کرکٹ ورلڈکپ کے دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلے (1992اسپیشل)
اس خصوصی سیریز کا پہلا پہلا حصہ یہاں پڑھیے
عالمی کپ دنیا کے گرد سفر کرتے ہوئے 1992ء میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پہنچ گیا۔ ایک روزہ کرکٹ کو جدید شکل دینے میں اس 5ویں عالمی کپ نے نمایاں کردار ادا کیا کیونکہ اس سے پہلے کسی بھی عالمی کپ میں رنگین کپڑوں اور فلڈ لائٹس کا استعمال نہیں ہوا تھا، اور یہ سب پہلی مرتبہ ہورہا تھا۔
اس عالمی کپ میں ایک نیا فارمیٹ متعارف کروایا گیا جس کے تحت ٹورنامنٹ میں شریک تمام ٹیموں کو پہلے راؤنڈ میں ایک دوسرے کے خلاف کھیلنا تھا اور پھر جو ٹیمیں پوائنٹس ٹیبل پر ابتدائی 4 پوزیشنز پر براجمان ہوں گی، وہ سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کریں گی۔
آسٹریلیا جانے سے پہلے پاکستان کرکٹ ٹیم کی سلیکشن اس وقت متنازع بن گئی جب جاوید میانداد کو فٹنس کی بنیاد پر ابتدائی ٹیم سے ڈراپ کردیا گیا۔ بعد ازاں پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے اپنی اس غلطی کا ازالہ کرتے ہوئے ٹورنامنٹ کے آغاز سے پہلے ہی جاوید میانداد کو ٹیم میں شامل کرلیا۔
یہ مسئلہ حل ہوا تو دوسرے مسئلے نے اس وقت سر اٹھایا جب ٹورنامنٹ کے آغاز سے کچھ روز پہلے ہی نوجوان فاسٹ باؤلر وقار یونس زخمی ہوکر ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئے۔
1992ء ورلڈ کپ کے لیے قومی ٹیم میں منتخب ہونے والے 2 ایسے خوش نصیب کھلاڑی بھی موجود تھے جو صرف اس عالمی کپ میں ہی قومی ٹیم کا حصہ بن سکے۔ پاکستان کی طرف سے 1975ء کے عالمی کپ میں 3 کھلاڑیوں جاوید میانداد، نصیر ملک اور پرویز میر نے اپنے ایک روزہ کرکٹ کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ 17 سال کے بعد 1992ء میں اقبال سکندر اور وسیم حیدر عالمی کپ میں اپنے ایک روزہ کیریئر کا آغاز کرنے والے چوتھے اور پانچویں کھلاڑی بن گئے، لیکن اس ورلڈ کپ کے بعد پھر یہ دونوں کھلاڑی کبھی بھی قومی ٹیم کا حصہ نہیں بن سکے۔
سفر کا آغاز
پہلا میچ: ویسٹ انڈیز کے خلاف
پاکستان نے اس عالمی کپ میں اپنے سفر کا آغاز 23 فروری کو میلبورن کرکٹ گراؤنڈ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ سے کیا۔ اس میچ میں پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ 50 اوورز میں 220 رنز بنائے۔ پاکستان کے اس اسکور میں رمیز راجہ کی انتہائی سست سنچری اور جاوید میانداد کے برق رفتار 57 رنز شامل تھے۔
پاکستان کے اس اسکور کو ویسٹ انڈیز نے اپنے اوپنرز برائن لارا اور ڈیسمنڈ ہینز کی شاندار شراکت کی بدولت باآسانی حاصل کرلیا۔
دوسرا میچ: زمبابوے کے خلاف
پاکستان نے اپنا دوسرا میچ زمبابوے کے خلاف کھیلا جس میں قومی ٹیم نے باآسانی 53 رنز سے کامیابی حاصل کرلی۔
تیسرا میچ: انگلینڈ کے خلاف
قومی ٹیم کو اپنے تیسرے میچ میں ایڈیلیڈ کے مقام پر انگلینڈ کا سامنا کرنا تھا۔ اس میچ میں پاکستان کی بیٹنگ لائن ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور پوری ٹیم صرف 74 رنز کے قلیل اسکور پر ڈھیر ہوگئی۔ انگلینڈ نے اس معمولی اسکور کا تعاقب شروع کیا تو بارش ان کی فتح کی راہ میں رکاوٹ بن گئی اور یہ میچ بارش کی وجہ سے بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگیا، یوں دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ مل گیا۔
یہ وہ ایک خوش نصیب پوائنٹ تھا جس نے قومی ٹیم کو سیمی فائنل میں پہنچانے کی راہ ہموار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
چوتھا میچ: روایتی حریف بھارت کے خلاف
