں اور سعودیہ سے بھی تیل کے لیے یہ کام کیا۔

انہوں نے کہا کہ آنے والے وقتوں میں آپ کفایت شعاری کی مہم دیکھیں گے۔

ڈاکٹر حفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ ہم ادھر ادھر سے ڈالر لے کر ملک کو خوشحال نہیں بناسکتے اس کے لیے ہمیں سرمایہ کاروں کی توجہ یہاں لانی ہوگی اور اپنی عوام کو باصلاحیت بنانا ہوگا تاکہ وہ دنیا سے مقابلہ کرسکیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے اداروں کو ایک منظم طریقے سے لوٹا گیا اور ان سفید ہاتھیوں کو چلانے کے لیے عوام کی صحت، تعلیم پر خرچ ہونے والا پیسہ ضائع کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ 20-2019: سگریٹ اور مشروبات پر ہیلتھ ٹیکس لگانے کی منظوری

مشیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کے امیر ٹیکس دینا نہیں چاہتے اور ہم اگر ٹیکسز جمع نہیں کرسکتے تو اخراجات بھی پورا نہیں کرسکتے۔

ڈاکٹر حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لیے 2 سے 3 اقدامات کیے جارہے ہیں جن میں ایمنسٹی اسکیم بھی شامل ہیں اور اس کے نتائج جون 30 تک سامنے آجائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی چیز کی قیمت بڑھتی ہے تو اس کی سب سے زیادہ دشواری حکومت کو ہوتی ہے کیونکہ حکومت ہی عوام کو جوابدہ ہے۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ تاہم کئی بار لازم ہوتا ہے ایسا کرنا جیسے اگر باہر کی دنیا میں تیل کی قیمت بڑھ رہی ہے تو حکومت مجبور ہوجاتی ہے۔

ایک سوال کے جواب انہوں نے کہا کہ میں نے صرف حقائق پیش کیے تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ ہمارا چیلنج سخت ہے اور کل کے بجٹ میں پاکستان کے عوام کو بھرپور اعتماد ملے گا۔

ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ ہم نے معاشی استحکام کے لیے جتنے قرضے لیے وہ کل بجٹ میں واضح ہوجائیں گے، ہم پر اتنے قرضے ہیں کہ قرض کا سود ادا کرنے کے لیے بھی قرض لینا پڑتا ہے۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ ہم جمہوری نظام میں رہ رہے ہیں، میں اس سے قبل بھی پارلیمنٹ کا حصہ رہا ہوں، اپوزیشن اور حکومت کا تعلق برقرار ہے اور یہ جمہوریت کے تحفے ہیں جسے آپ کو سہنے کی عادت ڈالنی پڑتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شبر زیدی کو بہت مشکل سے فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) کا چیئرمین بنوایا گیا کیونکہ وہ قابل انسان ہیں۔

ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا کہ شبر زیدی باشعور انسان ہیں اور وہ ایک بڑا عہدہ چھوڑ کر آئے ہیں تو وہ اپنی پوری کوشش کریں گے اور کارکردگی دکھائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ بھی اپنی نوکری چھوڑ کر پاکستان کی خدمت کرنے آئے ہیں ان کو سپورٹ کرنا چاہیے نہ کہ ان پر تنقید کریں۔

اس موقع پر مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد نے کہا کہ ملکی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے، انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومتوں کے صنعتوں کی حوصلہ شکنی کے اقدامات کو روکا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے صنعتیں بند ہونے سے روک دیں، چین کے ساتھ آزادانہ تجارت کے نقائص کو ختم کیا گیا۔

مشیر برائے تجارت نے کہا کہ برآمدات بڑھانے کے لیے مارکیٹ ایکسپوژر چاہیے، اگر دیکھا جائے تو بر آمدات میں اضافہ ہوا، ڈالرز میں نہیں لیکن تعداد میں ہوا ہے جس کا مطلب ہماری صنعتیں چل رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے درآمدات میں ساڑھے 4 ارب ڈالر کی بچت کی جس میں جون تک 5 ارب ڈالر اور رواں برس کے اختتام تک 13 ارب 12 کروڑ ڈالر کی بچت کی جائے گی۔

