تاریخی طور پر اس معرکے میں ہندوستان اور سری لنکا کی برتری رہی ہے مگر پاکستان اور بنگلہ دیش کی ٹیمیں بھی کمزور نہیں ہیں۔
اگر کہا جائے کہ کرکٹ پر انگلینڈ اور آسٹریلیا کی سرداری کو چیلنج کرنے میں عبدالرحمٰن بخاطر کا ہاتھ ہے تو ایسا کہنا ہرگز بے جا نہ ہوگا۔
وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے پاکستان سری لنکا اور بھارت کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جہاں وہ ایک کثیرالملکی ٹورنامنٹ کھیل سکیں۔ اس سے پہلے صرف 2 کثیرالملکی ٹورنامنٹ منعقد ہوتے تھے۔ پہلا ٹورنامنٹ کرکٹ ورلڈکپ جو تینوں بار انگلینڈ میں منعقد ہوچکا تھا جبکہ دوسرا ٹورنامنٹ بینسن اینڈ ہیجز کپ تھا جو آسٹریلیا میں منعقد ہوتا تھا۔ ایشیا کپ اس نوعیت کا پہلا نان انگلش آسٹریلین ٹورنامنٹ تھا۔
پہلا ایڈیشن، اپریل 1984ء مقام: متحدہ عرب امارات شارجہ جیسے صحرا میں تینوں ٹیمیں اپریل کے مہینے میں آمنے سامنے آئیں۔ پاکستان کی ٹیم میں کپتان ظہیر عباس، جاوید میانداد اور مدثر نذر جیسے بڑے بلّے باز شامل تھے جبکہ باؤلنگ میں سرفراز نواز اور عبدالقادر جیسے شاندار نام موجود تھے۔ پہلا میچ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ہوا جو شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلا جانے والا سب سے پہلا انٹرنیشنل میچ بھی تھا۔
پاکستان کے لیے نتیجہ اچھا نہیں تھا کیونکہ سری لنکا جیسی چھوٹی ٹیم سے ہار اس کے حصے میں آئی۔ سری لنکن ٹیم میں رانا ٹنگا اور اروندا ڈی سلوا ابھی اپنی جگہ مستحکم کر رہے تھے۔ ڈی سلوا کا پاکستان کے خلاف یہ پہلا میچ بھی تھا۔ تاہم کپتان دلیپ مینڈس اور ڈیاس جیسے تجربہ کار بلّے باز موجود تھے۔
1984ء میں ایشیا کپ کا افتتاحی ٹورنامنٹ بھارت نے جیتا تھا
بھارت اس وقت ورلڈ چمپیئین تھا اور اپنے مقام سے بخوبی انصاف بھارت نے دوسرے میچ میں سری لنکا کو ہرا کر کیا۔ سری لنکا 100 کا ہندسہ بھی عبور نا کرسکا۔ بھارت کی ٹیم میں دلیپ وینگسارکر اور سنیل گواسکر جیسے اپنے وقت کے بڑے مہان بلّے باز موجود تھے۔ ٹورنامنٹ کا تیسرا اور آخری میچ بھی پاکستانیوں کے لیے مزید مایوسی لے کر آیا جب 189 کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے میدان میں اترنے والی پاکستانی ٹیم صرف 134 پر آؤٹ ہوگئی۔ اس میچ میں 4 پاکستانی کھلاڑی رن آؤٹ ہوئے۔
اس ٹورنامنٹ میں اپنے وقت کے دونوں بڑے آل راؤنڈر کپل دیو اور عمران خان شامل نہیں تھے۔ پہلے ایشیا کپ میں علیحدہ سے فائنل منعقد نہیں کیا گیا تھا۔ بھارت دونوں میچز میں فتوحات کے بعد کپ کا حقدار بنا۔ پاکستان کی طرف سے ون ڈے میچز میں پہلے ہندو وکٹ کیپر انیل دلپت بھی اس ٹیم کا حصہ تھے۔
دوسرا ایڈیشن، مارچ/اپریل 1986ء مقام: سری لنکا
اس ایڈیشن میں ایک بار پھر 3 ٹیموں نے حصہ لیا۔ اگرچہ بھارت کی ٹیم بوجوہ ٹورنامنٹ کا حصہ نہیں بنی، جس کی جگہ بنگلہ دیش نے لے لی، جبکہ میزبانی سری لنکا کے حصے میں آئی۔ پاکستان ٹیم میں عمران خان کی بطور کپتان واپسی ہوئی تھی اور یہ ان کے عروج کا زمانہ تھا۔ وسیم اکرم بھی ٹیم میں نیا اضافہ تھے۔
افتتاحی میچ ایک لو اسکورنگ میچ تھا جس میں وسیم اکرم کے قیمتی 24 رنز کی بدولت پاکستان نے سری لنکا کو 197 کا ہدف دیا جس کے جواب میں سری لنکن ٹیم صرف 116 رنز ہی بنا سکی۔ اس ایڈیشن میں پاکستانی ٹیم نے ہاٹ فیورٹ کی حیثیت سے حصہ لیا تھا اور بنگلہ دیش کے خلاف دوسرے میچ میں قومی ٹیم نے اس کا بخوبی اظہار بھی کیا۔ بنگلہ دیشی ٹیم کا یہ پہلا ون ڈے انٹرنیشنل میچ تھا اور اپنے پہلے ہی میچ میں پوری ٹیم محض 94 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ وسیم اکرم نے شاندار باؤلنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 4 وکٹیں حاصل کی تھیں۔