پاکستان نے اپنا چوتھا میچ روایتی حریف بھارت کے خلاف سڈنی کے مقام پر کھیلا۔ یہ عالمی کپ کی تاریخ میں ان دونوں ٹیموں کے مابین ہونے والا پہلا مقابلہ تھا۔ اس میچ میں بھارت کے کپتان اظہر الدین نے ٹاس جیت کر پہلے کھیلنے کا فیصلہ کیا اور بھارت نے مقررہ 50 اوورز میں 216 رنز بنائے۔
اس اسکور کے جواب میں قومی ٹیم کی بیٹنگ لائن لڑ کھڑا گئی اور پوری ٹیم 48.1 اوورز میں صرف 173 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔
پانچواں میچ: جنوبی افریقہ کے خلاف
قومی ٹیم کا اگلا مقابلہ پہلی مرتبہ عالمی کپ کھیلنے والی ٹیم جنوبی افریقہ سے تھا۔ برسبین میں کھیلے جانے والی اس میچ میں پاکستان کے کپتان عمران خان نے ٹاس جیت کر پہلے جنوبی افریقہ کو بیٹنگ کی دعوت دی۔ جنوبی افریقہ نے مقررہ اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 211 رنز بنائے۔
جواب میں پاکستان کا آغاز پُراعتماد لیکن سست رفتار تھا۔ 22ویں اوور میں پاکستان کا اسکور جب 2 وکٹوں کے نقصان پر 74 رنز تھا تو بارش شروع ہوگئی۔ اس ٹورنامنٹ میں بارش کے بعد ہدف کے تعین کا جو طریقہ کار استعمال کیا گیا وہ سمجھ سے بالا تر تھا۔ بہرحال بارش کے بعد جب کھیل دوبارہ شروع ہوا تو پاکستان کو 36 اوورز میں 194رنز کا ہدف ملا۔ پاکستان چونکہ پہلے ہی 22 اوور کھیل چکا تھا اس لیے اب اس کو باقی ماندہ 14 اوورز میں 120 رنز بنانے تھے۔ خیر انضمام الحق نے کپتان عمران خان کے ساتھ اس مشکل ہدف کا تعاقب شروع کیا اور دونوں نے مل کر پاکستان کا اسکور 30ویں اوور تک 135 تک پہنچا دیا۔
اب پاکستان کو 6 اوورز میں 59 رنز درکار تھے اور جیت کی امید روشن ہو چلی تھی لیکن اس موقع پر ایک ایسا طلسماتی منظر آنکھوں نے دیکھا جو کرکٹ کے میدان پر نہ اس سے پہلے دیکھا گیا اور نہ شاید آئندہ کبھی دیکھا جاسکے گا۔
اننگز کا 31واں اوور کرنے والے برائن میکملن کی ایک گیند پر انضمام زور دار شاٹ کھیلنا چاہتے تھے لیکن گیند ان کے پیڈز سے ٹکرا کر پوائنٹ پوزیشن پر کھڑے جونٹی رہوڈز کی طرف چلی گئی۔ انضمام رن لینے کے لیے دوڑ پڑے تھے لیکن عمران خان نے ان کو واپس جانے کا حکم دیا۔ جونٹی رہوڈز یہ دیکھ چکے تھے کہ انضمام کریز سے دُور ہیں لہٰذا انہوں نے گینڈ اٹھا کر وکٹوں کی طرف دوڑ لگا دی اور اسٹمپ سے کچھ فاصلے پر چیتے کی طرح چھلانگ لگائی اور تینوں اسٹمپز اکھاڑتے ہوئے انضمام الحق کو رن آوٹ کردیا۔ یہ رن آوٹ اتنا حیران کن تھا کہ آج بھی جب اس کی پرانی کلپس دیکھتے ہیں تو یہی سوچتے ہیں کہ آخر کوئی انسان ایسا کس طرح کرسکتا ہے؟
انضمام الحق کے آوٹ ہونے کے بعد کپتان عمران خان بھی جلد آوٹ ہوگئے اور یوں پاکستان کو اس اہم میچ میں شکست ہوگئی۔
اس میچ میں شکست کے بعد پاکستان کے 5 میچوں میں صرف 3 پوائنٹس تھے اور اس کے سیمی فائنل میں پہنچنے کی امیدیں تقریباً دم توڑ چکی تھیں۔ پاکستان کو سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے ناصرف راؤنڈ میچ کے اپنے تینوں میچ جیتنے ضروری تھے بلکہ ساتھ ساتھ دیگر ٹیموں کے مابین ہونے والے مقابلوں کے نتائج پر بھی انحصار کرنا تھا۔
چھٹا میچ: آسٹریلیا کے خلاف
پاکستان کا اگلا مقابلہ پرتھ کے میدان پر میزبان آسٹریلیا سے تھے۔ آسٹریلیا نے اب تک ٹورنامنٹ میں اپنے معیار کے مطابق کارکردگی نہیں دکھائی تھی لیکن اس کے باوجود پاکستان کے خلاف ان کی جیت کا قوی امکان تھا۔ پاکستان کے ایک مداح کی حیثیت سے میں بھی پاکستانی ٹیم سے مایوس تھا، لیکن یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ قومی ٹیم کے کپتان عمران خان اب بھی اپنی ٹیم کے لیے پُرامید تھے۔