تجاوزات قائم کرنا ایک غیر قانونی عمل ہے، کسی جگہ پر دہائیوں سے قابض رہنا اس بات کی ہرگز دلیل نہیں کہ آپ اُس زمین کے مالک بن چکے ہیں۔ ملک میں حال ہی میں اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں تجاوزات کے خلاف ہونے والے آپریشن سے لوگوں کو یہ سبق تو مل گیا ہے کہ تجاوزات چاہے کتنی ہی پرانی کیوں نہ ہوجائیں انہیں قانونی ہونے کی سند نہیں مل سکتی۔
ویسے تو پاکستان میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کا آغاز 2 سال قبل عدالتی احکامات کے پیش نظر کراچی میں لگے بل بورڈز ہٹانے سے ہوا تھا، یہ بل بورڈز شہر کی خوبصورتی کو پھیکا کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کی جان و مال کے لیے بھی خطرے کا باعث تھے۔
اس بات کا احساس انتظامیہ کو تب ہوا جب کراچی میں ذرا سی آندھی نے دیو ہیکل بل بورڈز زمین بوس کردیے تھے، جس سے کئی شہری زخمی اور چند جاں بحق ہوئے تھے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ شہریوں اور سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچا تھا۔
دیر آید درست آید، کراچی سے ان بل بورڈز کا صفایا کردیا گیا تاہم ملک کے دیگر بڑے شہروں میں اب بھی آسمان کو چھوتے بل بورڈز نظر آتے ہیں۔
دہائیوں سے انتظامیہ کی جانب سے بل بورڈز انڈسٹری کو ہوا ملنے کے بعد اب دیگر شہروں سے بھی اس کے ہٹانے کے احکامات آنے شروع ہوگئے ہیں جس کا ثبوت رواں مہینے ہی میں سپریم کورٹ کی جانب سے 3 ماہ میں لاہور سے تمام بل بورڈز ہٹانے کا حکم نامہ ہے۔
ملک کے کونے کونے میں تجاوزات کی بھرمار ہے جسے ختم کرنا ناگزیر تھا، تجاوزات کے خلاف آپریشن کا آغاز سال 2018 میں ستمبر کے مہینے میں عدالتی احکامات کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے ہوا جہاں سالوں سے آباد کچی آبادیاں چند دنوں میں خالی کرائی گئیں۔
ایک ماہ تک جاری رہنے والے اس آپریشن میں کئی غیر قانونی عمارتیں، شادی ہالز، کاروباری مراکز اور مکانات واگزار کرائی گئیں۔
اسلام آباد کی صفائی کے بعد آپریشن کا رخ کراچی کی جانب کیا گیا، 27 اکتوبر 2018 کو عدالت کی جانب سے کراچی میں تجاوزات خالی کرانے کا حکم آیا جس کی تعمیل میں متعلقہ اداروں نے نومبر سے آپریشن کا آغاز کیا جو تاحال جاری ہے۔
اس آپریشن کے دوران چند اہم عمارتوں میں سے ایک کراچی میں انگریز دور کی بنائی ہوئی ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں بنی مارکیٹوں کو مسمار کرنا تھا جس کے بعد اس قدیم عمارت کا نقشہ عوام کے لیے قابل دید تھا۔