بنگلہ دیشی ٹیم میں منہاج العابدین نامی کھلاڑی بھی شامل تھے اور ان کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنا آخری ون ڈے میچ بھی پاکستان کے خلاف کھیلا جو ایک تاریخی میچ تھا۔ جی ہاں، 1999ء ورلڈ کپ والا مشہورِ زمانہ میچ جس میں بنگلہ دیش نے پاکستان کو پہلی دفعہ ون ڈے میچ کرکٹ میں شکست دی تھی۔ تیسرے اور آخری میچ کا نتیجہ سری لنکا کے حق میں آیا، تاہم اس بار بنگلہ دیش نے 100 کا ہندسہ ضرور عبور کرلیا تھا۔
ٹورنامنٹ کا فائنل پاکستان اور سری لنکا کے درمیان کھیلا گیا۔ اس میچ کے حوالے سے کچھ محققین دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ٹورنامنٹ کا فائنل نہیں تھا بلکہ علیحدہ سے ایک دوستانہ میچ تھا، تاہم کرک انفو اسے ٹورنامنٹ کا فائنل قرار دیتی ہے۔
پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ 45 اوورز میں 191 رنز بنائے۔ یاد رہے کہ اس ٹورنامنٹ میں تمام ون ڈے میچز 45 اوورز پر مشتمل تھے۔ اس میچ میں 67 رنز کی اننگز کھیلنے والے جاوید میانداد کے علاوہ کوئی بیٹسمین قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھا سکا۔ آخری اوورز میں میانداد کے ساتھ عبدالقادر اور منظور الٰہی نے کچھ تیز رنز بنائے اور مجموعہ حوصلہ افزا ہوسکا۔ عبدالقادر محض 19 گیندوں میں 30 رنز بنائے تھے۔
جواب میں سری لنکا نے اچھا آغاز کیا۔ چونکہ عمران خان انجرڈ ہو کر گراؤنڈ سے باہر جاچکے تھے جس کا میزبان ٹیم نے بھرپور فائدہ اٹھایا خاص کر اروینڈا ڈی سلوا اور راناٹنگا نے، جنہوں نے بالترتیب 52 اور 57 رنز بنائے اور اپنی ٹیم کو ٹرافی کا حقدار بنا دیا۔ ارجنا راناٹنگا 105 رنز بنا کر ٹورنامنٹ کے کامیاب ترین بلّے باز اور عبدالقادر 9 وکٹ لے کر بہتریین باؤلر قرار پائے۔ رانا ٹنگا پلیئر آف دی سیریز بھی قرار پائے۔
تیسرا ایڈیشن، اکتوبر 1988ء مقام: بنگلہ دیش اس ایڈیشن میں بھارتی ٹیم کی واپسی کے ساتھ پہلی مرتبہ 4 ٹیموں نے ایشیا کپ میں شرکت کی۔ عمران خان کی غیر موجودگی کے سبب قومی ٹیم کے کپتان جاوید میانداد تھے۔ اس ایڈیشن عامر ملک اور اعجاز احمد جیسے نوجوان بلّے بازوں کو ٹیم کا حصہ بنایا گیا تھا۔
ہماری باؤلنگ خاصی تجربہ کار تھی اور توصیف احمد و وکٹ کیپر سلیم یوسف جیسے سینئرز کی بھی واپسی ہوئی تھی تاہم قسمت اس بار بھی نہیں بدلی۔ قومی ٹیم بنگلہ دیش کے علاوہ کوئی میچ بھی نا جیت سکی۔ ٹورنامنٹ کا افتتاحی میچ پاکستان اور سری لنکا کے مابین تھا۔ یاد رہے کہ یہ بنگلہ دیش میں کھیلا جانے والا سب سے پہلا ون ڈے انٹرنیشنل میچ بھی تھا۔
کمزور بنگلہ دیش کے خلاف پاکستان کی طرف سے بیٹنگ میں زبردست کارکردگی دیکھنے میں آئی۔ اعجاز احمد نے اپنی پہلی سنچری اسکور کی اور 124 رنز بناکر ناٹ آؤٹ رہے اور پاکستان کی طرف سے دوسرا ہی میچ کھیلنے والے معین الحق نے بھی اپنی پہلی سنچری مکمل کی۔ لیکن یہ سنچری معین الحق کی واحد سنچری بھی ثابت ہوئی کیونکہ وہ پاکستان کی طرف سے صرف 5 میچ ہی کھیل سکے۔
سری لنکن ٹیم اس ٹورنامنٹ میں بھرپور فارم میں نظر آئی۔ اس ٹورنامنٹ میں رانا ٹنگا کپتان بن چکے تھے اور ڈی سلوا کے ساتھ مل کر خوب قہر ڈھا رہے تھے۔ پاکستانی کپتان جاوید میانداد سری لنکا کے خلاف پہلے ہی میچ میں انجری کا شکار ہوکر گراؤنڈ چھوڑ گئے اور اس ٹورنامنٹ میں دوبارہ نہیں کھیل سکے، چنانچہ بقیہ میچز میں عبدالقادر نے کپتانی کا فریضہ انجام دیا۔
بھارتی ٹیم کی بیٹنگ بہت مضبوط تھی۔ سدھو، امرناتھ، اظہرالدین، سری کانت اور کپتان وینگسارکر سارے ہی اپنے وقت کے کامیاب بیٹسمین اس ٹیم کا حصہ تھے۔ کپل دیو بھی اس بار ٹیم کا حصہ تھے۔