مالی سال 20-2019 کیلئے 70 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش
بجٹ خلاصہ
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے اپنا پہلا وفاقی بجٹ برائے مالی سال 20-2019 قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔
وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے آئندہ مالی سال 20-2019 کے لیے 70 کھرب 36 ارب روپے سے زائد کا وفاقی بجٹ پیش کیا، جس میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 3151.2 ارب روپے اور 7.2 فیصد تجویز کیا گیا۔
واضح رہے کہ رواں سال اپریل میں وزیراعظم نے وفاقی کابینہ میں بڑی تبدیلیوں کا فیصلہ کیا تھا جس کی وجہ سے تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر وفاقی وزیر خزانہ کے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے جس پر ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو مشیر خزانہ تعینات کیا گیا اور انہیں اسد عمر کی ذمہ داریاں سونپ دی گئی تھیں تاہم وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے وفاقی بجٹ 20-2019 پیش کیا۔
بجٹ 20-2019 کے نمایاں خد وخال
- بجٹ تخمینہ 7000 ارب روپے سے زائد
- ٹیکس وصولیوں کا تخمینہ 5550 ارب روپے
- دفاعی بجٹ 1152 ارب روپے پر برقرار
- محصولات کے لیے جی ڈی پی کا تناسب 12.6 فیصد تک بڑھانے کی تجویز
- ترقیاتی منصوبوں کے لیے تخمینہ 925 ارب روپے
- خسارے کا تخمینہ 3151.2 ارب روپے
- صوبائی سرپلس کے لیے 423 ارب روپے
- 3 ہزار 255 ارب روپے ساتویں 'این ایف سی ایوارڈ' کے تحت صوبوں کے لیے تجویز
- قرضوں پر سود کی ادائیگی کا تخمینہ 2891.4 ارب روپے
- قومی ترقیاتی پروگرام کے لیے 1800 ارب روپے — جس میں سے 950 ارب روپے وفاقی خرچ شامل
- ڈیم کے منصوبوں کے لیے 70 ارب روپے — جس میں 15 ارب روپے بھاشا ڈیم اور 20 ارب روپے مہمند ڈیم کی اراضی کے لیے مختص
- داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کے لیے 55 ارب روپے
- اشیاء کے لیے جنرل سیل ٹیکس کی شرح 17 فیصد پر برقرار
- ہیولین تھاکوٹ موٹر وے کے لیے 24 ارب روپے مختص
- ریسٹورانٹس اور بیکریز کے لیے اشیاء پر ٹیکس کی شرح 4.5 فیصد
- انسانی ترقیاتی منصوبوں کے لیے 60 ارب روپے
- اعلیٰ تعلیم کے لیے 45 ارب روپے
- وفاقی ترقیاتی بجٹ میں زراعت کے لیے 1200 ارب روپے
- کراچی میں 9 منصوبوں کے لیے 45.5 ارب روپے
- بلوچستان میں ترقیاتی پیکج کے لیے 10.4 ارب روپے اور پانی کے منصوبوں کے لیے 30 ارب روپے
- کابینہ کے تمام وزرا کی تنخواہ میں 10 فیصد کمی
- کم از کم تنخواہ بڑھا کر 17 ہزار 500 روپے ماہانہ مقرر
- خشک دودھ، پنیر، کریم پر 10 فیصد درآمدی ڈیوٹی
- وفاقی آمدنی کا تخمینہ 6 ہزار 717 ارب روپے
- زرعی شعبے کے لیے 12 ارب روپے
- پینشن میں 10 فیصد اضافہ
- بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا وظیفہ بڑھا کر 5500 روپے کرنے کی تجویز
- چینی، کوکنگ آئل، گھی، مشروبات، سگریٹ اور سی این جی مہنگی
- گریڈ ایک سے 16 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد ایڈہاک اضافے کی تجویز
- ماہانہ 50 ہزار روپے سے زائد تنخواہ پر ٹیکس کی تجویز
یاد رہے کہ 2018 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے پہلا وفاقی بجٹ پیش کیا گیا ہے اس سے قبل وہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود اپریل 2018 میں بجٹ پیش کیے جانے کے بعد متعدد ضمنی بجٹ پیش کرچکی ہے۔
گزشتہ مالی سال 19-2018 کے لیے وفاقی حکومت نے 5246 ارب روپے کا بجٹ تخمینہ لگایا تھا۔
پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی
قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کا آغاز کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر کا کہنا تھا کہ 'وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں ایک نئے سفر کا آغاز ہوا ہے، تحریک انصاف نئی سوچ، نیا عزم اور ایک نیا پاکستان لائی ہے، پاکستان کے لوگوں کی مرضی ہمیں یہاں لائی ہے، اب وقت ہے لوگوں کی زندگی بدلنے کا، اداروں میں میرٹ لانے کا اور کرپشن ختم کرنے کا'۔
وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا پہلا مکمل بجٹ پیش کیا تو اس دوران اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا، اپوزیشن ارکان نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے اور بجٹ تقریر کے دوران انہوں نے شور شرابہ کیا، ایک موقع پر اپوزیشن کے اراکین نے حماد اظہر کی ڈائس کا گھیراؤ بھی کرلیا تھا تاہم انہوں نے اس دوران اپنی تقریر جاری رکھی۔
وزیر مملکت برائے ریونیو نے کہا کہ 'ہم سب اس ملک اور آئین کے محافظ ہیں، اس حکومت کےمنتخب ہوتے وقت پائی جانے والی معاشی صورتحال کو یاد کریں اور کچھ حقائق بتانے کی اجازت دیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مجموعی قرض اور ادائیگیاں 31 ہزار ارب روپے تھی اور 97 ارب ڈالر بیرونی قرضہ جات اور ادائیگیاں تھی اور بہت سے تجارتی قرضے زیادہ سود پر لیے گئے، گذشتہ 5 سال میں برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں تھا جبکہ حکومت کا مالیاتی خسارہ 2 ہزار 260 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔
وزیر مملکت نے بتایا کہ 'ہم نے فوری خطرات سے نمٹنے اور معاشی استحکام کے لیے چند اقدامات کیے، درآمدی ڈیوٹی میں اضافے سے یہ 49 ارب ڈالر سے کم ہوکر 45 ارب ڈالر تک آگئی، ترسیلات زر میں 2 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، 38 ارب روپے ماہانہ کے حساب سے بڑھنے والے قرضوں میں 12 ارب ڈالر کی ماہانہ کمی آئی، چین اور دوست ممالک سے 2 ارب ڈالر کی امداد ملی۔'
انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کا معاہدہ ہوگیا ہے، اس سے معیشت کو استحکام حاصل ہوگا جبکہ سعودی عرب سے فوری ادائیگی کے بغیر تیل درآمد کرنے کی سہولت حاصل کی، ان اقدامات کی بدولت اس سال جاری اکاؤنٹ خسارے میں 7 ارب ڈالر کی کمی آئے گی۔
حماد اظہر نے بتایا کہ ان سب بیرونی اقدامات کے علاوہ حکومت نے دیگر اقدامات کیے، اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم متعارف کروائی گئی۔
مالی سال 20-2019 کے بجٹ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے بیرونی خسارے میں کمی کا ہدف رکھا ہے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 13 ارب ڈالر تک کم کرکے 6.5 ارب ڈالر تک کم کیا جائے گا، درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ کیا جائے گا، آزادانہ تجارتی معاہدوں کو دیکھا جائے گا، سول و عسکری حکام نے اپنے اخراجات میں مثالی کمی کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں ٹیکس وصولی کم ہے، نئے پاکستان میں اس کو بدلنا ہوگا، جب تک ٹیکس نظام میں بہتری نہیں آئی گی پاکستان ترقی نہیں کرسکتا، سول و عسکری بجٹ میں کفایت شعاری کے ذریعے بچت کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) ہماری مستقل ترجیح ہے جس کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اس میں نئے شعبے شامل کیے گئے ہیں جن میں اقتصادی ترقی، زراعت اور خصوصی معاشی زونز بنانے کے ذریعے صنعتی ترقی کا حصول شامل ہے، جبکہ ریلوے کے شعبے کو ترقی دینے کے لیے رقم مختص کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ ایک لعنت ہے، اس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے اور معاشی نقصان ہوتا ہے، تجارت پر منحصر منی لانڈرنگ کے خاتمے کے لیے ایک نیا نظام تجویز کیا جارہا ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو افراط زر کو قابو میں رکھنے کے لیے مانیٹری پالیسی بنانے کی وسیع تر خودمختاری دی جارہی ہے، جبکہ حکومت کو رقوم کمرشل بینکوں میں رکھنے کی ممانعت کردی گئی ہے۔
جی ڈی پی
وزیر مملکت حماد اظہر نے بجٹ تقریر کے دوران اعلان کیا کہ مالی سال 20-2019 کے لیے جی ڈی پی کا ہدف 4 فیصد رکھا گیا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ مالی سال 19-2018 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے جی ڈی پی کا ہدف 6.2 فیصد مقرر کیا تھا تاہم گذشتہ روز عبدالحفیظ شیخ کی جانب سے پیش کیے گئے اقتصادی سروے کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں جی ڈی پی 3.3 فیصد رہی۔
اس سے قبل مالی سال 18-2017 میں جی ڈی پی کا ہدف 6 فیصد مقرر تھا، مالی سال 17-2016 میں 5.7 فیصد، 16-2015 میں 5.5 فیصد، 15-2014 میں 5.1 فیصد اور 14-2013 میں اس کا ہدف 4.4 فیصد رکھا گیا تھا۔
خیال رہے کہ جی ڈی پی میں زراعت کے حصے پر نظر ڈالیں تو مالی سال 19-2018 کیلئے یہ 3.8 فیصد مقرر کیا گیا تھا تاہم یہ 0.8 رہا، 17-2016 میں عارضی طور پر 3.46 فیصد رہا، 16-2015 میں 0.27 فیصد، 15-2014 میں 2.13 فیصد اور 14-2013 میں یہ 2.5 فیصد تھا۔
جی ڈی پی میں مینوفیکچرنگ کا حصہ مالی سال 19-2018 کے لیے 8.1 فیصد مقرر کیا گیا تھا لیکن یہ منفی 0.3 فیصد رہا، 17-2016 میں عارضی طور پر 5 فیصد رہا، 16-2015 میں 5.8 فیصد، 15-2014 میں 5.2 فیصد اور 14-2013 میں یہ 4.53 فیصد تھا۔
جی ڈی پی میں اشیاء کی پیداوار کے شعبے کا حصہ مالی سال 19-2018 کے لیے 7.6 فیصد مقرر کیا گیا لیکن یہ 1.40 رہا، 17-2016 میں عارضی طور پر 4.3 فیصد، 16-2015 میں 3 فیصد، 15-2014 میں 3.6 فیصد، 14-2013 میں 3.49 فیصد تھا
سروسز کے شعبے میں شرح نمو کی ترقی مالی سال 19-2018 کے لیے 6.5 فیصد مقرر کی گئی تھی لیکن یہ 4.71 رہی، 17-2016 میں عارضی طور پر 5.6 فیصد، 16-2015 میں 5.6 فیصد، 15-2014 میں 4.4 فیصد اور 14-2013 میں 4.46 فیصد رہی۔
گزشتہ بجٹس کے دوران جی ڈی پی کی شرح میں ٹیکس ریونیو کی شرح 19-2018 میں 12.6 رہی، 17-2016 میں 8.5 فیصد، 16-2015 میں 12.6 فیصد، 15-2014 میں 11 فیصد اور 14-2013 میں یہ 10.2 فیصد رہی۔
خسارہ/اخراجات
وفاقی بجٹ تقریر کے دوران حماد اظہر نے بتایا کہ مالی سال 20-2019 کے لیے بجٹ تخمینہ 7 ہزار 22 ارب روپے ہے جو رواں مالی سال کے نظر ثانی شدہ بجٹ 5 ہزار 385 ارب روپے کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ ہے، مالی سال 20-2019 کے لیے وفاقی آمدنی کا تخمینہ 6 ہزار 717 ارب روپے ہے جو 19-2018 کے 5 ہزار 681 ارب روپے کے مقابلے میں 19 فیصد زیادہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر کے ذریعے 5 ہزار 550 ارب روپے کی آمدن متوقع ہے، جس کے مطابق ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح 12.6 فیصد ہوگا، وفاقی آمدنی وصولی میں سے 3 ہزار 255 ارب روپے ساتویں 'این ایف سی ایوارڈ' کے تحت صوبوں کو جائیں گے جو موجودہ سال کے 2 ہزار 465 ارب روپے کے مقابلے میں 32 فیصد زیادہ ہے۔
اسی طرح مالی سال 20-2019 کے لیے موجودہ وفاقی ذخائر میں 3 ہزار 462 ارب روپے کا تخمینہ ہے جو رواں مالی سال کے 3 ہزار 70 ارب روپے کے مقابلے میں 13 فیصد زیادہ ہے، اسی طرح وفاقی بجٹ خسارہ 3 ہزار 560 ارب روپے ہوگا۔
وزیر مملکت برائے ریونیو نے بتایا کہ مالی سال 20-2019 کے لیے صوبائی سرپلس کا تخمینہ 423 ارب روپے ہے اور مجموعی مالی خسارہ 3 ہزار 137 ارب یا جی ڈی پی کا 7.1 فیصد ہوگا جو 19-2018 میں 7.2 فیصد تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مجموعی قرض اور ادائیگیاں 31 ہزار ارب روپے تھی اور 97 ارب ڈالر بیرونی قرضہ جات اور ادائیگیاں تھی اور بہت سے تجارتی قرضے زیادہ سود پر لیے گئے، گزشتہ 5 سال میں برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں تھا، جبکہ حکومت کا مالیاتی خسارہ 2 ہزار 260 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بجٹ 20-2019: سگریٹ اور مشروبات پر ہیلتھ ٹیکس لگانے کی منظوری
وزیر مملکت نے بتایا کہ 'جب تحریک انصاف کو حکومت ملی تو بجلی کے نظام کا گردشی قرضہ 1200 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا اور 38 ارب ماہانہ کی شرح سے بڑھ رہا تھا، سرکاری اداروں کی کارکردگی 1300 ارب روپے کے مجموعی خسارے سے ظاہر تھی، پاکستانی روپے کی قدر بلند رکھنے کے لیے اربوں ڈالر جھونک دیئے گئے، اس مہنگی حکمت عملی سے برآمدات کو نقصان پہنچا، درآمدات کو سبسڈی ملی اور معیشت کو نقصان ہوا، ایسا زیادہ دیر نہیں چل سکتا تھا اس لیے دسمبر 2017 میں روپیہ گرنے لگا اور ترقی کا زور ٹوٹ گیا، چیزوں کی قیمتوں پر دباؤ بڑھ رہا تھا اور افراط زر 6 فیصد کو چھو رہی تھی۔'
انہوں نے کہا کہ حکومت وقت کی ذمہ داری تھی کہ وہ مناسب اقدامات سے صورتحال کو قابو میں لاتی، ہم نے فوری خطرات سے نمٹنے اور معاشی استحکام کے لیے چند اقدامات کیے، درآمدی ڈیوٹی میں اضافے سے یہ درآمدات 49 ارب ڈالر سے کم ہوکر 45 ارب ڈالر تک آگئی اور تجارتی خسارہ 4 ارب ڈالر کم ہوا، وزیر اعظم کے اعتماد دلانے سے ترسیلات زر میں 2 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، 38 ارب روپے ماہانہ کے حساب سے بڑھنے والے بجلی کے گردشی قرضے میں میں 12 ارب ڈالر کی ماہانہ کمی آئی اور اسے 26 ارب روپے پر لایا گیا جبکہ چین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سمیت دوست ممالک سے 9.2 ارب ڈالر کی امداد ملی، اس امداد پر ان ممالک کا شکر گزار ہوں۔
خسارہ
