اصلاحات پروگرام: ٹیکس، جی ڈی پی تناسب 17 فیصد کرنے کا ہدف طے
اسلام آباد: سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ٹیکس اصلاحات پروگرام کو حتمی شکل دے دی ہے جس میں 2024 تک ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب 17 فیصد کرنے کا ہدف طے کیا گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عالمی بینک نے آئندہ 5 سال میں ان اصلاحات پر عملدرآمد کے لیے پاکستان کو 40 کروڑ ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔
مذکورہ ٹیکس اصلاحات پروگرام دسمبر 2018 میں تشکیل دیے گیے ورکنگ گروپ کی تجاویز کی روشنی میں تیار کیا گیا ہے۔
اس سے قبل عالمی بینک کی معاونت سے اصلاحات منصوبے کا آغاز 2004 میں سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں کیا گیا تھا جو 2011 میں مکمل ہوا تھا۔
اس منصوبے میں 14 کروڑ 90 لاکھ ڈالر لاگت آئی تھی جس میں سے 10 کروڑ 29 لاکھ ڈالر عالمی بینک کی جانب سے فراہم کیے گئے تھے۔
مزید پڑھیں: اصلاحات سے پاکستان میں ٹیکس وصولی کے ساتھ رشوت خوری میں بھی اضافہ ہوا، آئی ایم ایف
سینئر ٹیکس عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ مذکورہ پروگرام کے حوالے سے ڈویژن برائے اقتصادی امور سے مذاکرات مکمل کیے جاچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 30 مئی کو عالمی بینک سے طے شدہ ملاقات میں منصوبے کی دستاویز کی منظوری کے امکانات ہیں۔
عہدیدار نے کہا کہ 'حتمی معاہدے پر جون کے پہلے ہفتے میں دستخط کیے جائیں گے'، انہوں نے مزید کہا کہ منصوبے سے متعلق تقریبا ہر چیز کو گزشتہ ماہ ہی حتمی شکل دے دی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس اصلاحات پلان 6 ماہ کے مختصر عرصے میں تیار کیا گیا۔
2024 تک ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب 17 فیصد بڑھانے کے مقصد کے لیے اصلاحات پروگرام میں 10 اشیا میں بینچ مارک طے کیے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ٹھوس اور مستحکم ریونیو کے حصول کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں جامع اصلاحات کے لیے منظم طریقہ کار اپنایا گیا ہے۔
عالمی بینک کے تعاون سے اصلاحات پروگرام کو حتمی شکل دینے، 5 سالہ پروگرام ترتیب دینے اور اہم خدشات کی نشاندہی کے لیے ورکنگ گروپ تشکیل دیا گیا تھا۔
عہدیدار کے مطابق مالی سال 19-2018 کی آخری سہ ماہی میں آرگنائزیشنل اسٹرکچر، ہیومن ریسورس اور ٹیکس قوانین کا گہرائی سے جائزہ لیا گیا تھا جس میں بڑھتی ہوئی ضروریات کے ساتھ ریونیو میں اضافے کی اہمیت کو بھی زیر غور لایا گیا۔
تجزیے کے نتائج کی بنیاد پر ادارے کی جامع اصلاحات کی درست سمت کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں سب سے اہم اقدامات 2 ضمنی فنانس بلز کے ذریعے کے گئے، جو ریونیو میں کمی کا باعث بنتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’اصلاحات نہ کیں تو 2024 تک پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار مزید کم ہو جائے گی‘
اصلاحات سے قبل ایف بی آر کی سطح پر جو اقدامات کیے گئے ان میں ٹیکس پالیسی یونٹ، آف شور ڈیٹا سے متعلق آپریشنل یونٹس کا قیام، سوئٹززلینڈ کے ساتھ ڈبل ٹیکس معاہدے پر نظرثانی کا نوٹیفکیشن،کرنسی ڈکلیئریشن سسٹم کا قیام، ایڈوانس پیسینجر سسٹم کا آغاز، ایف بی آر عملے کے خلاف شکایات کے اندراج کے لیے شکایتی نظام کا آغاز، آئی سی ٹی کی بنیادوں پر ٹیکسٹائل اور لیدر آؤٹ لیٹس کے ریٹیل مانیٹرنگ سسٹم کا قیام، اہم شعبوں میں پیداوار کی برقی نگرانی کے لیے پروجیکٹ مینیجمنٹ یونٹ کا قیام شامل ہیں۔
جن اقدامات پر عملدرآمد کیا گیا ہے ان میں زیادہ تر نیٹ ورتھ والے افراد کے خلاف مہم، سپریم کورٹ/لاہور ہائی کورٹ میں ٹیکس بینچز کا قیام، ٹیکس ریٹرنز جمع کروانے کے لیے دہندگان کی حوصلہ افزائی مہم کا آغاز، موبائلوں کی اسمگلنگ روکنے کے لیے ڈی آئی آر بی کا قیام اور 5 سالہ آئی سی ٹی حکمت عملی کی منظوری شامل ہیں۔
عہدیدار نے کہا کہ موثر عملدرآمد، نگرانی اور پروگرام کی رپورٹنگ کے لیے ایف بی آر میں ایک دفتر قائم کیا گیا ہے جو براہ راست حال ہی میں تعینات کیے گئے چیئرمین ایف بی آر کو رپورٹ کرے گا۔
انہوں نے بتایا کہ مشیر خزانہ یا ان کے نمائندے کی سربراہی میں تشکیل کردہ اسٹیئرنگ کمیٹی باقاعدگی سے اصلاحات کی مانیٹرنگ اور جائزہ لے گی۔