2018 میں پاکستان میں ہونے والے سالانہ ادبی میلے اور علمی سرگرمیاں
دنیا بھر میں ادبی میلوں کی ایک طویل تاریخ ہے، جس کے ذریعے مصنف اور قاری کے مابین شعوری طور پر فاصلہ کم کیا گیا۔ کسی زمانے میں قارئین کتابیں پڑھنے کے بعد تصوراتی طور پر طے کرتے تھے کہ متعلقہ کتاب کو لکھنے والے مصنف کی شخصیت کیسی ہوگی، وہ عام زندگی میں کیسا دکھائی دیتا ہوگا، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ عالمی ادب میں کتاب اور قاری کے درمیان ادبی فیسٹیولز کی بنیاد رکھ دی گئی ہے، جہاں دونوں ایک دوسرے سے براہ راست مخاطب ہوسکتے ہیں۔
پاکستان میں بھی ادبی میلوں کی تاریخ کو کھنگالا جائے، تو قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی اس طرح کی سرگرمیوں کے آثار ملتے ہیں، مگر وہ نقش کافی دھندلے ہیں، البتہ 70ء اور 80ء کی دہائی تک آتے آتے پاکستانی ادب نے مغربی رنگ ڈھنگ اپنانا شروع کیا، جس کے نتیجے میں ادبی میلوں کی روایت بھی ہمارے ہاں عود آئی۔ اردو زبان اور پاکستانی ادب کے نام پر ادبی میلے اور کانفرنسیں سجائی جانے لگیں۔ نئی صدی کے ابتدائی برسوں میں اس طرح کی سرگرمیوں نے زور پکڑا اور اب عہدِ حاضر میں یہ اپنے عروج پر ہیں۔
کراچی کے ادبی میلے
عہدِ حاضر میں شروع ہونے والے ادبی میلوں کی ابتدا ’کراچی لٹریچر فیسٹیول‘ سے ہوتی ہے، جس کو بھارت کے مقبول ادبی میلے ’جے پور لٹریچر فیسٹیول‘ سے متاثر ہوکر پاکستان میں شروع کیا گیا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، کراچی کی ڈائریکٹر امینہ سید نے جب اس بھارتی ادبی میلے میں شرکت کی تو انہیں خیال آیا کہ پاکستان میں بھی اس طرح کا ادبی میلہ منعقد کیا جانا چاہیے، اس کے لیے انہوں نے معروف ادیب آصف فرخی کے ساتھ مل کر اس میلے کی بنیاد رکھی، جس کو ابتدا میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔
2009ء میں شروع ہونے والا ادبی میلہ 8 برسوں سے جاری ہے۔ ابتدائی برسوں میں پسند کیا جانے والا ادبی میلہ اب ایک مخصوص طبقے کا میلہ بنتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے اس کی ساکھ متاثر ہوئی ہے اور اس کی ایک اور وجہ ادبی میلے میں یکسانیت، غیر ادبی موضوعات کی بھرمار ہونا بھی ہے۔