مالی سال 20-2019 کے بجٹ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے بیرونی خسارے میں کمی کا ہدف رکھا ہے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 13 ارب ڈالر تک کم کرکے 6.5 ارب ڈالر تک کم کیا جائے گا، درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ کیا جائے گا، آزادانہ تجارتی معاہدوں کو دیکھا جائے گا، سول و عسکری حکام نے اپنے اخراجات میں مثالی کمی کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں ٹیکس وصولی کم ہے، نئے پاکستان میں اس کو بدلنا ہوگا، جب تک ٹیکس نظام میں بہتری نہیں آئی گی پاکستان ترقی نہیں کرسکتا، سول و عسکری بجٹ میں کفایت شعاری کے ذریعے بچت کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ انضمام شدہ قبائلی علاقوں کے ترقیاتی اخراجات کے لیے 152 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے جس میں 10 سالہ ترقیاتی منصوبہ بھی شامل ہے جس کے لیے وفاقی حکومت 48 ارب روپے دے گی، یہ 10 سالہ پیکج 1 کھرب روپے کا حصہ ہے جو وفاقی اور صوبائی حکومتیں مہیا کریں گی۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک سے قرض حاصل کیا جاتا ہے اس سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے اب یہ سہولت استعمال نہیں ہوگی، افراط زر کے لیے ہمارا وسط مدتی ہدف 5 سے 7 فیصد ہے، بدعنوانی کے مقابلے کے لیے پرعزم ہیں، اداروں کو خودمختاری دیں گے اور ان کی صلاحیت میں اضافہ کریں گے، 20-2019 معیشت کے استحکام کا سال ہوگا۔
محصولات
انہوں نے کہا کہ ملک میں ٹیکس وصولی کم ہے، نئے پاکستان میں اس کو بدلنا ہوگا، جب تک ٹیکس نظام میں بہتری نہیں آئی گی پاکستان ترقی نہیں کرسکتا، سول و عسکری بجٹ میں کفایت شعاری کے ذریعے بچت کی جائے گی۔
اپنی تقریر کے دوران ٹیکس تجاویز کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اس سال پاکستان نے سابق حکومتوں کی طرف سے متعارف کروائی گئی ناقص ٹیکس پالیسیوں کے بدترین اثرات کا سامنا کیا، ان پالیسیوں کو پاکستانی عوام کی تائید حاصل نہ تھی، گزشتہ حکومت نے اضافی ٹیکس ریلیف فراہم کیا جس سے ٹیکس بیس میں 9 فیصد کمی واقع ہوئی، گزشتہ 5 سال کے دوران حکومت نے ٹیکس محصولات میں اضافے کے لیے صرف ٹیکس ریٹ میں اچانک تبدیلیوں کی رسائی کا سہارا لیا اور زیادہ مستعد، مساویانہ اور مضبوط ٹیکس نظام کے قیام میں ٹیکس بیس میں اضافے کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا گیا اور اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ 22 کروڑ آبادی میں صرف 19 لاکھ انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرواتے ہیں اور ان میں بھی ٹیکس جمع کروانے والوں کی تعداد 13 لاکھ ہے، ساتھ ہی یہ بات بھی تشویشناک ہے کہ سیلز ٹیکس فائلرز کی تعداد صرف ایک لاکھ 41 ہزار ہے جس میں سے صرف 43 ہزار اپنے گوشواروں کے ساتھ ٹیکس ادا کرتے ہیں، پاکستان میں جی ڈی پی کے لحاظ سے ٹیکس کی شرح 12 فیصد ہے جو نہ صرف خطے بلکہ دنیا میں کم ترین شرح مٰں سے ایک ہے جبکہ موجودہ اخراجات کے لحاظ سے ضروری ہے کہ ٹیکس کی شرح جی ڈی پی کا 20 فیصد ہو، اسی تناظر میں موجودہ حکومت نے ٹیکس اصلاحات کا ایسا ایجنڈا ترتیب دیا ہے جس کے ذریعے سخت فیصلے کیے جائیں گے جو نہ صرف مائیکرو انکامک اسٹیبیلٹی بلکہ آنے والی نسلوں کی خاطر قومی یکجہتی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔
مالی سال 20-2019 کے مجوزہ ٹیکس اقدامات کے بنیادی اصولوں کے بارے میں مختصر طور پر بتاتے ہوئے حماد اظہر نے کہا کہ یہ اقدامات حکومت کے درمیانی مدت پالیسی فریم ورک کا حصہ ہیں، اس فریم ورک کی بنیادی توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ درمیانی مدت کے دوران جمع ہونے والے محصولات اور حقیقی پوٹینشل میں فرق کم کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ مالی سال 19-2018 میں حکومت نے ٹیکس اخراجات کی حد 972 ارب 40 کروڑ روپے کی ٹیکس سہولیات دیں، یہ اخراجات ان بے شمار ٹیکس چھوٹ رعایتوں کا نتیجہ ہیں جو معیشت کے مختلف شعبوں کو مہیا کی جارہی ہیں، تاہم ان رعایتوں میں کمی سے نہ صرف محصولات بلکہ ٹیکس نیٹ میں بھی اضافہ ہوگا۔
وزیر مملکت نے کہا کہ ٹیکس کے خلا کو کم کرنے کی کوششیں 2 حصوں پر مشتمل ہیں، ایک چھوٹ اور رعایتوں میں مرحلہ وار کمی، دوسرا ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی شرح کو مرحلہ وار مساویانہ بنانا اور خصوصی طریقہ پر نظرثانی کرنا، موثر اور خوف سے پاک ٹیکس تعمیل کو یقینی بنانا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹیکس گزار اور ٹیکس وصول کرنے والے کے مابین انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے رابطہ کاری کو متعارف کروایا جائے گا، جس سے ٹیکس گزار اور محکمے کے مابین اعتماد کا فقدان کم ہوگا۔
وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ حکومت نے اثاثے ظاہر کرنے کے آرڈیننس 2019 کے نفاذ کے ذریعے اصلاحات کا پیکج متعارف کروادیا ہے تاکہ غیر دستاویزی معیشت کو ٹیکس نظام میں شامل کیا جائے اور ٹیکس تعمیل کی حوصلہ افزائی سےمعاشی بحالی و نمو کے مقاصد پورے ہوں۔
بجٹ تقریر کے دوران کسٹم ڈیوٹی کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات کے حوالے سے حماد اظہر نے بتایا کہ ماضی میں ملکی ٹیکسوں سے ملنے والے کم ریونیو کی وجہ سے کسٹم ٹیرف کو درآمدات سے ریونیو حاصل کرنے کے لیے بے دردری سے استعمال کیا گیا، اس وقت پاکستان میں اوسطاً کسٹمز ٹیرف اور درآمدات کے مرحلے کے حوالے سے ریونیو بہت زیادہ ہے جبکہ درآمدات سے حاصل ہونے والے ریونیو میں تیزی سے اضافہ ہوا، درآمد شدہ خام مال کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں ملکی اور برآمدی دونوں صنعتوں کی مسابقت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کو مکمل یقین ہے کہ برآمدات اور ملکی مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کے لیے کسٹمز ٹیرف کا استدلال ایک بنیادی ضرورت ہوتی ہے، اسی مقصد کے لیے 1600 سے زائد ٹیرف لائنز پر ڈیوٹی، خام مال کے ضمن میں مستثنیٰ کی جارہی ہے، جس سے تقریباً 20 ارب روپے کا ریونیو کا نقصان ہوگا لیکن صنعتی ترقی کے بدلے میں بہت زیادہ فوائد کی توقع ہے، حکومت کسٹمز ٹیرف کے اصلاحاتی منصوبے کو حتمی شکل دے رہی ہے جسے مرحلہ وار لاگو کیا جائے گا۔
حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ٹیکسٹائل کے شعبہ اہم ہے اور حکومت کی پالیسی ہے کہ اس شعبے کو ٹیکسٹائل مشینری کے پارٹس اور آلات پر ڈیوٹی سے چھوٹ دے کر معاونت فراہم کی جائے گی، اسی طرح لچکدار دھاگے اور بغیر بنے کپڑے پر ڈیوٹی بھی کم کی جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ ملک کے تعلیمی شعبے میں کاغذ کا استعمال انتہائی اہم ہے اور اس کی قیمت سے تعلیم کی مجموعی لاگت پر اثر پڑتا ہے، کاغذ کی پیداوار کے لیے استعمال ہونے والے بنیادی خام مال جیسے برادہ اور کاغذ کے اسکریپ کو کسٹم ڈیوٹی سے چھوٹ دینے کی تجویز ہے جبکہ مختلف اقسام کے کاغذ پر ڈیوٹی 20 سے 16 فیصد تک کم کی جائے گی، جس سے کاغذ اور کتابوں کی قیمتوں میں کمی آئے گی اور پرنٹنگ کی صنعت کی حوصلہ افزائی ہوگی جبکہ قرآن پاک کی اشاعت کے لیے بھی خصوصی اقدامات کیے جارہے ہیں۔
بجٹ تجاویز کے دوران ان کا کہنا تھا کہ غیر روایتی برآمدات میں اضافے کے لیے لکڑی کے فرنیچر اور ریزر کی پیداوار میں استعمال ہونے والی کچھ اشیا پر ڈیوٹی کم کی جاسکتی ہے، مقامی جنگلات کو بچانے اور فرنیچر کنندگان کی حوصلہ افزائی کے لیے لکڑی پر ڈیوٹی 3 فیصد سے کم کرکے صفر فیصد اور لکڑی کے مصنوعی پینلز پر ڈیوٹی 11 فیصد سے کم کرکے 3 فیصد کرنے کی تجویز ہے، اسی طرح ریزر کے برآمد کنندگان کے لیے اسٹیل کی پٹیوں پر ڈیوٹی 11 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کرنے کی تجویز دی جارہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گھریلو اشیا کی صنعت، پرنٹنگ پلیٹ کی صنعت، سولر پینلز کے اسمبلرز اور کیمیکل انڈسٹری کے مداخل کی لاگت کو کم کرنے کے لیے ان کے مداخل پر ڈیوٹیز جیسا کہ گھریلو اشیا کے پارٹس/اجزا ایلومینیم کی پلیٹوں، دھاتی سطح والی اشیا اور ایسٹک ایسڈ پر ڈیوٹی کم کرنے کی تجویز ہے، بڑے پیمانے کی صنعتوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی غرض سے تیل صاف کرنے والے ہائیڈرو کریکر پلانٹس کی تنصیب کے لیے استعمال ہونے والے پلانٹ اور مشینری پر ڈیوٹی سے چھوٹ دینے کی تجویز ہے۔
زرمبادلہ کے ذخائر کو بچانے کے لیے ممنوعہ ریگولیٹری ڈیوٹیز کے استعمال درآمدات تو کم ہوئیں لیکن ان میں کچھ اشیا ٹرانزٹ ٹریڈ میں چلی گئیں اور پھر انہیں واپس اسمگل کیا گیا، لہٰذا تجویز ہے کہ ٹائر، وارنش اور خوراک کی صنعت میں خوراک کی تیاری کے حوالے سے ڈیوٹی کے ڈھانچے کو منطقی بنایا جائے تاکہ ان اشیا کو اسمگلنگ میں منتقل ہونے سے بچایا جائے اور ضائع محصولات کو حاصل کیا جائے۔
حماد اظہر نے کہا کہ دوائیوں کی قیمتوں میں کمی کی غرض سے ادویات کی پیداوار میں استعمال ہونے والے خام مال کی 19 بنیادی اشیا کو 3 فیصد درآمدی ڈیوٹی سے استثنیٰ دینے کی تجویز دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شپ بریکرز کے لیے درآمد کیے جانے والے جہاز سیلز ٹیکس کی ادائیگی سے مستثنیٰ ہیں، تاہم جہاز توڑ کر حاصل کی جانے والی شپ پلیٹس پر 9600 فی میٹرک ٹن کے حساب سے ٹیکس نافذ ہے۔
حماد اظہر نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں قائم اسٹیل انڈسٹری سیلز ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہے اور دیگر علاقوں کے اسٹیل یونٹس ان کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔
وزیر مملکت نے کہا کہ ان پیچیدہ قوانین سے چھٹکارا پانے اور اس شعبے سے پوٹینشل ریونیو حاصل کرنے کے لیے تجویز ہے کہ اسپیشل پروسیجر کا خاتمہ کیا جائے اور ان اشیا کو نارمل ٹیکس قانون کے تحت لایا جائے، بیلٹ، راڈز، شپ پلیٹس اور دیگر ایسی اشیا پر سیلز ٹیکس کی صورت میں 17 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی جائے، ان اشیا پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے سے فروخت پر سیلز ٹیکس کا خاتمہ کیا جارہا ہے اور بجلی کے استعمال کی بنیاد پر پیداوار کے حوالے سے کم سے کم معیارات کا تعین کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اوگر کی جانب سے سی این جی کی قیمتوں کی ڈی ریگولیشن کے بعد سے سی این جی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، اس تناسب سے ٹیکس کی شرحوں کوریشنالائز نہیں کیا گیا اس لیے تجویز ہے کہ سی این جی ڈیلرز کے لیے ویلیو ریجن ون کے لیے 64.80 روپے فی کلوگرام سے بڑھا کر 74.04 روپے فی کلوگرام اور ریجن ٹو کے لیے 57.69 روپے فی کلوگرام سے بڑھا کر 69.57 روپے فی کلوگرام کردیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ واضح رہے کہ اس اقدام سے سی این جی کی قیمت میں بہت معمولی اضافہ ہوگا کیونکہ سی این جی کی مارکیٹ قیمت اس رقم سے کہیں زیادہ ہے۔
وزیر مملکت نے کہا کہ سیلز ٹیکس کی ادائیگی کے لیے ریٹیلرز کو مختلف سطحوں میں تقسیم کیا گیا ہے ، سطح نمبر ایک کے ریٹیلرز کو 17 فیصد یا ٹرن اوور کا 2 فیصد، سطح نمبر 2 کے ذریعے ٹیکس کا نفاذ، تجویز ہے کہ ٹرن اوور ٹیکس کا خاتمہ کردیا جائے۔
حماد اظہر نے کہا کہ سطح نمبر ون کے ریٹیلرز کو ایف بی آر کے آن لائن سسٹم سے منسلک کردیا جائے گا، نظام سے منسلک دکانوں سے اشیا کی خریداری اور انوائسز طلب کرنے پر 5 فیصد تک سیلز ٹیکس کی واپسی کی صورت میں فائدہ دیا جائے گا، ایسی دکان جس کا سائز 1000 مربع فٹ یا اس سے زائد ہوگا اسے بھی سطح ون کے ریٹیلرز میں شامل کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت چینی پر 8 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے، اس شعبے میں وسیع معاشی مواقع موجود ہیں لیکن یہاں سے جمع ہونے والا ٹیکس صرف 18 ارب روپے ہے جو کہ اس کی حقیقی پیداوار سے بہت کم ہے، ٹیکس میں خلا کو کم کرنے اور اس کے ریٹ کو دیگر اشیا سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تجویز ہے کہ چینی پر سیلز ٹیکس کو بڑھا کر 17 فیصد کیا جائے۔
وزیر مملکت نے کہا کہ ریٹ میں اس اضافے کے اثر سے صارفین کو جزوی طور پر بچانے کے لیے تجویز ہے کہ چینی کو ان اشیا سے نکال دیا جائے جن کو غیر رجسٹرڈ افراد کو فروخت سے اضافی 3 فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے، اس اقدام سے چینی کی قیمت میں صرف 3.65 روپے فی کلو اضافہ ہوگا۔
چکن مٹن اور بیف کی اشیا کی کھپت میں اضافہ دیکھا گیا، اس پر بھی 17 فیصد سیلز ٹیکس کی تجویز دی گئی ہے۔
دیگر شعبوں پر محصولات کی شرح
کاٹیج انڈسٹری کو حاصل استثنیٰ کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال ہورہا ہے جس کی دوبارہ تشریح کی تجویز ہے، یکم جولائی 2019 سے کاٹیج انڈسٹری سے مراد وہ صنعت ہوگی جو رہائشی علاقوں میں قائم ہو، جہاں زیادہ سے زیادہ مزدور کام کرتے ہوں اور سالانہ ٹرن اوور 20 لاکھ روپے سے زائد نہ ہو۔
سونے چاندی، ہیرے اور زیورات کی بنائی پر سیلز ٹیکس پر کم شرح سے ٹیکس نافذ کیے جانے کی تجویز ہے۔
سنگ مرمر کی صنعت میں فروخت پر ٹیکس کی موجودہ شرح 1.25 روپے فی یونٹ ہے اور تجویز ہے کہ اس شعبے پر بھی 17 فیصد فی یونٹ کی شرح نافذ کی جائے۔
آئی سی ٹی قانون میں شامل ہونے والی دفعات، تجویز ہے کہ ایسی خدمات جو صوبائی قوانین میں قابل ادا ئیگی ٹیکس ہیں اور وہ آئی سی ٹی قوانین میں شامل نہیں انہیں بھی آئی سی ٹی قوانین میں شامل کیا جائے۔
ایسی خدمات جن پر پہلی ہی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی نافذ ہے انہیں آئی سی ٹی قانون میں شامل نہیں کیا جائے گا تاکہ دہرے ٹیکس سے بچا جاسکے۔
