آئی ایم ایف کی شرائط اکتوبر میں بہت زیادہ سخت تھیں، اسد عمر
سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب حاصل کیے گئے قرض کے مقابلے میں ان کی شرائط کو سخت ترین تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اکتوبر میں ان کی شرائط اس سے کہیں زیادہ سخت تھیں۔
کراچی میں ‘یہ وطن ہمارا ہے3: آئی ایم ایف اور پاکستان کا معاشی مستقبل’ کے عنوان سے منعقدہ مذاکرے میں بات کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ ہم نے انتخابات سے قبل ہی کہا تھا کہ قرض لینا ناگزیر ہے۔
مذاکرے کی نظامت معروف صحافی خرم حسین کررہے تھے اور دیگر شرکا میں معاشی ماہرین قیصر بنگالی اور اکبر زیدی شامل تھے۔
اسد عمر نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ‘آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہیے تھا یا نہیں، ہمیں پہلے سے پتہ تھا کہ بیل آؤٹ پیکیج کے لیے جانا ہے اور یہ الفاظ رٹ چکے تھے کہ جتنے برے حالات پیدا ہوگئے بیل آؤٹ پیکیج ناگزیر ہے لیکن سوال یہ تھا کہ پیکیج آئی ایم ایف کرے گا یا کوئی اور کرے گا’۔
یہ بھی پڑھیں:مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں محصولات کی وصولی میں ریکارڈ کمی
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم یہ جملے رٹ چکے تھے بشمول آئی ایم ایف کسی کو بیل آؤٹ کو خارج ازامکان نہیں قرار دیا جاسکتا ہے اور اسی بنیاد پر ہم انتخابات لڑ کر آئے تھے اور اسی پر ہمیں ووٹ ملے تھے’۔
مذاکرے میں شامل دیگر شرکا کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘اس بات پر سب متفق تھے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ناگزیر تھا شاید اس لیے کہ ہم ہمیشہ آئی ایم ایف پروگرام کرتے رہے ہیں اور کبھی بھی توازن کے مسئلے کا اس طرح سامنا نہیں کیا جس طرح اس مرتبہ تھا’۔
آئی ایم ایف سے مذاکرات شروع ہونے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم وہی کررہے تھے جو انتخابات میں کہہ کرآئے تھے اور حلف اٹھانے کے دس روز بعد میں نے ریجنل ہیڈ جہاد حضور کو فون کیا جو آئی ایم ایف کے حوالے سے ہمارے معاملات دیکھتے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہونے کے ایک مہینے کے بعد آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان پہنچ چکی تھی انہوں نے جائزہ کیا اور ہم بھی اپنی تیاری کررہے تھے اور ان کی رپورٹ کے بعد ہم نے وزیر اعظم سے ملاقات کی اور ہم نے اعلان کیا کہ آئی ایم ایف کے پاس جارہے ہیں اور فوری طور پر بالی جا کر کرسٹین لیگارڈ سے ملاقات کی’۔
مزید پڑھیں:روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری
اسد عمر نے کہا کہ ‘اس پروگرام میں جو چیز مختلف تھی وہ یہ تھی کہ امریکی سیکریٹری اسٹیٹ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ہم آئی ایم ایف کا پیسہ چین کے قرضوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے جس کے بعد اگر ہم آپشن نہیں بناتے تو ہم نالائق، کم فہم اور غیر سنجیدہ کہلاتے اس لیے ہم نے آپشن بنائے اور وزیر اعظم کو کہا کہ آپ کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جانا پڑےگا’۔
سابق وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ بات صحیح ہے کہ یہ شرائط سخت ترین ہیں لیکن اکتوبر میں اس سے کہیں زیادہ سخت شرائط تھے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ڈسکاؤنٹ ریٹ میں اضافہ اور 600 بیسس پوائنٹ کی شرط تھی اور روپے کی قدر کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پیکیج سے رواں برس افراط زر 19 فیصد ہوگی اور ڈسکاؤنٹ ریٹ 20 سے 21 فیصد تک چلا جاتا’۔
اسد عمر نے کہا کہ جس دن حکومت آئی ایم ایف سے معاہدے کا اعلان کرے گی میں وہ تمام اہم 5 چیزیں بتاؤں گا جس کا وہ مطالبہ کررہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب میں نے حلف لیا تو ہمارے پاس 20 روز کے ذخائر تھے لیکن ہم نے خسارے کی اوسط کو کم کیا اور آئی ایم کے نمائندے نے بھی تسلیم کیا کہ معاشی پالیسی سے بہتری آئی ہے۔