حکومت بیشتر اہداف حاصل کرنے میں ناکام

مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کی جانب سے پیش کیے گئے اقتصادی سروے کے مطابق رواں مالی سال میں شرح نمو کا ہدف 6.2 فیصد مقرر کیا گیا تھا جو 3.3 فیصد رہی۔

اقتصادی سروے کے مطابق مالی سال 19-2018 میں زرعی شعبے کی شرح ترقی کا ہدف 3.8 فیصد تھا جو 0.8 فیصد رہی۔

اہم فصلوں کی پیداوار 3 فیصد ہدف کے مقابلے میں منفی 6.55 فیصد، دیگر فصلوں کی ترقی کی شرح کا ہدف 3.5 فیصد تھا جو رواں مالی سال 1.95 فیصد رہی۔

کپاس کی پیداوار 8.9 فیصد ہدف کے مقابلے میں منفی 12.74 فیصد رہی جبکہ لائیو اسٹاک کے شعبے میں ترقی کی شرح 3.8 فیصد مقرر کی گئی تھی جو 0.2 فیصد اضافے کے ساتھ 4 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

جنگلات کے شعبے کی شرح ترقی 8.5 فیصد کے مقابلے میں 6.5 فیصد اور ماہی گیری کے شعبے میں 1.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں ترقی کی شرح 0.8 فیصد رہی۔

مزید پڑھیں: اقتصادی جائزہ رپورٹ: حکومت تمام اہم معاشی اہداف کے حصول میں ناکام

مالی سال 19-2018 میں صنعتی شعبے کی ترقی کا ہدف 7.6 فیصد طے کیا گیا تھا جو اس عرصے میں 1.40 فیصد رہی۔

صنعتوں میں کان کنی کے شعبے میں ترقی کی شرح 3.6 فیصد ہدف کے مقابلے میں منفی 1.9 فیصد، صنعتی پیداوار کے شعبے کی مجموعی شرح ترقی 7.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں منفی 0.3 فیصد رہی۔

بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کا ہدف 8.1 فیصد ہدف کے مقابلے میں منفی 0.3 فیصد رہا، چھوٹی صنعتوں کی ترقی ہدف 8.2 فیصد طے کیا گیا تھا جسے پورا کیا گیا۔

رواں مالی سال بجلی کی پیداوار اور گیس کی تقسیم 7.5 فیصد ہدف کے مقابلے میں کئی گنا اضافےکے ساتھ 40.5 فیصد رہی جبکہ تعمیرات کے شعبے میں ترقی کی شرح 10 فیصد ہدف کے مقابلے میں منفی 7.6 فیصد رہی۔

خدمات کے شعبے کی شرح ترقی 6.5 فیصد ہدف کے مقابلے میں 4.71 فیصد رہی، تھوک اور پرچون کاروبار کی ترقی کی شرح 7.8 فیصد ہدف کے بجائے 3.1 فیصد رہی۔

ٹرانسپورٹ، اسٹوریج اور مواصلات کے شعبوں کی شرح ترقی 4.9 فیصد ہدف کے مقابلے میں 3.34 فیصد، مالیات اور بیمہ کے شعبوں میں شرح ترقی 5.1 فیصد ریکارڈ کی گئی جس کا ہدف 7.5 فیصد مقرر تھا۔

ہاؤسنگ سروسز کے شعبے کی شرح ترقی طے شدہ ہدف کے مطابق 4 فیصد ہوئی، عمومی سرکاری خدمات کے شعبوں میں 7.2 فیصد ہدف کے مقابلے میں 7.99 فیصد اور دیگر نجی خدمات کی شرح ترقی 6.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں 0.2 فیصد اضافے کے ساتھ 7 فیصد رہی۔