حماد اظہر کا کہنا تھا کہ کاروبار میں آسانی کے لیے اقدامات، سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کی دفعہ 58 سے ڈائریکٹر یا شیئر ہولڈر کو یہ اختیار دیا جارہا ہے کہ وہ کمپنی کے لیے ادا شدہ ٹیکس کمپنی سے وصول کرسکے، سیلز ٹیکس کے پروسیجر کو آسان بنایا جارہا اور نادرا کے ای سروسز سے سیلز ٹیکس رجسٹریشن ممکن بنائی جاسکے۔
ٹیکس گزاروں کی سہولت کے لیے ڈی رجسٹریشن کے حوالے سے قواعد میں ترمیم کی جارہی ہے، اس پروسس کے دوران گوشوارے فائل کرنا ضروری نہیں اور اس کے احکامات پر درخواست دائر کرنے کی اجازت دی جائے۔
فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے حوالے سے مختلف اشیا پر ٹیکس کے ریٹ میں آہنگی کے لیے چینی والی مشروبات کی کھپت کم کرنے کے لیے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 11.25 فیصد سے بڑھا کر 13 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
بناسپتی گھی اور کوکنگ آئل پر صرف فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لاگو ہے، خوردنی تیل، گھی اور کوکنگ آئل پر ایف ای ڈی بڑھا کر 17 فیصد کرنے جبکہ ویلیو ایڈڈ ٹیکس (وی اے ٹی) کے بدلے میں 1 روپیہ فی کلوگرام کو ختم کرنے کی تجویز ہے۔
انہوں نے کہا کہ صحت کو پہنچنے والے نقصانات کو مدنظر رکھتے ہوئے ریٹیل پرائس کے 5 فیصد کے برابر ایف ای ڈی متعارف کرنے کی تجویز ہے۔
سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 1.5 روپے فی کلوگرام کے حساب سے نافذ العمل ہے اور تجویز ہے کہ اسے بڑھا کر 2 روپے فی کلوگرام کیا جائے۔
ایل این جی درآمدات پر ایف ای ڈی 16.18 روپے فی 100 مکعب فیٹ کو بڑھا کر مقامی گیس کے برابر 10 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کرنے کی تجویز ہے۔
وزیر مملکت نے کہا کہ 1700 سی سی اور اس سے زائد انجن کی قوت کی حامل گاڑیوں پر 10 فیصد کی شرح سے ایف ای ڈی متعارف کرائی گئی تھی اب اس میں تبدیلی کرتے ہوئے، 100 سے 1000 سی سی پر 2.5 فیصد کی شرح، 1001 سی سی سے 2000 سی سی پر 5 فیصد اور 2001 سی سی سے زائد پر شرح 7.5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
سگریٹ پر ایف ای ڈی کو بڑھا کر بالائی سلیب کے 45 روپے فی 1 ہزار اسٹک کو بڑھا کر 5200 روپے فی ایک ہزار اسٹک تک عائد کیا جارہا ہے، ذیلی سلیب کو 1650 روپے فی 100 اسٹک کے لحاظ سے ٹیکس عائد کیا جارہا ہے۔گذشتہ مالی سال 19-2018 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے بتایا تھا کہ حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کے لیے سپر ٹیکس میں کمی کی، جو بینگنگ کمپنیز پر 4 فیصد سے کم کرکے 3 فیصد اور نان بینکنگ کمپنیز کے لیے اس ٹیکس کو 12 فیصد کیا گیا جبکہ ہر سال اس ٹیکس کی شرح میں ایک ایک فیصد تک کمی ہوگی۔
انہوں نے بتایا تھا کہ حکومت نے کارپوریٹ ٹیکس میں کمی لانے کا فیصلہ کیا، جس کے مطابق 2018 کی 30 فیصد شرح کو کم کرکے 2023 تک 25 فیصد کم کیا جائے گا، جو 2019 میں 29 فیصد ہوگا اور ہر سال ایک ایک فیصد سے کم کیا جائے گا۔
غیر منقولہ ٹیکس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مفتاح اسمٰعیل نے بتایا کہ اس ٹیکس کی شرح کو 5.7 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کر دیا گیا جبکہ آفٹر ٹیکس کی لازمی ڈسٹری بیوشن کی شرح کو 40 فیصد سے کم کر کے 20 فیصد کردی گئی۔
علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بونس شیئرز پر ٹیکس کو مکمل طور پر ختم کیا تھا، ریئل اسٹیٹ انوسٹمنٹ ٹرسٹ کے یونٹ ہولڈرز کے لیے جاری کردہ منافع پر ٹیکس کو 12 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کردیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا تھا کہ بینک ٹرانزیکشن کے 0.6 فیصد ٹیکس کو کم کرکے 0.4 فیصد کردیا گیا، اس کے علاوہ اس وقت کے قانون کے مطابق 10 ہزار روپے سے زائد کی خدمات اور 25 ہزار روپے سے زائد اشیاء کی خریداری پر ٹیکس کی کٹوتی لازمی ہے، تاہم تجویز پیش کی گئی تھی کہ افراطِ زر کے پیشِ نظر ٹیکس کی کٹوتی کے لیے خدمات کی حد 30 ہزار روپے جبکہ اشیا کی خریداری کی حد 75 ہزار روپے مقرر کیے جانے کی تجویز دی گئی تھی۔
مفتاح اسمٰعیل نے بجٹ تقریر کے دوران بتایا تھا کہ عوام کی بھلائی کے لیے کام کرنے والے فلاحی ادارے ایس آئی یو ٹی، عزیز ٹبہ فاؤنڈیشن، سیلانی انٹرنیشنل فاؤنڈیشن اور الشفا آئی ہسپتال سمیت دیگر فلاحی اداروں کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا۔
تنخواہ دار/ غیر تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس کی مد میں حاصل رعائتی حد میں واضح کمی کرتے ہوئے بالترتیب سالانہ 6 لاکھ اور 4 لاکھ کی حد مقرر کردی۔
وزیر ریونیو حماد اظہر نے مالی سال 20-2019 کا بجٹ پیش کیا جہاں انہوں نے کئی اشیا کو مہنگی کرنے اور ٹیکس میں اضافے کی تجویز دی وہیں کم آمدنی والے تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار طبقے پر بھی ٹیکس عائد کردیے ہیں۔
تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی شرح
- موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے 50ہزار روپے ماہانہ یا 6 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ پر انکم ٹیکس شرح صفرمقرر کی ہے جبکہ اس سے قبل یہ حد 12 لاکھ روپے تھی۔
- 6 لاکھ سالانہ سے زائد اور 12 لاکھ سالانہ تنخواہ پر پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے 5 فیصد ٹیکس مقرر کرنے کی تجویز دی ہے۔
- 12 لاکھ روپے سالانہ سے زائد اور 18 لاکھ روپے سالانہ تک تنخواہ پر حکومت نے 30 ہزار روپے ٹیکس جبکہ 12 لاکھ روپے سے زائد تنخواہ کی صورت میں 10 فیصد اضافی انکم ٹیکس لاگو کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔
- 18 لاکھ روپے سالانہ سے زائد اور 25 لاکھ روپے سالانہ تک تنخواہ پر 90 ہزار روپے ٹیکس اور 18 لاکھ روپے سے زائد تنخواہ کی صورت میں اضافی 15 فیصد انکم ٹیکس وصول کرنے کی تجویز دی گئی۔
- 25 لاکھ روپے سالانہ سے زائد اور 35 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ پر متعلقہ شخص سے ایک لاکھ روپے ٹیکس اور 25 لاکھ روپے تنخواہ کی حد سے تجاوز کی صورت میں 17.5 فیصد اضافی انکم ٹیکس وصول کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
- 35 لاکھ روپے سالانہ سے زائد اور 50 لاکھ روپے سالانہ تک تنخواہ پر 3 لاکھ 70 ہزار روپے ٹیکس جبکہ 35 لاکھ روپے سے زائد کی صورت میں اضافی 20 فیصد انکم ٹیکس وصول کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
- 50 لاکھ روپے سالانہ سے زائد اور 80 لاکھ روپے سے زائد سالانہ تنخواہ پر 6 لاکھ 70 ہزار روپے جبکہ 50 لاکھ روپے سے زائد کی صورت میں اضافی 22.5 فیصد ٹیکس کی تجویز دی گئی ہے۔
- 80 لاکھ روپے سالانہ سے زائد اور ایک کروڑ 20 لاکھ روپے سالانہ تک تنخواہ پر 13 لاکھ 45 ہزار روپے ٹیکس جبکہ 80 لاکھ روپے ٹیکس جبکہ 80 لاکھ روپے سے زائد کی صورت میں متعلقہ شخص سے اضافی 25 فیصد انکم ٹیکس وصول کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
- ایک کروڑ 20 لاکھ روپے سالانہ سے 3 کروڑ روپے سالانہ تک تنخواہ پر 23 لاکھ 45 ہزار روپے ٹیکس جبکہ ایک کروڑ 20 لاکھ روپے سے زائد کی صورت میں اضافی 27.5 فیصد ٹیکس وصول کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
- بجٹ 20-2019 میں تجویز دی گئی ہے کہ 3 کروڑ روپے سالانہ سے 5 کروڑ روپے سالانہ تک تنخواہ پر متعلقہ شخص سے 72 لاکھ 95 ہزار روپے ٹیکس جبکہ 3 کروڑ روپے سے زائد کی صورت میں اضافی 30 فیصد انکم ٹیکس وصول کیا جائے گا۔
- 5 کروڑ روپے سالانہ سے زائد اور 7 کروڑ 50 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ پر ایک کروڑ 32 لاکھ 95 ہزار روپے ٹیکس جبکہ 5 کروڑ روپے سے زائد کی صورت میں اضافی 32.5 فیصد ٹیکس وصول کیے جانے کی تجویز دی گئی ہے۔
- 7 کروڑ 50 لاکھ روپے سالانہ اور 20 کروڑ 14 لاکھ 20 ہزار روپے سالانہ تک تنخواہ پر 2 کروڑ 14 لاکھ 20 ہزار روپے ٹیکس جبکہ 7 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زائد کی صورت میں اضافی 35 فیصد ٹیکس وصول کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فنانس ایکٹ 2018 میں تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار دونوں طرح کے افراد کے لیے ٹیکس کی شرح میں نمایاں کمی کی گئی تھی جبکہ اس سے قبل قابل ٹیکس آمدن کی کم ازکم حد 4 لاکھ روپے تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ فنانس ایکٹ 2018 میں قابل ٹیکس آمدن کی حد کو 3 گنا بڑھا کر 12 لاکھ روپے کردیا گیا تھا جس کے نتیجے میں محصولات کی مد میں 80 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
وزیر مملکت برائے ریونیو کا کہنا تھا کہ عام طور پر قابل ٹیکس آمدن کی کم ازکم حد ملک کی فی کس آمدن کے تناسب سے ہوتی ہے اور اس طرح کے غیر معمولی اضافے کی مثال نہیں ملتی۔
آمدن میں ٹیکس کی حد اضافے کی تجویز پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قابل ٹیکس آمدن کی کم سے کم حد پر نظر ثانی کرکے اس سے تنخواہ دار طبقے کے لیے 6 لاکھ روپے اور غیر تنخواہ دار طبقے کے لیے 4 لاکھ روپے کردیا جائے گا۔
غیر تنخواہ دار طبقے کے لیے شرح ٹیکس
- 4 لاکھ روپے سالانہ تک آمدن والے غیر تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی
شرح صفر مقرر کی گئی ہے۔ - 4 لاکھ روپے سالانہ سے 6 لاکھ روپے سالانہ تک آمدن پر غیر تنخواہ دارطبقے سے 5 فیصد انکم ٹیکس وصول کرنے کی تجویز ہے۔
- 6 لاکھ روپے سالانہ سے 12 لاکھ روپے سالانہ تک آمدن پر 10 ہزار روپےٹیکس اور 6 لاکھ روپے سے زائد کی صورت میں اضافی 10 فیصد انکم ٹیکس وصولکیا جائے گا۔
- 12 لاکھ روپے سالانہ سے 24 لاکھ روپے سالانہ تک آمدن پر غیر تنخواہ دارطبقے سے 70 ہزار روپے ٹیکس جبکہ 12 لاکھ سے زائد کی صورت میں 15 فیصد تکانکم ٹیکس وصول کرنے کی تجویز ہے۔
- 24 لاکھ روپے سالانہ سے 30 لاکھ روپے سالانہ تک آمدن پر 2 لاکھ 50 ہزارروپے ٹیکس اور آمدن 24 لاکھ سے زائد ہونے کی صورت میں اضافی 20 فیصدانکم ٹیکس دینا ہوگا۔
- 30 لاکھ روپے سالانہ سے 40 لاکھ روپے سالانہ تک آمدن پر 3 لاکھ 70 ہزارروپے جبکہ آمدن 30 لاکھ روپے سے تجاوز کرنے کی صورت میں متعلقہ شخص کو25 فیصد اضافی انکم ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔
- 40 لاکھ روپے سالانہ سے 60 لاکھ روپے سالانہ تک آمدن پر 6 لاکھ 20 ہزارروپے ٹیکس جبکہ آمدن 40 لاکھ روپے سے تجاوز کرنے کی صورت میں غیر تنخواہدار طبقے سے اضافی 30 فیصد انکم ٹیکس وصول کیا جائے گا۔
- 60 لاکھ روپے سالانہ سے زائد آمدن والے غیر تنخواہ دار طبقے کو 12 لاکھ20 ہزار روپے اور اضافی 35 فیصد انکم ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ میں تجویز ہے کہ 6 لاکھ روپے سے زائد آمدن والے تنخواہ دار افراد کے لیے 11 قابل ٹیکس سلیبز 5 فیصد سے 35 فیصد تک کے پروگریس ٹیکس ریٹ کے ساتھ متعارف کروائے جائیں۔
غیر تنخواہ دار طبقے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 4 لاکھ روپے سے زائد آمدن والے غیر تنخواہ دار افراد کے لیے آمدن کی 8 سلیبز 5 فیصد سے 35 فیصد ٹیکس ریٹ کے ساتھ متعارف کروائے جائیں گے۔
خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے چینی، خوردنی تیل سمیت دیگر اشیا میں بھی ٹیکس اور ڈیوٹی میں اضافے کی تجویز دی ہے جس کے باعث آئندہ مالی سال کے دوران مہنگائی میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
ریونیو/قرضہ
انہوں نے مزید بتایا کہ وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) نے سرمائے کی کمی دور کرنے کے لیے گزشتہ برس کے 54 ارب روپے کے مقابلے میں 145 ارب روپے کے ریفنڈ جاری کیے، پیچھے رہ جانے والوں کے لیے امداد اور فنڈز کے پروگرام شروع کیے گئے، بلین ٹری سونامی اور کلین اینڈ گرین پروگرام شروع کیے گئے، سابق فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے لیے خیبرپختونخوا کا حصہ بنانے پر خصوصی توجہ دی گئی۔
مالی سال 20-2019 کے بجٹ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بجٹ بناتے وقت حکومت کا بنیادی مقصد عوام کی فلاح اور خوشحالی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مالی سال 20-2019 کے بجٹ کے لیے ہم نے بیرونی خسارے میں کمی کا ہدف رکھا ہے اور درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافے سے بیرونی خسارے کو کم کیا جائے گا، جس کا مقصد کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 13 ارب ڈالر سے کم کرکے 6.5 ارب ڈالر تک کیا جائے گا، برآمدات میں اضافے کے لیے حکومت خام مال اور انٹرمیڈیٹ اشیا کے ڈیوٹی اسٹرکچر کے حوالے سے سپورٹ کرے گی، ٹیکس ریفنڈ کا نظام بہتر بنائے گی، مقابلے کی سستی بجلی اور گیس فراہم کرے گی، آزادانہ تجارتی معاہدوں کو دیکھا جائے گا اور پاکستان کو بین الاقوامی کڑی کا حصہ بنایا جائے گا، ایف بی آر کے ریونیو کے لیے 5 ہزار 550 ارب روپے کا چیلنجنگ ہدف رکھا گیا ہے۔
وزیر مملکت برائے ریونیو نے بتایا کہ مالی سال 20-2019 کے لیے صوبائی سرپلس کا تخمینہ 423 ارب روپے ہے اور مجموعی مالی خسارہ 3 ہزار 137 ارب یا جی ڈی پی کا 7.1 فیصد ہوگا جو 19-2018 میں 7.2 فیصد تھا۔
