انگلینڈ کے خلاف شکست قومی ٹیم کے لیے نیک شگون کیسے بن سکتی ہے؟
جیت جہاں حوصلوں کو بلند کرتی ہے، وہیں ہار خامیوں کو کھل کر سامنے لے آتی ہے۔ ہم انگلینڈ کے خلاف اگرچہ دوسرا میچ ہار گئے، مگر سچ پوچھیے تو یہ ہار بھی بُری نہیں لگ رہی کیونکہ ہم لڑ کر ہارے ہیں اور یہ ہار ہمارے لیے نیک شگون ثابت ہوسکتی ہے، لیکن صرف تب، جب ہم اس میچ میں ہونے والی خامیوں کو فوری طور پر ٹھیک کرلیں۔
اس میچ میں ہمارے لیے کیا مثبت رہا اور کیا منفی، کیا اچھا ہوا اور کیا بُرا، آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔
خراب ٹیم سلیکشن
یہ سب سے اہم اور پہلا نکتہ ہے، جس پر بات کرنا بہت ضروری ہے۔ انگلینڈ کے خلاف سیریز جیتنا یقیناً بہت ضروری ہے کیونکہ ورلڈ کپ سے پہلے یہ جیت ہم کو نئی ہمت اور نیا عزم فراہم کرسکتی ہے، لیکن جیت سے زیادہ ضروری اس وقت بہترین ٹیم کی تشکیل ہے۔
دیگر ٹیموں کے مقابلے میں قومی ٹیم کو یہ چیلنج درپیش ہے کہ اس نے 17 میں سے 15 رکنی ٹیم کو منتخب کرنا ہے، یعنی محمد عامر اور آصف علی وہ 2 اضافی کھلاڑی ہیں جن کا ورلڈ کپ کے لیے منتخب ہونے کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ انگلینڈ کے خلاف کیسا کھیل پیش کرتے ہیں؟
مزید پڑھیے: انگلینڈ سے شکست کے باوجود پاکستان نے 15 سال پرانا ریکارڈ توڑدیا
جس کا مطلب یہ ہوا کہ انگلینڈ کے خلاف سیریز میں ان دونوں کھلاڑیوں کو تو لازمی کھلانا چاہیے تاکہ معلوم ہوجائے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ اگرچہ پہلے میچ میں تو آصف علی اور محمد عامر کو بارش کی وجہ سے کھیلنے کا موقع ہی نہ مل سکا، لیکن دوسرے میچ میں حیران کن طور پر محمد عامر کو جگہ ہی نہیں دی گئی۔ ایسا کیوں ہوا کم از کم مجھے تو اندازہ نہیں۔