کوہلی کی غیر موجودگی اور سری لنکا کی نا تجربہ کار ٹیم کی ٹورنامنٹ میں شرکت کے باعث پاکستان کے لیے یہ ایک بہترین موقع ہے۔
14واں ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ آج سے متحدہ عرب امارات میں کھیلا جائے گا۔ اس سال ٹورنامنٹ میں 6 ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں جن کو 2 گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ’گروپ اے‘ میں روایتی حریف پاکستان اور بھارت کے ساتھ ہانگ کانگ کی ٹیم شامل ہے جبکہ ’گروپ بی‘ میں سری لنکا، بنگلہ دیش اور افغانستان کی ٹیمیں شامل ہیں۔
ایشیا کپ کا آغاز بھی 1984ء میں متحدہ عرب امارات سے ہوا تھا۔ اب تک ہونے والے 13 ایشیا کپ ٹورنامنٹس میں بھارت نے سب سے زیادہ یعنی 6 مرتبہ یہ ٹورنامنٹ جیتا ہے، جبکہ سری لنکا کو 5 مرتبہ یہ ٹورنامنٹ جیتنے کا اعزاز حاصل ہے۔
ایشیا کپ میں پاکستان کی کارکردگی خاصی غیر تسلی بخش رہی ہے اور پاکستان نے یہ ٹورنامنٹ صرف 2 مرتبہ جیتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان نے دونوں مرتبہ ٹورنامنٹ بنگلہ دیش میں جیتا ہے۔ پاکستان نے سال 2000ء میں کھیلے گئے ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کے فائنل میں سری لنکا کو 39 رنز سے شکست دی تھی جبکہ 2012ء کے ایشیا کپ کے فائنل میں پاکستان نے میزبان ملک بنگلہ دیش کو ایک دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلے کے بعد 2 رنز سے ہرایا تھا۔
ایشیا کپ کے آغاز میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ یہ ٹورنامنٹ ہر 2 سال بعد منعقد کیا جائے گا لیکن مختلف ادوار میں خطے کے ممالک کے درمیان موجود تناؤ کی وجہ سے اس ٹورنامنٹ کا تسلسل سے انعقاد نہیں ہوسکا یا تمام ٹیموں نے ٹورمنٹ میں شرکت نہیں کی۔
بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان روہت شرما (درمیان میں) دبئی کے دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں ایشیا کپ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔ ان کے بائیں جانب ہانگ کانگ کرکٹ ٹیم کے کپتان انشومان راتھ، سری لنکن کپتان اینجلو میتھیوز (بائیں جانب دوسرے)، پاکستانی کپتان سرفراز احمد (دائیں جانب دوسرے) اور بنگلہ دیشی کپتان مشرفی مرتضیٰ (دائیں) بھی موجود ہیں — اے ایف پی
1986ء میں بھارت نے سری لنکا میں ہونے والے ٹورنامنٹ میں شرکت نہیں کی تھی جبکہ 1990/91 میں بھارت میں کھیلے جانے والے ایشیاء کپ میں پاکستان نے شرکت نہیں کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایشیا کپ کی سب سے زیادہ یعنی 5 مرتبہ میزبانی کرنے کا اعزاز بنگلہ دیش کو حاصل ہے۔ پاکستان اور بھارت نے ایک ایک مرتبہ جبکہ سری لنکا نے 4 مرتبہ اس ٹورنامنٹ کی میزبانی کی ہے۔
پڑھیے: ایشیا کپ: تاریخ کے جھروکوں سے
ایشیا کپ کی تاریخ میں چند بہت دلچسپ مقابلے بھی ہوئے ہیں اور قارئین کی دلچسپی کے لیے ایسے ہی چند مقابلوں کا احوال پیش ہے۔
جب سری لنکا نے پہلی مرتبہ ایشیا کپ جیتا ایشیا کپ کے دوسرے ایڈیشن کا انعقاد سری لنکا میں ہوا۔ اس ٹورنامنٹ میں پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش کی ٹیموں نے شرکت کی۔ بھارت کی غیر موجودگی میں اس بات کی قوی امید تھی کہ پاکستان یہ ٹورنامنٹ جیت جائے گا لیکن سری لنکا کی نوجوان اور ناتجربہ کار ٹیم نے پاکستان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