بجٹ تقریر کے دوران کسٹم ڈیوٹی کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات کے حوالے سے حماد اظہر نے بتایا کہ ماضی میں ملکی ٹیکسوں سے ملنے والے کم ریونیو کی وجہ سے کسٹم ٹیرف کو درآمدات سے ریونیو حاصل کرنے کے لیے بے دردری سے استعمال کیا گیا، اس وقت پاکستان میں اوسطاً کسٹمز ٹیرف اور درآمدات کے مرحلے کے حوالے سے ریونیو بہت زیادہ ہے جبکہ درآمدات سے حاصل ہونے والے ریونیو میں تیزی سے اضافہ ہوا، درآمد شدہ خام مال کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں ملکی اور برآمدی دونوں صنعتوں کی مسابقت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کو مکمل یقین ہے کہ برآمدات اور ملکی مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کے لیے کسٹمز ٹیرف کا استدلال ایک بنیادی ضرورت ہوتی ہے، اسی مقصد کے لیے 1600 سے زائد ٹیرف لائنز پر ڈیوٹی، خام مال کے ضمن میں مستثنیٰ کی جارہی ہے، جس سے تقریباً 20 ارب روپے کا ریونیو کا نقصان ہوگا لیکن صنعتی ترقی کے بدلے میں بہت زیادہ فوائد کی توقع ہے، حکومت کسٹمز ٹیرف کے اصلاحاتی منصوبے کو حتمی شکل دے رہی ہے جسے مرحلہ وار لاگو کیا جائے گا۔
حماد اظہر نے کہا کہ بجلی کا گردشی قرضہ 1.6کھرب روپے، گیس کا گردشی قرضہ 150 ارب روپے ہے، گردشی قرضوں کے لیے بجلی اور گیس کے ٹیرف پر نظرثانی کی گئی، بجلی چوری کرنے والوں کے خلاف مہم کا آغاز کرکے 80 ارب روپے وصول کیے گئے ہیں اور حکومتی اقدامات کی وجہ سے گردشی قرضوں میں اضافہ 38 ارب روپے ماہانہ سے سے کم ہوکر 24 ارب رہ گیا ہے۔
دفاع
وفاقی حکومت نے دفاعی بجٹ کو گزشتہ مالی سال کے بجٹ کے مطابق برقرار رکھتے ہوئے 1152 ارب روپے مختص کیا ہے۔
مالی سال 20-2019 کے بجٹ تقریر کے دوران حماد اظہر نے کہا کہ سول و عسکری حکام نے اپنے اخراجات میں مثالی کمی کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں ٹیکس وصولی کم ہے، نئے پاکستان میں اس کو بدلنا ہوگا، جب تک ٹیکس نظام میں بہتری نہیں آئی گی پاکستان ترقی نہیں کرسکتا، سول و عسکری بجٹ میں کفایت شعاری کے ذریعے بچت کی جائے گی۔
اس سے قبل 5 جون 2019 کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ پاک فوج نے دفاعی بجٹ میں سالانہ اضافہ نہ لینے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ قوم پر احسان نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'بجٹ کٹوتی کو دفاعی صلاحیت اور جوانوں کے معیار زندگی پر اثرانداز کئے بغیر آنے والے مالی سال میں دیگر امور میں ایڈجسٹمنٹ سے پورا کیا جائے گا'۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ تنخواہوں میں اضافہ نہ لینے کا فیصلہ بھی صرف افسران کا ہے، جوانوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔
مزید پڑھیں: دفاعی بجٹ میں سالانہ اضافہ نہ لینے کا فیصلہ قوم پر احسان نہیں، آرمی چیف
مالی سال 19-2018 کے بجٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے دفاع کے لیے گذشتہ برس 18-2017 کے مقابلے میں 19.4 فیصد اضافہ کرتے ہوئے 11 کھرب (1100 ارب) روپے تجویز کیے تھے، سال 18-2017 کے بجٹ میں 9 کھرب 20 ارب (920 ارب) روپے دفاع کے لیے رکھے گئے تھے، 19-2018 میں اس میں ایک کھرب 80 ارب (180ارب) روپے کا اضافہ کیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ یکم جولائی 2018 سے فوجی ملازمین اور سول ملازمیں کی تنخواہ میں 10 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس بھی دیا جائے گا۔
اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے گذشتہ برس مالی سال 18-2017 کے بجٹ میں دفاع کے لیے مختص رقم میں 7 فیصد اضافہ کیا تھا، 17-2016 میں دفاع کے لیے 860 ارب مختص کیے تھے جبکہ 18-2017 کے بجٹ میں دفاع کے لیے 920 ارب روپے تجویز کیے تھے۔
واضح رہے کہ 18-2017 میں مجموعی بجٹ 51 کھرب روپے تجویز کیا گیا تھا جبکہ مالی سال 17-2016 کے بجٹ میں دفاع کے لیے مختص بجٹ مکمل طور پر خرچ نہیں ہوا تھا، 860 ارب میں سے 841 ارب روپے کا بجٹ خرچ کیا گیا تھا۔
بجٹ میں فوجی اہلکاروں اور افسران کی خدمات کے اعتراف میں خصوصی الاونس کا بھی اعلان کیا گیا تھا جبکہ جوانوں کی تنخواہ میں بھی 10 فیصد کا اضافہ کیا گیا تھا۔
تنخواہیں/پینشن
وزیر مملکت نے کہا کہ وفاقی حکومت کے ملازمین اور پینشنرز کے لیے سول گریڈ 1 سے 16 تک کے ملازمین کے لیے 10 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس، 17 سے 20 تک کی تنخواہوں میں 5 فیصد اور 21 اور 22 کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا کیونکہ انہوں نے ملکی معاشی صورتحال کے پیش نظر یہ قربانی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی حکومت کے تمام سول اور فوجی پینشرز کی کُل پینشن میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ معذور ملازمین کا اسپیشل کنوینس الاؤنس 1 ہزار سے بڑھا کر 2 ہزار کیا جارہا ہے جبکہ وزرا، وزرائے مملکت، پارلیمانی سیکریٹری، ایڈیشنل سیکریٹری، جوائنٹ سیکریٹری کے ساتھ کام کرنے والے اسپیشل پرائیوٹ سیکریٹری، پرائیوٹ سیکریٹری اور اسسٹنٹ پرائیوٹ سیکریٹری کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے۔
کابینہ کے تمام وزرا نے عمران خان کی قیادت میں اپنی تنخواہ میں 10 فیصد کمی کا تاریخی فیصلہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کم از کم تنخواہ بڑھاکر 17 ہزار 500 روپے ماہانہ کی جارہی ہے۔
انفرااسٹرکچر
توانائی
حماد اظہر نے کہا کہ توانائی کے لیے 80 ارب روپے تجویز کیے جارہے ہیں، داسو پن بجلی منصوبے کیلئے 55 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں۔
گذشتہ حکومت نے مالی سال 2018-19 کے دوران بجلی کے شعبے میں 138 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی تجویز دی تھی۔
پانی
وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ رواں سال زرعی شعبے میں 4.4 فیصد کمی ہوئی ہے، اسے واپس اوپر اٹھانے کے لیے صوبائی حکومتوں سے مل کر 280 روپے کا 5 سالہ پروگرام شروع کیا جارہا ہے، اس پروگرام کے تحت پانی سے زیادہ سے زیادہ پیداوار کے لیے پانی کا انفراسٹرکچر بنایا جائے گا اور اس کے تحت 218 ارب روپے کے منصوبوں پر کام ہوگا، گندم، چاول، گنے اور کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کے لیے 44.8 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کیکڑے اور ٹھنڈے پانی کی ٹراؤٹ مچھلی کی فارمنگ کے منصوبوں کے لیے 9.3 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے، گھریلو مویشی کے پالنے کے لیے 5.6 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے، جبکہ زرعی ٹیوب ویلوں پر 6.85 روپے فی یونٹ کے حساب سے رعایتی نرخ فراہم کیے جائیں گے۔
مالی سال 19-2018 کے ترقیاتی بجٹ میں حکومت صحت، تعلیم، غدائیت، پینے کے صاف پانی کے لیے 93 ارب روپے مختص کرے گی، کم آمدن والے افراد کو سستے گھر بنا کر دینے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، اس کے علاوہ موسمی تبدیلی کی تلافی کے لیے بلین ٹری سونامی، کلین اور گرین پاکستان پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔
گذشتہ حکومت نے دیامر بھاشا ڈیم کے منصوبے کی مجموعی لاگت 474 ارب روپے بتائی تھی اور جس میں 64 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہو گی۔
اس منصوبے کے لیے مالی سال 2018-19 کے دوران 23.7 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی، پانی کے شعبے میں مجموعی سرمایہ کاری 18-2017 کے 36.7 ارب سے بڑھ کر 2018-19 میں 79 ارب روپے ہوگئی تھی۔
شاہرائیں
ان کا کہنا تھا کہ سڑک اور ریل سے متعلق کچھ منصوبے سی پیک کا حصہ ہوں گے، اس مقصد کے لیے 200 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں جن میں سے 156 ارب روپے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ذریعے خرچ کیے جائیں گے، حویلیاں - تھاکوٹ شاہراہ کے لیے 24 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں، پشاور - کراچی موٹر وے کے سکھر-ملتان سیکشن کے لیے 19 روپے تجویز کیے گئے ہیں۔
بجٹ 2018-19 میں شاہراہوں کے لیے 310 ارب روپے تجویز کیے گئے تھے، ان منصوبے میں مندر ذیل شامل تھے:
- خضدار شہداد کوٹ موٹروے
- 230 کلومیٹر لاہور۔ملتان موٹروے
- 62 کلومیٹر گوجرہ۔شورکوٹ موٹروے
- 64 کلومیٹر شورکوٹ۔خانیوال موٹروے
- 91 کلومیٹر سیالکوٹ۔لاہور موٹروے
- 57 کلومیٹر ہزارہ موٹروے
ریلویز
اس کے علاوہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت سوات ایکسپریس وے کو توسیع دی جائے گی، سمبڑیال-کھاریاں موٹروے تعمیر کی جائے گی اور میانوالی سے مظفرگڑھ تک ٹووے کیا جائے گا۔
گذشتہ مالی سال 19-2018 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ گذشتہ 5 سال میں پاکستان ریلوے کی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، جس کے بعد 19-2018 کے بجٹ کے لیے 35 ارب روپے کی بجٹ گرانٹ کے علاوہ ترقیاتی سرمایہ کاری کے لیے 39 ارب روپے رکھے گئے۔
تعلیم/صحت
وزیر مملکت نے کہا کہ کمزور طبقوں کے تحفظ کے حوالے سے 4 مختلف تجاویز کا ذکر کروں گا، بجلی کے صارفین میں 75 فیصد ایسے ہیں جو ماہانہ 300 یونٹ سے کم استعمال کر رہے ہیں حکومت انہیں خصوصی تحفظ فراہم کرے گی، اس مقصد کے لیے 200 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے غربت کے خاتمے کے لیے ایک علیحدہ وزارت قائم کی ہے جو ملک میں سماجی تحفظ کے پروگرام بنائے گی اور ان پر عملدرآمد کرے گی، احساس پروگرام سے مدد حاصل کرنے والوں میں انتہائی غریب، یتیم، بے گھر، بیوائیں، معذور اور بے روزگار افراد شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 10 لاکھ مستحق افراد کو صحت مند خوراک فراہم کرنے کے لیے ایک نئی 'راشن کارڈ اسکیم' شروع کی جارہی ہے، جس کے تحت ماؤں اور بچوں کو خصوصی صحت مند خوراک دی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ 80 ہزار مستحق افراد کو ہر مہینے بلاسود قرضے دیئے جائیں گے، 60 لاکھ خواتین کو ان کے اپنے سیونگ اکاؤنٹس میں وظائف کی فراہمی اور موبائل فون تک رسائی دی جائے گی، 500 کفالت مراکز کے ذریعے خواتین اور بچوں کو فری آن لائن کورسز کی سہولت دی جائے گی، معذور افراد کو وہیل چیئر اور سننے کے لیے آلات فراہم کیے جائیں گے۔
حماد اظہر نے کہا کہ تعلیم میں پیچھے رہنے والے اضلاع میں والدین کو بچوں کو اسکول بھیجنے کے لیے خصوصی ترغیب دی جائے گی، جبکہ عمر رسیدہ افراد کے لیے احساس گھر بنانے کا پروگرام شروع کردیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ احساس پروگرام کے تحت بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے ذریعے 57 لاکھ انتہائی غریب گھرانوں کو فی سہ ماہی 5000 روپے نقد امداد دی جاتی ہے جس کے لیے 110 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے، افراط زر کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سہ ماہی وظیفے کو بڑھا کر 5500 مقرر کیا گیا ہے۔
وزیر مملکت نے کہا کہ غریبوں کی نشاندہی کے لیے سماجی اور معاشی ڈیٹا کو اپ ڈیٹ کیا جارہا ہے جو مئی 2020 تک مکمل ہوگا، اس دوران 3 کروڑ 20 لاکھ گھرانوں اور 20 کروڑ آبادی کا سروے کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ 50 اضلاع میں 'بی آئی ایس پی' سے بچیاں 750 روپے وظیفہ حاصل کرتی ہیں، اس پروگرام کو مزید 100 اضلاع تک توسیع دی جارہی ہے اور بچیوں کے وظیفے کی رقم 750 سے بڑھا کر 1000 تک کی جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صحت سہولت پروگرام کے تحت غریب افراد کو صحت کی انشورنس فراہم کی جاتی ہے، مستحق افراد کو صحت کارڈ فراہم کیے جاتے ہیں جن سے وہ ملک بھر سے منتخب 270 ہسپتالوں سے 7 لاکھ 20 ہزار روپے کا سالانہ علاج کروا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں پاکستان کے 42 اضلاع میں 32 لاکھ خاندانوں کو صحت انشورنس کی سہولت فراہم کی جارہی ہے، اگلے مرحلے میں اسے ڈیڑھ کروڑ پسماندہ خاندانوں تک توسیع دی جائے گی، اس پروگرام کا اطلاق تمام اضلاع بشمول تھرپارکر اور خیبر پختونخوا کے خاندانوں پر ہوگا۔
آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں حکومت صحت، تعلیم، غدائیت، پینے کے صاف پانی کے لیے 93 ارب روپے مختص کرے گی، کم آمدن والے افراد کو سستے گھر بنا کر دینے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، اس کے علاوہ موسمی تبدیلی کی تلافی کے لیے بلین ٹری سونامی، کلین اور گرین پاکستان پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم کوشش کریں گے کہ قیمتوں میں کم سے کم اضافہ کیا جائے لیکن اگر عالمی منڈیوں میں قیمتیں بڑھنے سے ہمیں قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑے تو ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ صارفین کو تحفظ دیا جائے، قیمتوں میں استحکام بنیادی اہمیت رکھتا ہے، مالیاتی پالیسی اور مانیٹری پالیسی کے ذریعے قیمتوں میں اضافے کا مقابلہ کریں گے جس کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کیے گئے ہیں۔
حماد اظہر نے کہا کہ زراعت صوبائی محکمہ ہے تاہم اس شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے وفاقی حکومت صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے اور اس میں ترقی کے لیے 12 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی ترقی کے لیے 10.4 ارب روپے سے کوئٹہ ڈیولپمنٹ پیکج کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا ہے، یہ رقم 30 ارب روپے کے پانی اور نکاسی کے منصوبوں سے الگ ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کے 9 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 45۔5 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔
