لیمبرٹ کے مطابق ہوسکتا ہے کہ جب ان کی بچی بڑی ہوجائے تو وہ اپنی سوشل میڈیا پروفائل بنا لے، مگر یہ اس کا اپنا فیصلہ ہوگا۔ لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا تب تک یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں اس کی پرائیوسی کا خیال رکھوں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی کوئی تصویر بناتی ہی نہیں، نہیں، بلکہ وہ اپنی بیٹی کی بے شمار تصاویر لیتی ہیں اور اپنے شوہر، دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ شئیر بھی کرتی ہیں لیکن واٹس ایپ پر۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نوجوان ذہنوں پر سوشل میڈیا کے منفی اثرات پر اب خوب تحقیق کی جاچکی ہے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے خالقین کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ اپنے بچوں کو بھی ان پلیٹ فارمز سے دُور رکھتے ہیں کیونکہ انہیں ان کے نقصانات کا اچھی طرح اندازہ ہے۔
لیمبرٹ کہتی ہیں کہ جو والدین اپنے بچے کی لمحہ بہ لمحہ تصاویر انٹرنیٹ پر ڈالتے ہیں، انہیں یہ شکایت بھی نہیں ہونی چاہیے کہ ان کے بچے بڑے ہونے کے بعد ہر وقت اسکرین سے چپکے رہتے ہیں۔
اس کے علاوہ ان کا ماننا ہے کہ دیدہ زیب فرنیچرز پر بیٹھے خوش اور مسکراتے بچوں کی تصاویر انٹرنیٹ پر پوسٹ کرنے سے وہ افراد افسردگی کا شکار ہوسکتے ہیں جو یا تو بے اولاد ہیں یا ان کے کسی بچے کی وفات ہوچکی ہے۔
اس کے بجائے ان کا ماننا ہے کہ بچوں کی تصاویر انسٹاگرام پر ڈالنے کے لیے درست فلٹر کے انتخاب میں وقت ضائع نہ کرنے سے ان کے پاس اپنی بیٹی کو دینے کے لیے کافی وقت بچ جاتا ہے۔