دوسرے ایشیا کپ کے پول میچ میں پاکستان نے سری لنکا کو باآسانی 81 رنز سے شکست دی تھی لیکن فائنل میں ایسا نہیں ہوسکا۔
06 اپریل 1986ء کو کھیلے جانے والے فائنل میں سری لنکا نے ٹاس جیت کر پاکستان کو بیٹنگ کی دعوت دی۔
پاکستان کا آغاز نہایت مایوس کن رہا اور 32 رنز کے مجموعی اسکور پر پاکستان کے 4 کھلاڑی پویلین لوٹ گئے۔ اس موقع پر مردِ بحران جاوید میانداد نے پاکستان کی بیٹنگ کو سہارا دیا۔ اس کوشش میں ان کو سلیم ملک، منظور الٰہی اور عبد القادر نے معاونت فراہم کی۔
جاوید میانداد نے 100 گیندوں پر 67 رنز اسکور کیے جبکہ اننگز کے اختتامی اوورز میں عبد القادر نے 19 گیندوں پر 30 رنز بنا کر پاکستان کے اسکور کو مقررہ اوورز کے اختتام پر 191 رنز تک پہنچا دیا۔
پاکستان کی باؤلنگ کو دیکھتے ہوئے ایک عام خیال یہی تھا کہ پاکستان اس اسکور کا دفاع کرلے گا لیکن سری لنکا کے بلے بازوں نے اپنی عمدہ بیٹنگ سے پاکستانی شائقین کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
پاکستان کے اسکور کے تعاقب میں سری لنکا کی 3 وکٹیں 64 رنز کے اسکور پر گر گئیں۔ اس موقع پر ارجنا رانا ٹنگا اور اروندا ڈی سلوا نے چوتھی وکٹ کے لیے 97 رنز کی شراکت قائم کرکے اپنی ٹیم کی فتح کی بنیاد رکھی۔ سری لنکا نے 5 وکٹ سے یہ میچ جیت کر ایشیائی کرکٹ پر حکمرانی کا تاج اپنے سر پر سجا لیا۔
ہربھجن سنگھ نے پاکستان سے جیت چھین لی سری لنکا کے شہر دمبولا میں روایتی حریفوں پاکستان اور بھارت کے مابین 19 جون 2010ء کو کھیلے جانے والے ایشیا کپ کے اس میچ میں بہت سے نشیب و فراز آئے۔ کبھی ایک ٹیم کا پلڑا بھاری ہوتا تھا اور کبھی دوسری ٹیم کا۔
میچ کی پل پل بدلتی صورتحال کا میرے مزاج پر بھی اثر پڑ رہا تھا کیونکہ میں اس میچ کی براہِ راست کمنٹری ریڈیو پر سن رہا تھا۔ ریڈیو پر کمنٹری سننے کا ایک منفرد لطف ہوتا تھا۔ اس میچ میں پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اوپنر سلمان بٹ کے 74 رنز اور اننگز کے اختتامی اوورز میں کی گئی وکٹ کیپر کامران اکمل کی جارحانہ بیٹنگ کے باعث پاکستان کی ٹیم 49.3 اوورز میں 267 رنز بنا سکی۔
مزید پڑھیے: تاریخ کا مشکل ترین ایشیا کپ؟
بھارت نے اپنے ہدف کا تعاقب نہایت عمدہ طریقے سے کیا اور ایک موقع پر جب تیسری وکٹ کے لیے گوتم گمبھیر اور دھونی نے 18 اوورز میں 98 رنز کی شراکت قائم کی تو پاکستان کی شکست صاف دکھائی دینے لگی۔
اس موقع پر پاکستان کے باؤلرز اور فیلڈرز نے اپنی جادوئی کارکردگی سے میچ کی صورتحال تبدیل کرتے ہوئے اگلے 10 اوورز میں 39 رنز کے اندر بھارت کے 3 کھلاڑی آؤٹ کردیے جن میں گھمبیر اور دھونی بھی شامل تھے۔
لیکن پھر سریش رائنا اور ہربھجن سنگھ نے 43 رنز کی شراکت قائم کرکے بھارت کو جیت کی راہ پر گامزن کردیا۔ سریش رائنا کھیل کے آخری اوور میں رن آؤٹ ہوئے لیکن ہربھجن سنگھ نے ہمت نہیں ہاری۔ کھیل کی آخری 2 گیندوں پر بھارت کو جیت کے لیے 3 رنز درکار تھے۔ اس موقع پر ہربھجن سنگھ نے محمد عامر کی جانب سے کروائے گئے 50ویں اوور کی پانچویں گیند پر چھکا لگا کر بھارت کو اس اعصاب شکن میچ کا فاتح بنوا دیا۔