روزگار کے لیے وزیر اعظم کے '50 لاکھ گھر پروگرام' سے 28 صنعتوں کو فائدہ ہوگا اور بے روزگاروں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، اس کے لیے زمینیں حاصل کرلی گئی ہیں اور سرمایہ کاری کے انتظامات مکمل کیے جارہے ہیں، یہ سلسلہ ملک بھر میں پھیلے گا، پہلے مرحلے میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے لیے 25 ہزار اور بلوچستان میں 1 لاکھ 10 ہزار ہاؤسنگ یونٹ کا افتتاح کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ نئے کاروبار کے لیے سستے قرضے کی اسکیم کے تحت 100 ارب روپے دیئے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال میں انسانی ترقی کے لیے 60 ارب روپے تجویز کیے جارہے ہیں جبکہ صحت، تعلیم، ترقیاتی اہداف کا حصول، موسمیاتی تبدیلی اہم ترجیحات ہیں۔
گذشتہ مالی سال 19-2018 میں مسلم لیگ (ن) نے اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت ایک نئے پروگرام کا آغاز کر رہے ہیں جس کا نام 100،100،100 ہے، جس کی تشریح یہ پیش کی گئی تھی، وفاقی حکومت کا عہد ہے کہ 100 فیصد بچوں کے اسکول میں داخلے، 100 فیصد بچوں کی اسکول میں حاضری اور 100 فیصد بچوں کے کامیابی سے فارغ التحصیل ہونے کو یقینی بنائے گی، یہ بھی اعلان کیا گیا تھا کہ اگرچہ تعلیم کا شعبہ اب صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے، پھر بھی وفاقی حکومت مالی اور انتظامی لحاظ سے ہر صوبے کو اس مقصد کے حصول میں معاونت فراہم کرے گی۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے صحت کے شعبے میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کا دعویٰ کیا تھا، حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صحت کے شعبے کو صوبوں کے حوالے کئے جانے کے باوجود وفاقی حکومت اس شعبے میں اپنی ذمہ داریوں سے روگردانی نہیں کر سکتی تھی، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار غریب عوام کو صحت کی معیاری سہولیات فراہم کرنے کیلئے ’پرائم منسٹر نیشنل ہیلتھ پروگرام‘ کا اجراء کیا گیا جس کے تحت 30 لاکھ خاندانوں کو 41 اضلاع میں سرکاری اور نجی ہسپتالوں سے صحت کی معیاری سہولیات بالکل مفت فراہم کی جا رہی ہیں اور اب اس پروگرام کا دائرہ ملک کے تمام اضلاع تک پھیلایا جا رہا ہے۔
زراعت
وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ رواں سال زرعی شعبے میں 4.4 فیصد کمی ہوئی ہے، اسے واپس اوپر اٹھانے کے لیے صوبائی حکومتوں سے مل کر 280 ارب روپے کا 5 سالہ پروگرام شروع کیا جارہا ہے، اس پروگرام کے تحت پانی سے زیادہ سے زیادہ پیداوار کے لیے پانی کا انفراسٹرکچر بنایا جائے گا اور اس کے تحت 218 ارب روپے کے منصوبوں پر کام ہوگا، گندم، چاول، گنے اور کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کے لیے 44.8 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کیکڑے اور ٹھنڈے پانی کی ٹراؤٹ مچھلی کی فارمنگ کے منصوبوں کے لیے 9.3 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے، گھریلو مویشی کے پالنے کے لیے 5.6 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے، جبکہ زرعی ٹیوب ویلوں پر 6.85 روپے فی یونٹ کے حساب سے رعایتی نرخ فراہم کیے جائیں گے۔
حماد اظہر نے کہا کہ زراعت صوبائی محکمہ ہے تاہم اس شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے وفاقی حکومت، صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے اور اس میں ترقی کے لیے 12 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال میں انسانی ترقی کے لیے 60 ارب روپے تجویز کیے جارہے ہیں جبکہ صحت، تعلیم، ترقیاتی اہداف کا حصول، موسمیاتی تبدیلی اہم ترجیحات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے کسانوں سے 10 ہزار روپے ماہانہ بل وصول کیا جاتا ہے اور 75 ہزار تک کا اضافی بل صوبائی اور وفاقی حکومتیں برداشت کرتی ہیں، چھوٹے کسانوں کے فصل خراب ہونے کی صورت میں نقصان کی تلافی کے لیے انشورنس اسکیم متعارف کرائی جارہی ہے جس کے لیے 2.5 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔
مالی سال 18-2017 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا تھا کہ کسانوں کے لیے قرضوں کا حجم ایک ہزار ایک ارب روپے مقرر کیا گیا اور یکم جولائی 2017 سے شروع ہونے والے مالی سال سے 9.9 فیصد سالانہ کی شرح سے زرعی قرضے ملیں گے، انہوں نے مزید کہا تھا کہ زرعی قرضوں کا حجم ترقیاتی حجم کے برابر کیا گیا، فی کسان 50 ہزار روپے تک قرضہ دیا جائے گا جبکہ زرعی مشینری پر کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس ختم کی جارہی ہے۔
بعد ازاں مالی سال 19-2018 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ 18-2017 کے دوران دی جانے والی مراعات کو جاری رکھا جائے گا، بجٹ میں جن مراعات کا اعلان کیا گیا تھا ان میں زرعی سود کی کمی، زرعی درجہ جات کی حد میں اضافہ، ہارویسٹر پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ، سورج مکھی اور کینولا کے بیج کی در آمد پر خاتمے جیسے اقدامات شامل تھے۔
درآمدات/برآمدات
وزیر مملکت حماد اظہر کا کہنا تھا کہ صنعتی اور برآمدی شعبوں کو رعایتی نرخوں پر بجلی اور گیس کی فراہمی، کم سود پر قرضوں کی فراہمی، خام مال پر عائد درآمدی ڈیوٹی میں کمی کے ذریعے مجموعی طور پر 10 ارب روپے کی رعایت، برآمدی شعبے میں وزیر اعظم کے پروگرام میں 3 سال کی توسیع، چین سے 313 اشیا کا ڈیوٹی فری معاہدے جیسے اقدامات سے موجودہ سال میں برآمدات کے حجم میں اضافہ ہوا۔
حماد اظہر نے بتایا کہ نِٹ ویئر میں 16 فیصد، بیڈ ویئر میں 10 فیصد، ریڈی میڈ گارمنٹس میں 29 فیصد، پھلوں اور سبزیوں میں 11اور 18 فیصد اور باسمتی چاول کی مقدار میں 22 فیصد اضافہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کا معاہدہ ہوگیا ہے، آئی ایم ایف کے بورڈ کی منظوری کے بعد اس پر عمل درآمد شروع ہوجائے گا، اس پروگرام میں ہونے کی وجہ سے کم سود پر 2 سے 3 ارب ڈالر کی اضافی امداد بھی میسر ہوگی، مالیاتی نظم و ضبط اور بنیادی اصلاحات کے لیے حکومت کی سنجیدگی نظر آئے گی جس سے عالمی سرمایہ کاروں کاا اعتماد حاصل ہوگا اور معیشت کو استحکام حاصل ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب سے فوری ادائیگی کے بغیر 3.2 ارب ڈالر کا سالانہ تیل درآمد کرنے کی سہولت حاصل کی تاکہ عالمی کرنسی کے ذخائر پر دباؤ کم ہو، اس کے علاوہ حکومت نے اسلامی ترقیاتی بینک سے ایک ارب ڈالر کی فوری ادائیگی کے بغیر تیل درآمد کرنے کی سہولت حاصل کی، ان اقدامات کی بدولت اس سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 7 ارب ڈالر کی کمی آئے گی۔
حماد اظہر نے بتایا کہ ان سب بیرونی اقدامات کے علاوہ حکومت نے دیگر اقدامات کیے، اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم متعارف کروائی گئی۔
صنعتی شعبے کے لیے مراعات اور سبسڈی دی جارہی ہیں جس میں بجلی اور گیس کے لیے 40 ارب کی سبسڈی، برآمدی شعبے کے لیے 40 ارب روپے کا پیکج اور حکومت طویل المدتی ٹریڈ فنانسنگ کی سہولت برقرار رکھے گی۔
مالی سال 20-2019 کے بجٹ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے بیرونی خسارے میں کمی کا ہدف رکھا ہے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 13 ارب ڈالر تک کم کرکے 6.5 ارب ڈالر تک کم کیا جائے گا، درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ کیا جائے گا، آزادانہ تجارتی معاہدوں کو دیکھا جائے گا، سول و عسکری حکام نے اپنے اخراجات میں مثالی کمی کا اعلان کیا ہے۔
وزیر مملکت برائے ریونیو کا کہنا تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر کو بچانے کے لیے ممنوعہ ریگولیٹری ڈیوٹیز کے استعمال درآمدات تو کم ہوئیں لیکن ان میں کچھ اشیا ٹرانزٹ ٹریڈ میں چلی گئیں اور پھر انہیں واپس اسمگل کیا گیا، لہٰذا تجویز ہے کہ ٹائر، وارنش اور خوراک کی صنعت میں خوراک کی تیاری کے حوالے سے ڈیوٹی کے ڈھانچے کو منطقی بنایا جائے تاکہ ان اشیا کو اسمگلنگ میں منتقل ہونے سے بچایا جائے اور ضائع محصولات کو حاصل کیا جائے۔
مالی سال 17-2016 میں درآمدات میں 14.2 فیصد اضافہ ہوا لیکن اسے قبل 16-2015 میں 2.3 فیصد اور 15-2014 میں 0.9 فیصد کمی واقع ہوئی تھی جبکہ 14-2013 میں 3.8 فیصد اضافہ دیکھا گیا تھا۔
مالی سال 17-2016 میں برآمدات میں 1.4 فیصد، 16-2015 میں 8.8 فیصد اور 15-2014 میں 3.9 فیصد کمی واقع ہوئی تھی جبکہ 14-2013 میں اس میں 1.1 فیصد اضافہ ہوا تھا۔
ترقیاتی اخراجات
مالی سال 19-2018 کے بجٹ میں ترقیاتی اخراجات کے لیے 10 کھرب 67 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت نے گذشتہ سال 18-2017 کے مالی بجٹ میں ترقیاتی اخراجات میں 37 فیصد اضافہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں کو پی ایس ڈی پی بجٹ کا 67 فیصد حصہ حاصل ہوگا، جس کے لیے 411 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔
حماد اظہر نے کہا کہ اس سال قومی ترقیاتی بجٹ میں 1800 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جن میں سے 950 ارب روپے وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے رکھے گئے ہیں، ترقیاتی بجٹ کی ترجیحات میں پانی کا نظام، معلومات پر مبنی معیشت کا قیام، بجلی کی ترسیل و تقسیم کو بہتر بنانا، کم لاگت میں بجلی کی پیداوار، سی پیک، انسانی و سماجی ترقی میں سرمایہ کاری اور متعلقہ شعبوں میں پبلک ۔ پرائیویٹ پارٹنر شپ شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آبی وسائل کے بہتر استعمال کے لیے وفاقی ترقیاتی پروگرام کی توجہ بڑے ڈیموں اور نکاسی آب کے منصوبوں پر مرکوز ہے اس مقصد کے لیے 70 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں، دیامر بھاشا ڈیم کے لیے زمین حاصل کرنے کے لیے 20 ارب روپے اور مہمند ڈیم کے لیے 15 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سڑک اور ریل سے متعلق کچھ منصوبے سی پیک کا حصہ ہوں گے، اس مقصد کے لیے 200 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں جن میں سے 156 ارب روپے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ذریعے خرچ کیے جائیں گے، حویلیاں - تھاکوٹ شاہراہ کے لیے 24 ارب روپے تجویز کیے گئے ہیں، پشاور - کراچی موٹر وے کے سکھر-ملتان سیکشن کے لیے 19 روپے تجویز کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت سوات ایکسپریس وے کو توسیع دی جائے گی، سمبڑیال-کھاریاں موٹروے تعمیر کی جائے گی اور میانوالی سے مظفرگڑھ تک ٹووے کیا جائے گا۔
حماد اظہر نے کہا کہ توانائی کے لیے 80 ارب روپے تجویز کیے جارہے ہیں، داسو پن بجلی منصوبے کیلئے 55 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال میں انسانی ترقی کے لیے 60 ارب روپے تجویز کیے جارہے ہیں جبکہ صحت، تعلیم، ترقیاتی اہداف کا حصول، موسمیاتی تبدیلی اہم ترجیحات ہیں۔
حماد اظہر نے کہا کہ زراعت صوبائی محکمہ ہے تاہم اس شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے وفاقی حکومت، صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے اور اس میں ترقی کے لیے 12 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی ترقی کے لیے 10.4 ارب روپے سے کوئٹہ ڈیولپمنٹ پیکج کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا ہے، یہ رقم 30 ارب روپے کے پانی اور نکاسی کے منصوبوں سے الگ ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کے 9 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 45.5 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔
اس سے قبل ترقیاتی کاموں کے لیے 18-2017 میں ایک ہزار ایک ارب روپے، 17-2016 میں 800 ارب روپے، مالی سال 16-2015 میں 700 ارب روپے، 15-2014 میں 525 ارب روپے جبکہ 14-2013 میں 540 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔
وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ انضمام شدہ قبائلی علاقوں کے ترقیاتی اخراجات کے لیے 152 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے جس میں 10 سالہ ترقیاتی منصوبہ بھی شامل ہے جس کے لیے وفاقی حکومت 48 ارب روپے دے گی، یہ 10 سالہ پیکج 1 کھرب روپے کا حصہ ہے جو وفاقی اور صوبائی حکومتیں مہیا کریں گی۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کے 9 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 45.5 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے
ٹیکس ایمنسٹی اسکیم
حماد اظہر نے بتایا کہ بیرونی استحکام کے علاوہ حکومت نے دیگر اقدامات بھی کیے، اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم پر عملدرآمد جاری ہے جس سے ٹیکس کا دائرہ وسیع ہوگا اور بے نامی اور غیر رجسٹرڈ اثاثے معیشت میں شامل ہوں گے، 95 ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے کے لیے فنڈز جاری کیے گئے، احتساب کے نظام، اداروں کے استحکام اور طرز حکمرانی بہتر بنانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے، اسٹیٹ بینک کو مزید خودمختاری دی گئی، افراط زر کو مانیٹری پالیسی کے ذریعے کنٹرول کیا جارہا ہے.
انہوں نے بتایا کہ ٹیکس پالیسی کو ٹیکس انتظامیہ سے الگ کیا گیا ہے تاکہ دونوں کام بہتر طریقے سے ہو سکے، ایک ٹریژری بینک اکاؤنٹ بنایا گیا ہے اور اب حکومت کی رقم کمرشل بینک اکاؤنٹ میں رکھنا منع ہے، پاکستان بناؤ سرٹیفکیٹ کا اجرا کیا گیا تاکہ سمندر پار پاکستانی 6.75 فیصد منافع سے فائدہ اٹھا کر وطن میں سرمایہ کر سکیں۔
وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ حکومت نے اثاثے ظاہر کرنے کے آرڈیننس 2019 کے نفاذ کے ذریعے اصلاحات کا پیکج متعارف کروادیا ہے تاکہ غیر دستاویزی معیشت کو ٹیکس نظام میں شامل کیا جائے اور ٹیکس تعمیل کی حوصلہ افزائی سےمعاشی بحالی و نمو کے مقاصد پورے ہوں۔
بجٹ سے ایک روز قبل وزیراعظم عمران خان نے قوم کے لیے جاری کیے گیے اپنے خصوصی پیغام میں پاکستانی عوام سے اپیل کی تھی کہ 30 جون تک اپنے تمام پوشیدہ اور بیرونِ ملک موجود اثاثے ظاہر کردیں کیوں کہ اس کے بعد مہلت نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے بتایا تھا کہ گذشتہ 10 سال میں پاکستان کا قرضہ 6 ہزار ارب روپے سے 30 ہزار ارب روپے تک جا پہنچا ہے جس کے باعث ٹیکس کی مد میں ملک میں جمع ہونے والے 4 ہزار ارب روپے کا نصف حصہ ماضی کے حکمرانوں کے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہوجاتا ہے اس کے بعد جو رقم بچتی ہے اس میں ملک کے اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستانی قوم دنیا میں سب سے کم ٹیکس دیتی ہے لیکن ان چند ممالک میں شامل ہے جو سب سے زیادہ خیرات دیتے ہیں، انہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی قوم میں صلاحیت موجود ہے، اس کے ساتھ جذبے کی ضرورت ہے جس کے بعد ہم 10 ہزار ارب روپے سالانہ ٹیکس جمع کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ حکومت نے اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم متعارف کروائی ہے اس میں سب شمولیت اختیار کریں، اگر ہم ٹیکس نہیں دیں گے تو ملک ترقی نہیں کرے گا، اگر ہم ایک عظیم قوم بننا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں اپنے آپ کو تبدیل کرنا پڑے گا۔
انہوں نے پاکستانی قوم کو تنبیہ کی تھی کہ آپ کے پاس 30 جون تک کی مہلت ہے، اس وقت تک اپنے تمام اندرونِ و بیرونِ ملک اثاثے، بینک اکاؤنٹس ظاہر کردیں اس کے بعد آپ کو مہلت نہیں ملے گی۔
اس سے قبل 14 مئی 2019 کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے طویل مشاورت کے بعد وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اپنی پہلی ٹیکس ایمنسٹی اور اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم متعارف کروانے کی منظوری دی تھی۔
واضح رہے کہ اس اسکیم کے تحت کالا دھن رکھنے والے افراد اسے سفید کرسکیں گے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد اسلام آباد میں وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر اور چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی، معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے ہمراہ پریس کانفرنس کی تھی، جس میں مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اس ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا مقصد ریونیو اکٹھا کرنا نہیں بلکہ اس کا بنیادی مقصد معیشت کو ڈاکیومنٹیڈ کرنا ہے تاکہ معیشت تیز رفتاری سے چل سکے اور ڈیڈ اثاثوں کو معیشت میں ڈال کر اسے فعال بنایا جاسکے۔
مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 30 جون تک اسکیم میں شامل ہونے کا موقع دیا گیا ہے اور اس اسکیم میں ہر پاکستانی شہری حصہ لے سکے گا، تاہم انوہں نے اعلان کیا تھا کہ وہ لوگ جو حکومت میں عہدے رکھ چکے ہیں یا جو ان پر انحصار کرتے ہیں وہ اس اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ اس اسکیم کے تحت پاکستان کے اندر اور باہر تمام اثاثے ظاہر کرنا ہوں گے اور ریئل اسٹیٹ کے علاوہ تمام اثاثوں کو 4 فیصد کی شرح دے کر اثاثے ظاہر کرنے والی اسکیم میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک یا بیرون ملک موجود نقد اثاثے ظاہر کرنے پر شرط یہ ہے کہ انہیں کسی بینک اکاؤنٹ میں رکھا جائے جبکہ ریئل اسٹیٹ کے معاملے میں اس کی قیمت ایف بی آر کی مقرر کردہ قیمت سے ڈیڑھ فیصد زیادہ ہوگی تاکہ وہ مارکیٹ کی قیمت کے قریب آسکے۔
اس موقع پر ایک مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اگر ایف بی آر کے مطابق کسی پراپرٹی کی قیمت 10 لاکھ روپے ہے تو اسے 15 لاکھ پر سفید کیا جائے گا اور اس پر ڈیڑھ فیصد ادا کرنا پڑے گا۔
عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ پاکستان سے بیرون ملک لے جائے گئے پیسوں کو اگر سفید کرنا ہے تو اسے بھی کیا جاسکے گا اور انہیں 4 فیصد دینا ہوگا اور بقایا رقم کو پاکستان میں لاکر یہاں کے بینک اکاؤنٹ میں رکھنا پڑے گا، تاہم وہ اگر پاکستان میں پیسے نہیں لانا چاہتے اور بیرون ملک ہی اسے سفید کروا کر رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں 4 فیصد کے ساتھ مزید 2 فیصد دینا پڑے گا۔
ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو گذشتہ اسکیموں سے مختلف بتاتے ہوئے مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ بے نامی قانون پاس ہوا ہے، اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے تحت اگر کوئی اثاثے ظاہر نہیں کرتا تو تمام اثاثے ضبط کیے جاسکتے ہیں اور لوگ جیل بھی جاسکتے ہیں، لہٰذا یہاں بے نامی اکاؤنٹس اور جائیدادوں کو سفید کرنے کی مہلت دی جارہی ہے۔
ٹیکس ایمنسٹی اسکیم مخالفت سے حمایت تک
واضح رہے کہ 16 اپریل کو کابینہ کے اجلاس میں وفاقی کابینہ کے کچھ وزرا کی جانب سے مخالفت اور تحفظات کے اظہار کے ساتھ ساتھ مزید وضاحت طلب کیے جانے پر ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی منظوری ملتوی کردی گئی تھی۔
اس بارے میں اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ کابینہ کے کچھ اراکین نے اس اسکیم کے تحت مجوزہ 15 فیصد شرح ٹیکس پر اعتراض کیا تو کچھ اراکین نے اس کی افادیت پر سوالات اٹھائے تھے۔
ذرائع نے وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے اس اجلاس کی تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اجلاس میں وفاقی وزیر برائے مواصلات مراد سعید نے پوچھا کہ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس مجوزہ ٹیکس اسکیم اور گذشتہ حکومت کی جانب سے متعارف کروائی گئی اسی قسم کی ٹیکس اسکیم میں کیا فرق ہے۔
واضح رہے کہ عمران خان ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے حامی اور مخالف رہے ہیں، انہوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ادورا میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی کھل کر مخالفت کی تھی تاہم ان پر یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ 2000ء میں جب پرویز مشرف نے ایمنسٹی اسکیم متعارف کرائی تو عمران خان نے اس اسکیم کے تحت اپنا لندن کا فلیٹ ظاہر کردیا تھا جو کہ انہوں نے 1997 میں خریدا تھا لیکن ظاہر نہیں کیا تھا۔
اس سے قبل مارچ 2013ء کو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں عمران خان نے کہا تھا کہ اگر ٹیکس ایمنسٹی اسکیم منظور کی گئی تو وہ اس کے خلاف عدالت عظمیٰ چلے جائیں گے۔
جنوری 2016 کو نواز شریف دور میں پی ٹی آئی چئیرمین نے کہا تھا کہ حکمران اپنے مفادات کے لیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم جاری کرتے ہیں، یہ اسکیم ٹیکس چوروں کو اپنا کالا دھن سفید کرنے کا موقع دینے کے لیے ہے، اس کے بعد 6 اپریل 2018 کو عمران خان نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی بھی بھرپور مخالفت کی تھی۔
اقتصادی جائزہ رپورٹ
گذشتہ روز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا تھا کہ ہماری کوشش یہ ہے کہ عوام کے سامنے ملکی معیشت کی درست صورتحال اور اس سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو پیش کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت کو خطرہ لاحق ہے اور ملکی معاشی استحکام کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ایک چیز جو نظر آرہی ہے کہ گذشتہ سال جب یہ پی ٹی آئی کی حکومت بنی تو پاکستان کی معاشی صورتحال کیا تھی، ہمیں دیکھنا ہے کہ آخر ہم یہاں کیوں کھڑے ہیں، ہماری معیشت کی کمزوریاں ابھر کر سامنے آرہی ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ ملکی معاشی استحکام کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں، ملکی معیشت کی بہتری کے لیے اہم فیصلے کرنے ہیں، پی ٹی آئی نے اقتدار سنبھالا تو معیشت زبوں حالی کا شکار تھی، ڈالر کمانے کی استعداد گذشتہ 10 سال میں صفر رہی۔
انہوں نے الزام لگایا کہ طویل عرصے سے اس ملک کے بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دی گئی اور جو اصلاحات کرنی تھیں وہ نہیں کی گئیں، وہی ممالک آگے بڑھتے ہیں جو اپنی چیزیں باہر کے ممالک میں بیچنے کا راز سمجھیں لیکن 10 سال میں صفر فیصد تجارت میں اضافہ ہوا۔
مزید پڑھیں: اقتصادی جائزہ رپورٹ: حکومت تمام اہم معاشی اہداف کے حصول میں ناکام
ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا تھا کہ آمدنی سے 2 ہزار 300 ارب روپے زیادہ خرچ کیے گئے جس کا مطلب ہے آپ کو قرض لینا ہوگا، قیمتوں میں اضافہ کرنا ہوگا، قرضوں کے باعث کرنسی دباؤ کا شکار ہے، گذشتہ 2 سال میں اسٹیٹ بینک کے ذخائر 18 ارب سے کم ہو کر 9 ارب ڈالر ہوگئے۔
انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ گذشتہ 5 برس میں برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا، ماضی کی حکومتوں نے قرضوں کی دلدل میں پھنسایا اور 2018 میں قرضہ 31 ارب تک پہنچ گیا تھا، برآمدات 20 ارب ڈالر پر منجمد ہیں، گذشتہ حکومت کے دور میں تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر تک بڑھا۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہا تھا کہ ملک کا امیر طبقہ ٹیکس نہیں دیتا، سابق حکومتوں کے قرضوں کا 2 ہزار 9 سو ارب سود دینا پڑتا ہے، ماضی کی حکومتوں نے دیگر ذرائع سے بھی 100 ارب ڈالر کے قرضے لے رکھے تھے، خسارے میں جانے والے ادارے ملکی معیشت پر 1300 ارب روپے کا بوجھ ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ اگر آپ اس معاملے سے نہیں نمٹتے تو آپ ڈیفالٹ ہوجائیں گے اور اس کا کوئی حل نہیں ہے، وزیر اعظم نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ مشکل فیصلے کریں گے تاکہ حالات مستقل بہتری کی طرف جائیں۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ ہم ادھر ادھر سے ڈالر لے کر ملک کو خوشحال نہیں بناسکتے اس کے لیے ہمیں سرمایہ کاروں کی توجہ یہاں لانی ہوگی اور اپنی عوام کو باصلاحیت بنانا ہوگا تاکہ وہ دنیا سے مقابلہ کرسکیں، ہمارے اداروں کو ایک منظم طریقے سے لوٹا گیا اور ان سفید ہاتھیوں کو چلانے کے لیے عوام کی صحت، تعلیم پر خرچ ہونے والا پیسہ ضائع کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے درآمدات میں ساڑھے 4 ارب ڈالر کی بچت کی جس میں جون تک 5 ارب ڈالر اور رواں برس کے اختتام تک 13 ارب 12 کروڑ ڈالر کی بچت کی جائے گی۔
حکومت بیشتر اہداف حاصل کرنے میں ناکام
گذشتہ روز رواں مالی سال 20-2019 سے متعلق پیش کیے گئے اقتصادی سروے کے مطابق رواں سال شرح نمو کا ہدف 6.2 فیصد مقرر کیا گیا تھا جو 3.3 فیصد رہی، اس کے علاوہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ مالی سال 19-2018 میں زرعی شعبے کی شرح ترقی کا ہدف 3.8 فیصد تھا جو 0.8 فیصد رہی۔
اسی طرح اہم فصلوں کی پیداوار 3 فیصد ہدف کے مقابلے میں منفی 6.55 فیصد، دیگر فصلوں کی ترقی کی شرح کا ہدف 3.5 فیصد تھا جو رواں مالی سال 1.95 فیصد رہی اور کپاس کی پیداوار 8.9 فیصد ہدف کے مقابلے میں منفی 12.74 فیصد رہی جبکہ لائیو اسٹاک کے شعبے میں ترقی کی شرح 3.8 فیصد مقرر کی گئی تھی جو 0.2 فیصد اضافے کے ساتھ 4 فیصد ریکارڈ کی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنگلات کے شعبے کی شرح ترقی 8.5 فیصد کے مقابلے میں 6.5 فیصد اور ماہی گیری کے شعبے میں 1.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں ترقی کی شرح 0.8 فیصد رہی، اس کے علاوہ صنعتی شعبے کی ترقی کا ہدف 7.6 فیصد طے کیا گیا تھا جو اس عرصے میں 1.40 فیصد رہا جبکہ صنعتوں میں کان کنی کے شعبے میں ترقی کی شرح 3.6 فیصد ہدف کے مقابلے میں منفی 1.9 فیصد، صنعتی پیداوار کے شعبے کی مجموعی شرح ترقی 7.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں منفی 0.3 فیصد رہی۔
یہ بھی پڑھیں: 'پاکستان کی معیشت کو خطرہ، ڈالر لے کر خوشحالی نہیں لاسکتے'
رواں سال کی اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کا ہدف 8.1 فیصد ہدف کے مقابلے میں منفی 0.3 فیصد رہا جبکہ چھوٹی صنعتوں کی ترقی ہدف 8.2 فیصد طے کیا گیا تھا جسے پورا کیا گیا، اسی طرح بجلی کی پیداوار اور گیس کی تقسیم 7.5 فیصد ہدف کے مقابلے میں کئی گنا اضافے کے ساتھ 40.5 فیصد رہی جبکہ تعمیرات کے شعبے میں ترقی کی شرح 10 فیصد ہدف کے مقابلے میں منفی 7.6 فیصد رہی۔
مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے بتایا تھا کہ خدمات کے شعبے کی شرح ترقی 6.5 فیصد ہدف کے مقابلے میں 4.71 فیصد رہی جبکہ تھوک اور پرچون کاروبار کی ترقی کی شرح 7.8 فیصد ہدف کے بجائے 3.1 فیصد رہی، اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ، اسٹوریج اور مواصلات کے شعبوں کی شرح ترقی 4.9 فیصد ہدف کے مقابلے میں 3.34 فیصد، مالیات اور بیمہ کے شعبوں میں شرح ترقی 5.1 فیصد ریکارڈ کی گئی جس کا ہدف 7.5 فیصد مقرر تھا۔
رپورٹ کے مطابق ہاؤسنگ سروسز کے شعبے کی شرح ترقی طے شدہ ہدف کے مطابق 4 فیصد ہوئی، عمومی سرکاری خدمات کے شعبوں میں 7.2 فیصد ہدف کے مقابلے میں 7.99 فیصد اور دیگر نجی خدمات کی شرح ترقی 6.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں 0.2 فیصد اضافے کے ساتھ 7 فیصد رہی۔
مہنگائی کی شرح واضح طور بلند
پاکستان اقتصادی سروے 19-2018 میں کنزیومر پرائس انڈیکس کے عنوان میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ مالی سال 2019 میں مہنگائی کی شرح سے 7 سے 8 فیصد رہے گی، یوٹیلیٹی کی بلند قیمتیں اور ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں کمی آئندہ آنے والے مہینوں میں مہنگائی پر مزید دباؤ بڑھائیں گی۔
وزارت خزانہ کے شائع کردہ حالیہ سروے کے مطابق گذشتہ 2 سالوں کے درمیان مالی خسارے میں اضافے کے باعث طلب میں دباؤ دیکھنے میں آیا، یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ صنعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ کاروبار کی لاگت میں کمی اور غذائی اشیا کی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے متعدد ٹیکس اور ڈیوٹیز ختم کی جائیں تاہم مارکیٹ قوتوں کی جانب سے ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی غذائی قلت پیدا کرنے کی وجہ سے ملک میں طلب کے باعث ہونے والی مہنگائی دیکھنے میں آئی۔
اس کا زیادہ تر اثر غیر غذائی اشیا میں ہوگا، رپورٹ میں توقع کی گئی ہے کہ اگر صوبائی اور وفاقی حکومتیں قیمتوں کی موثر نگرانی اور ضروری اشیا کی بغیر کسی رکاوٹ کے فراہمی یقینی بنائیں تو قیمتوں میں استحکام رہے گا۔
مزید پڑھیں: ’آئندہ مالی سال میں مہنگائی کی شرح واضح طور بلند رہے گی‘
رواں برس مارچ کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 9.4 فیصد تک جا پہنچی تھی جس کے بعد کم ہوکر 8.8 فیصد اور اپریل میں 8 فیصد ہوگئی تھی، مہنگائی پر دباؤ کی وجہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ایڈجسٹمنٹ، جلد خراب ہونے والی غذائی اجناس کی قیمتوں میں واضح اضافے، شرح تبادلہ میں کمی کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر ایندھن کی قیمتوں میں تبدیلی کو قرار دیا گیا۔
کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) میں سب سے اہم چیز کور انفلیشن (افراط زر) رہی جس میں گذشتہ برس مارچ سے مسلسل اضافہ ہورہا ہے واضح رہے کہ کور انفلیشن کا مطلب خدمات اور اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہے اس میں غذائی اشیا شامل نہیں ہوتی، کور انفلیشن کا اندازہ 43 غیر غذائی اشیا کے جائزے سے لگایا گیا، جو اختتام پذیر مالی سال کے آغاز سے بڑھ رہی تھی اور فروری میں 8.8 فیصد تک جا پہنچی تھی جو مالی سال 19-2018 کے آخری 7 ماہ میں بلند ترین سطح تھی۔
تاہم مارچ اور اپریل میں اس میں کمی آنے کے باعث یہ 7 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ جولائی تا اپریل مالی سال 2019 میں کور انفلیشن اوسطاً 8.11 فیصد ریکارڈ کی گئی جو مالی سال 2018 میں 5.6 فیصد تھی۔
سست معیشت، مینوفیکچرنگ میں کمی
اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں روپے کی قدر میں بتدریج کمی کے ساتھ پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے ملکی مجموعی پیداوار میں 13 فیصد کمی واقع ہوئی، جس کی باعث مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) انڈیکس 19-2018، گذشتہ 10 سال کی سب سے کم سطح پر پہنچ گیا۔
رپورٹ کے مطابق زراعت کے شعبے کی ناقص کارکردگی، بجلی کی کمی، عالمی منڈیوں میں مختلف اشیاء کی قیمتوں میں اضافے اور گھریلو صارفین کی سامان طلبی میں کمی بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کی ترقی میں کمی کا سب سے بڑی وجہ بنی، اس کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ شعبے میں سرمایہ کاری اور ترقیاتی اخراجات میں کمی اور لوگوں کی پائیدار اشیا کے استعمال میں کمی کا اثر بھی اس شعبے کی کارکردگی پر دکھائی دیتا ہے۔
مذکورہ شعبے کا حصہ ملکی مجموعی پیداوار میں 13.5 فیصد سے 13.8 فیصد تک ہوتا ہے اور وہ مجموعی طور پر ملک کے معاشی اہداف میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن گذشتہ برس جولائی سے لے کر رواں برس مارچ تک ایل ایس ایم میں تقریباً 2 فیصد تک منفی رجحان دیکھا گیا جبکہ گذشتہ مالی سال کے دوران اسی دورانیے میں یہ شعبہ 6.33 فیصد ترقی کرتا دکھائی دیا، اسی طرح اس میں کمی کی ایک وجہ آٹو موبائل شعبہ بھی ہے جس کی ترقی منفی اشاریے بتارہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: رواں مالی سال میں معیشت سست روی کا شکار
گذشتہ سال کے دوران کمپنیوں کی جانب سے اپنی گاڑیوں کی قیمت میں وقفے وقفے سے اضافہ کیا گیا جس کی وجہ روپے کی قدر میں کمی اور ٹیکس نادہندہ گان پر گاڑی خریدنے پر پابندی ہے۔
بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ میں ٹیکسٹائل کی پرفارمنس دباؤ کا شکار رہی جس کی ترقی کی شرح 0.3 فیصد رہی جبکہ گذشتہ مالی سال اسی دورانیے میں 0.5 فیصد تھی جس کی بڑی وجہ سے کپاس سوت اور کپڑوں کے ذیلی شعبوں کی مایوس کن کارکردگی ہے۔
کھانے، مشروبات اور تمباکو کے شعبے کی ترقی میں 4.7 فیصد کمی دیکھنے میں آئی جس کی بڑی وجہ چینی کی پیداوار میں نمایاں کمی تھی جبکہ گذشتہ چند برسوں کے دوران گنے کی پیداوار میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا، اسی طرح رواں برس چینی کی پیداوار میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی جس کی وجہ سے اس صنعت کی ترقی مسائل کا شکار رہی۔
پیڑولیم اور کوک مصنوعات کی پیداوار میں 6 فیصد کی نمایاں کمی واقع ہوئی جس کی بڑی وجہ سے ملک میں بجلی بنانے کے لیے فرنس آئل کا استعمال میں کمی ہے جبکہ فرنس آئل کی پیداوار میں تو 11.1 فیصد کی کمی ہوئی تاہم دیگر ایدھن، جیسے ایل پی جی کی پیداوار میں 27.7 فیصد اضافہ، ڈیزل کی پیداوار میں 32.7 فیصد اضافہ اور پیٹرول کی پیداوار میں 7.7 فیصد دیکھنے میں آیا۔
اس کے علاوہ غیر دھاتی معدنیات کی ترقی میں 4.7 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی جس کی بڑی وجہ سے سیمنٹ کی پیداوار میں 5.5 فیصد کمی ہے۔
قرضوں پر سود کی ادائیگی
اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں ملک کے سرکاری قرضوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا اور جہاں اس سے قومی خزانے میں بھاری لاگت آرہی ہے وہیں اس کے باعث مالی خسارے میں اضافہ اور ترقیاتی منصوبوں کے زائد فنڈ لینے کی حکومتی صلاحیت بھی متاثر ہوئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح میں سرکاری قرضوں کے حجم میں مزید اضافہ ہوا اور مارچ 2019 میں یہ جی ڈی پی کا 74.2 فیصد ریکارڈ کیا گیا جبکہ جون 2018 میں سرکاری قرضے جی ڈی پی کا 72.1 فیصد تھے۔
اسی طرح ان قرضوں پر ادا کیے جانے والا سود گذشتہ 3 سالوں کے مقابلے مالی سال 19-2018 کے ابتدائی 9 ماہ میں بلند ترین سطح پر رہا، رواں مالی سال کے دوران سود کی ادائیگی ملک کی کل آمدن کا 41 فیصد رہی جو گذشتہ برس کے اسی عرصے کے دوران 33 فیصد تھی۔
مزید پڑھیں: قرضوں پر سود کی ادائیگی ملکی آمدن کے 41 فیصد تک پہنچ گئی
حکومتی دستاویز کے مطابق رواں مالی سال کے دوران سخت مانیٹری پالیسی، مختصر مدت کے اندرونی قرضوں کے بڑے حصے کے ساتھ ساتھ آمدن میں مسلسل کمی کے باعث سود کی ادائیگیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ آمدن کے مقابلے میں مجموعی سرکاری قرضوں کا حجم مالی سال 2018 میں 47.7 فیصد جبکہ مالی سال 2017 میں 43.4 فیصد رہا البتہ اس دستاویز میں رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ کے اعداد و شمار فراہم نہیں کیے گئے۔
رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ سالانہ 2 ہزار 396 ارب روپے کے بجٹ کے مقابلے میں سرکاری قرضوں کی مالیت ایک ہزار 975 ارب روپے ریکارڈ کی گئی جبکہ دوسری جانب اندرونی قرضوں کے بھاری حجم کے باعث اندرونی سطح ہر کی جانے والی سود کی ادائیگیاں مجموعی قرضوں کا 65 فیصد رہیں اور مقدار میں بات کی جائے تو حکومت نے رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران اندرونی قرضوں پر ایک ہزار 277 ارب روپے کا سود ادا کیا۔
تاہم بلند سود کی ادائیگیاں بنیادی طور پر مارکیٹ ریلیٹڈ ٹریژری بلز (299 ارب روپے)، ٹریژری بلز (290 ارب روپے)، قومی بچت اسکیم (272 ارب روپے) اور پاکستان سرمایہ کاری بانڈ (268 ارب روپے) کے لیے دی گئی رقوم سے کی گئیں۔
غیر ملکی قرضے
رواں مالی سال 19-2018 کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران غیر ملکی قرضوں اور واجبات (ای ڈی ایل) میں 10 ارب 60 کروڑ ڈالر کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس میں 74 ارب 20 کروڑ ڈالر کے سرکاری قرضے بھی شامل ہیں جو مارچ 2019 تک ایک کھرب 5 ارب 80 کروڑ ڈالر کی سطح پر پہنچ گئے۔
اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق مجموعی سرکاری قرضوں کی ادائیگی میں دو طرفہ ذرائع سے کی جانے والی ادائگیاں سب سے زیادہ یعنی 48 فیصد یا 4 ارب 40 ہزار ڈالر رہیں جبکہ مجموعی دو طرفہ ادائیگیوں میں چین کی جانب سے ہونے والی ادائیگیاں 3 ارب 88 کروڑ 50 لاکھ ڈالر یا کل رقم کا 97 فیصد رہیں۔
موجودہ حکومت نئی بین الاقوامی منڈیوں کی جانب توجہ دینے کے ساتھ ساتھ صرف ریاست سے ادھار لینے کے بجائے عالمی بانڈ پروگرام متعارف کروانے پر غور کررہی ہے، جس سے سرمایہ کاری میں اضافے اور ادھار کی لاگت میں کمی کی توقع کے ساتھ ساتھ حکومت کو انہیں جاری کرنے کے وقت کا اختیار حاصل ہوگا بلکہ قرضوں کی منتقلی میں صرف ہونے والے وقت کی بھی بچت ہوگی، تاہم حکومت ترقیاتی مقاصد کے لیے طویل مدتی رعایتی قرضے لیتی رہیں گی۔
اقتصادی سروے میں بتایا گیا کہ رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران بیرونی سرکاری قرضوں میں تقریباً 3 ارب 90 کروڑ ڈالر تک کا اضافہ ہوا جبکہ گذشتہ برس کے اسی عرصے کے دوران یہ اضافہ 6 ارب 70 کروڑ ڈالر تھا۔
پاکستان کے غیر ملکی قرضوں اور واجبات (ای ڈی ایل) میں سرکاری و نجی شعبوں کے لیے کیے گئے تمام غیر ملکی قرضوں کے ساتھ ساتھ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے واجبات شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: غیر ملکی قرضے ایک کھرب 5 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے
ای ڈی ایل میں حکومت کا حصہ قرضوں پر مشتمل ہے جو مشترکہ فنڈز اور عالمی مالیاتی فنڈز پر منحصر ہے جبکہ دیگر میں مرکزی بینک کے واجبات، سرکاری و نجی اداروں اور بینکس کے قرضے شامل ہیں، اس میں کمرشل ذرائع (غیر ملکی کمرشل بینکس اور یورو/سکوک بانڈز) سے لیا جانے والا ادھار گذشتہ چند سالوں میں کافی حد تک بڑھا ہے تاہم غیر ملکی قرضے زیادہ تر کثیر اور دو طرفہ ذرائع پر مشتمل ہیں جو مارچ 2019 تک بیرونی سرکاری قرضوں کا 78 فیصد تک تھے۔
اس طرح مجموعی ادائیگیوں میں غیر ملکی قرضوں کا حصہ 3 ارب 10 کروڑ 80 لاکھ ڈالر رہا، یہ کمرشل قرضے بنیادی طور پر ادائیگیوں میں توازن قائم کرنے کے لیے حاصل کیے گئے تھے جس میں حکومت نے مختلف ذرائع سے ایک ارب 15 کروڑ ڈالر توانائی اور تعمیراتی منصوبوں کے متحرک کرنے میں صرف کیے۔
علاوہ ازیں بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں کے بوجھ کے لحاظ سے جون 2018 تک مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح میں بیرونی قرضوں میں 22.3 فیصد کا اضافہ ہوا جو سال 2017 کے اسی عرصے کے دوران 20.5 فیصد تھے۔
جس کے بعد مارچ 2019 میں اس میں مزید اضافہ دیکھا گیا اور یہ 25.8 فیصد تک جا پہنچے، غیر ملکی قرضوں میں اضافے کے علاوہ امریکی ڈالر کے تناظر میں جی ڈی پی کے حجم میں کمی نے اس شرح کے بلند ہونے میں اہم کردار ادا کیا۔
ٹیکس مراعات خطرناک سطح عبور کرگئی
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے آئندہ چند روز میں اختتام پذیر ہونے والے مالی سال میں ٹیکس مراعات میں 80 فیصد اضافے کے بعد اسے 9 کھرب 72 ارب 40 کروڑ روپے کی سطح پر پہنچا دیا جو اس سے قبل کے مالی سال میں 5 کھرب 40 ارب 98 کروڑ روپے تھیں۔
اقتصادی جائزہ رپورٹ برائے 19-2018 میں فراہم کیے گئے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپریل 2018 میں اپنے پیش کردہ آخری بجٹ میں تمام شعبوں سمیت اہم شخصیات سے بھی ٹیکس استثنیٰ واپس لے لیا تھا لیکن بجٹ کے اعلان کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اقتدار سنبھالتے ہی 2 مالیاتی بل پیش کر کے کچھ ٹیکس مراعات واپس دے دی تھی۔
عالمی مالیاتی فنڈ کے گذشتہ بیل آؤٹ پیکج کا حصہ ہونے کی وجہ سے مجموعی طور پر ٹیکس مراعات مستحکم طریقے سے کم ہوئیں لیکن آئی ایم ایف پروگرام کے مکمل ہوتے ہی یہ رجحان دوبارہ لوٹ آیا اور حکومت نے کچھ صنعتوں اور شخصیات کو متعدد مراعات فراہم کیں۔
پاکستان مسلم لیگ کے دورِ حکومت میں 2016-2013 کے درمیان قانونی ریگولیٹری احکامات (ایس آر اوز) ختم کرنے کے 3 ادوار کے باجود ٹیکس مراعات میں اضافہ ہوا اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ان اعداد و شمار کو 4 کھرب 77 ارب 10 کروڑ روپے تک پہنچادیا تھا تاہم ایس آر اوز کی ذریعے دی گئی، ایک کھرب 5 ارب روپے کی ٹیکس مراعات کو 15-2014 میں واپس لے لیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: ٹیکس مراعات 9 کھرب 72 ارب کی خطرناک سطح عبور کرگئی
مالی سال 16-2015 کے اختتام تک ٹیکسز میں چھوٹ کی لاگت کم ہو کر 3 کھرب 94 ارب 59 کروڑ روپے رہ گئی تھی جو مالی سال 2017 میں ایک مرتبہ پھر 4 کھرب 15 ارب 75 کروڑ روپے کی سطح تک بلند ہوئی، اسی طرح ٹیکس استثنیٰ یا ٹیکس مراعات ریاست کی جانب سے مختلف کیٹيگریز کے تحت صنعتوں اور گروہوں کو آمدن کے لیے محصولات میں دی جانے والی چھوٹ ہے۔
اس ضمن میں انکم ٹیکس میں دی گئی چھوٹ 19-2018 کے دوران ایک کھرب 41 ارب 64 کروڑ 50 لاکھ روپے تک بلند ہوئی جو اس سے قبل 61 ارب 77 ارب روپے تھی یعنی اس میں سال بہ سال کے اعتبار سے 129.3 فیصد اضافہ ہوا، اسی لیے آزادانہ توانائی بنانے والوں نے استثنیٰ کاروباری آمدنی کی وجہ سے ریونیو میں 18 ارب 3 کروڑ روپے نقصان کا تخمینہ لگایا جبکہ غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کی دیا گئی ٹیکس کریڈٹ تقریباً 14 ارب روپے رہا۔
علاوہ ازیں 5 ارب 48 کروڑ روپے کا ٹیکس کریڈٹ نئے صنعتی ادارے قائم کرنے پر دیا گیا اس کے ساتھ جولائی 2011 سے قبل لگائے گئے صنعتی اداروں کو بھی 6 ارب 45 کروڑ روپے کا ٹیکس کریڈٹ فراہم کیا گیا، رواں سال میں سیلز ٹیکس کی چھوٹ میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا اور یہ مالی سال 19-2018 میں 5 کھرب 97 ارب روپے 70 کروڑ روپے تک جاپہنچا جو ایک سال قبل 2 کھرب 81 ارب 5 کروڑ تھا۔
5 سال میں شرح خواندگی میں 1.6 فیصد اضافہ
رواں مالی سال کی اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سال 18-2017 کے دوران خواندگی کی شرح میں 1.6 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا اور یہ 15-2014 کے 60.7 فیصد کے مقابلے میں بڑھ کر 62.3 فیصد ہوگئی۔
پاکستان میں سماجی اور طرزِ زندگی کے جائزے پر مشتمل سروے رپورٹ کے مطابق 2017 میں ہونے والی مردم شماری کے باعث سال 18-2017 اور 17-2016 میں سروے نہ کیا جاسکا تاہم لیبر فورس سروے برائے سال 18-2017 کے مطابق ملک میں خواندگی کی شرح 62.3 فیصد رہی۔
رپورٹ کے مطابق شرح خواندگی کو علاقوں کے اعتبار سے دیکھا جائے تو دیہی علاقوں میں یہ شرح خواندگی 51.9 فیصد سے بڑھ کر 53.3 فیصد ہوگئی جبکہ شہری علاقوں میں انتہائی معمولی یعنی 0.6 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا اور یہ 76 فیصد سے 76.6 فیصد ہوگئی، اس کے ساتھ مشاہدے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ شرح خواندگی کے لحاظ سے مرد و عورت کے تفاوت میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ کمی واقع ہوئی۔
یہ اضافہ تمام صوبوں میں ہوا خیبرپختونخوا (54.1 سے 55.3 فیصد)، پنجاب (61.9 سے 64.7 فیصد) اور بلوچستان میں (54.3 فیصد سے 55.5 فیصد) رہی البتہ دیگر صوبوں کے مقابلے سندھ کی شرح خواندگی میں معمولی کمی (63 فیصد سے 62.2 فیصد) دیکھنے میں آئی۔
تعلیمی اخراجات
رپورٹ میں بتایا گیا کہ سال 17-2016 کے 2.2 فیصد کے مقابلے سال 18-2017 میں تعلیمی اخراجات کا تخمینہ مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا 2.4 فیصد لگایا گیا۔
تاہم تعلیمی ماہرین کا مطالبہ ہے جی ڈی پی کا 4 فیصد حصہ تعلیم پر خرچ ہونا چاہیے۔
اسی طرح اسکول اور کالجز کی سطح پر ہونے والے داخلوں کے بارے میں سروے میں بتایا گیا کہ قومی سطح پر پری پرائمری سطح پر داخلوں میں 7.3 فیصد اضافہ ہوا اور ان کی تعداد 17-2016 میں ایک کروڑ 14 لاکھ سے تجاوز کر کے 18-2017 میں ایک کروڑ 22 لاکھ 70 ہزار ہوگئی۔
یہ بھی پڑھیں: 2014 سے 2018 تک، شرح خواندگی میں 1.6 فیصد اضافہ
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ملک بھر میں سال 18-2017 میں اول جماعت سے پنجم تک تعلیم دینے والے ایک لاکھ 72 ہزار 200 اسکول فعال ہیں جس میں 5 لاکھ 19 ہزار اساتذہ ہیں۔
اسی طرح سال 18-2017 میں ملک میں 4 لاکھ 38 ہزار 600 اساتذہ کے ساتھ مڈل یعنی 8 ویں جماعت تک تعلیم دینے والے اسکولوں کی تعداد 46 ہزار 800 تھی۔
سروے کے مطابق سال 18-2017 میں ملک بھر میں 5 لاکھ 56 ہزار 600 اساتذہ کے ساتھ کل 30 ہزار 900 ثانوی تعلیم کے اسکول ہیں جہاں داخلوں میں 17-2016 کے 36 لاکھ کے مقابلے 7.4 فیصد کا اضافہ ہوا اور ان کی تعداد 39 لاکھ ہوگئی۔
اسی طرح سال 18-2017 میں ملک میں اعلیٰ ثانوی تعلیم کے 5 ہزار 200 اسکول تھے جہاں بارہویں جماعت تک تعلیم دی جاتی ہے اور ان میں اساتذہ کی آبادی ایک لاکھ 21 ہزار 900 تھی۔
علاویں مذکورہ سال میں ملک میں جامعات کی تعداد 186 تھی جہاں 56 ہزار 900 اساتذہ تھے اور طالبعلموں کے داخلوں کی تعداد 16 لاکھ تھے اور اس سے پہلے والے سال کے مقابلے 7.7 فیصد زائد تھی۔
پیٹرولیم مصنوعات
رواں مالی سال کے ابتدائی 11 ماہ میں پیٹرولیم مصنوعات کی مجموعی فروخت 25 فیصد کمی کے ساتھ ایک کروڑ 69 لاکھ 72 ہزار ٹن ہوگئی، اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق فرنس آئل کی فروخت 57.7 فیصد کم ہو کر 27 لاکھ 43 ہزار ٹن،ہائی اسپیڈ ڈیزل کی فروخت 19 فیصد کمی کے ساتھ 67 لاکھ 64 ہزار ٹن ہوئی جبکہ پیٹرول کی فروخت 1.2 فیصد اضافے کے ساتھ 68.08 ٹن ہوگئی۔
پیٹرول، آئل اور لبریکنٹس (پی او ایل) کے مجموعی آف ٹیک میں سالانہ بنیادوں پر 32 فیصد کمی کے ساتھ 16 لاکھ 80 ہزار ٹن ہوگئی خاص طور پر مئی کے مہینے میں فرنس آئل کی فروخت میں کمی کی وجہ سے ایسا ہوا، اسی طرح موٹر اسپرٹ (ایم ایس) 5.2 فیصد کمی کے ساتھ 6 لاکھ 4 ہزار ٹن اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کے حجم میں 20.6 فیصد کمی کے ساتھ 7 لاکھ 6 ہزار ٹن ہوگئے۔
شجر کیپٹل رپورٹ کے مطابق مئی کے مہینے میں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اس کی فروخت میں ماہانہ بنیادوں پر 10.7 فیصد اور سالانہ بنیادوں پر 5.2 فیصد کمی آئی جس کا تعلق اقتصادی اتار چڑھاؤ اور توانائی سے متعلق حکومتی پالیسی کی وجہ سے فرنس آئل اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی فروخت میں کمی آئی۔
ڈیزل کی فروخت میں مسلسل کمی کے رجحان کی ایک اور وجہ مقامی طور پر اسمبل کیے جانے والے ٹرکوں کی فروخت میں کمی ہے۔
مزید پڑھیں: مالی سال 19-2018 میں پیٹرولیم مصنوعات کی طلب میں کمی
مقامی طور پر اسمبل کیے جانے والے ٹرکوں کی تعداد جولائی تا اپریل 2019-2018 میں 5،120 یونٹ ہوگئی جو گزشتہ مالی سال کے اس عرصے میں 7،703 یونٹ تھی۔
جولائی تا اپریل 2019-2018 کے عرصے میں مقامی طور پر اسمبل کی جانے والی گاڑیوں کی فروخت کم ہو کر ایک لاکھ 77 ہزار 4 سو 35 یونٹ ہونے کی وجہ سے پیٹرول کی فروخت میں کمی آئی جو گزشتہ مالی سال کے اس عرصے میں ایک لاکھ 82 ہزار 9 سو 11 یونٹ تھی۔
2 اور 3 پہیے والی گاڑیوں کی فروخت میں بھی ملا جلا رجحان پایا گیا۔
اقتصادی سروے 19-2018 کے مطابق مارچ 19-2018 کے دوران خام تیل کی پیداوار 2 کروڑ 46 لاکھ بیرل رہی جو گزشتہ مالی سال کے اس عرصے میں 2 کروڑ 18 لاکھ بیرل تھی۔
جولائی تا مارچ کے دوران درآمد کیے جانے والے خام تیل کی مقدار 66 لاکھ ٹن تھی جس کی لاگت 3 ارب 40 کروڑ ڈالر تھی جبکہ گزشتہ مالی سال کے مذکورہ عرصے میں یہ تعداد 78 لاکھ ٹن تھی جس کی لاگت 2 ارب 90 کروڑ ڈالر تھی، یہ کمی بنیادی طور پر عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے آئی۔
سروے میں کہا گیا کہ سعودی عرب سے موخر ادائیگیوں پر تیل کی درآمد سے حکومت کو ادائیگیوں کو متوازن کرنے میں آسانی ہوگی۔
اسٹاک مارکیٹ
اقتصادی سروے میں سال 19-2018 کی کارکردگی کو شامل کرنے کے بجائے یکم جنوری 2016 سے انڈیکس کو شامل کیا گیا جو 33،229 سے 16 فیصد اضافے کے بعد 31 مارچ تک 38،649 پوائنٹس ہوا۔
رپورٹ کے مطابق مالی سال 17-2016 میں انڈیکس میں تیزی آئی اور 24 مئی 2017 پر 52،876.46 پوائنٹس پر پہنچا تاہم وہ مستحکم نہیں رہ سکا اور مالی سال 18-2017 کے درمیان انڈیکس میں مجموعی طور پر تسلسل کا رجحان رہا۔
اس میں مزید بتایا گیا کہ مالی سال 19-2018 کے آغاز پر مارکیٹ میں تیزی کا رجحان رہا اور 30 جولائی 2018 کو انڈیکس 43،557 پوائنٹس کی بلند ترین سطح تک پہنچا جس کے بعد انڈیکس میں کمی کا رجحان رہا اور 16 اکتوبر 2018 تک 36،663 پوائنٹس تک پہنچا۔
اقتصادی سروے میں کہا گیا کہ مارکیٹ کے رجحان کو نئی حکومت کی پالیسیوں کے مطابق کیے جانے والے ریگولیٹری اقدامات اور ایکسچینج ریٹ معیشت میں غیر متوازن صورتحال کی تصیح سے جوڑا جاسکتا ہے خاص طور پر معیشت میں خسارے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو اس سے جوڑا جاسکتا ہے۔
جنوری میں پیش کیے گیے منی بجٹ میں متعارف کی گئی کاروبار دووست پالیسیوں کی وجہ سے انڈیکس میں تیزی کا رجحان دیکھا گیا، تاہم 26 فروری کو بھارت کی جانب سے پاکستان میں دراندازی اور سرحد پر جاری کشیدگی کی وجہ سے مارکیٹ میں اعتماد میں کمی آئی اور 31 مارچ کو انڈیکس 38،649 پوائنٹس پر بند ہوا جبکہ مارکیٹ کیپٹیلائزیشن 7،868.6 ارب روپے تھا۔
رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ میں مجموعی طور پر یومیہ تجارتی ویلیو 7ارب 20 کروڑ روپے رہی اور مجموعی یومیہ ٹرن اوور 17 کروڑ حصص تھے۔