پاکستان

متحدہ قومی موومنٹ کی انتخابی تاریخ

اپنے قیام کے بعد سے آج تک کی 30 سالہ انتخابی تاریخ میں ایم کیو ایم نے حالیہ انتخابات میں بدترین صورتحال کا سامنا کیا ہے

حالیہ انتخابات سے قبل ملک کی چوتھی بڑی سیاسی جماعت اور کراچی کے حقوق کی سب سے بڑی دعوے دار متحدہ قومی موومنٹ کو انتخابات 2018 میں جس طرح کے نتائج اور صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، اس سے قبل متوسط طبقے کی نمائندہ اس جماعت نے کبھی بھی نہیں کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان)

واضح رہے کہ 1978 میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا جو 1984 میں مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے سیاسی دھارے میں شامل ہوئی۔

اپنے قیام کے بعد 1988 میں ہونے والے سب سے پہلے عام انتخابات میں ایم کیوایم کے اراکین نے آزاد حیثیت سے حصہ لیا اور انتخابی نتائج میں شہری علاقوں سے قومی اسمبلی کی 13 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے سیاسی پنڈتوں کو حیران کردیا.

اس کے بعد ایم کیو ایم نے سندھ کے شہری علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط رکھتے ہوئے حق پرست گروپ کے پلیٹ فارم سے 1990 کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور مجموعی طور پر قومی اسمبلی کی 15 نشتیں حاصل کیں جس میں سندھ کے شہری علاقوں میں مقبولیت کے سبب ایم کیوایم کی کامیاب نشستوں پر ووٹر ٹرن آؤٹ 70 فیصد رہا۔

جبکہ مجموعی طور پر 1990 کے انتخابات کا ووٹنگ ٹرن آؤٹ صرف 45 فیصد تھا، بعد ازاں بے نظیر دور میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کے آغاز کے بعد پارٹی کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ایم کیوایم کے کارکنوں کے خلاف چھاپے اور گرفتاریوں کے باعث کئی رہنما روپوش ہوگئے جن میں بیشتر بعد ازاں جلاوطنی پر مجبور ہوگئے اور کئی سالوں بعد منظر عام پر آئے۔

اسی عرصے میں ایم کیو ایم 2 ٹکڑوں میں بھی بٹ گئی، دوسرا گروہ آفاق احمد اور عامر خان کی سربراہی میں مہاجر قومی موومنٹ حقیقی کے نام سے سامنے آیا۔

1993 میں اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان نے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اسمبلیاں تحلیل کردیں اور انتخابات کا اعلان کردیا، جس میں ایم کیو ایم نے ریاستی آپریشن کو جواز بناکر 1993 کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: متحدہ قومی موومنٹ ایک ناکارہ مشین؟

جبکہ4 سال بعد صدر فاروق لغاری کی جانب سے بے نظیر کی حکومت کے خاتمے کے بعد ہونے والے1997 کے انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ نے قومی اسمبلی کی 12 نشستیں حاصل کیں اور مجموعی طور پر کامیاب نشستوں پر 66 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

1999 میں جنرل پرویز مشرف کے برسر اقتدار آنے کے بعد 2002 میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں ایم کیو ایم اپنے تبدیل شدہ نام متحدہ قومی موومنٹ کے نام سے انتخابی میدان میں اتری اور قومی اسمبلی کی 14 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، جبکہ کامیاب نشستوں پر ووٹر ٹرن آؤٹ 66 فیصد رہا۔

2002 کے انتخابات میں ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی سفیان یوسف نے کل ڈالے گئے ایک لاکھ 94 ہزار 2 سو 78 ووٹوں میں ایک لاکھ 86 ہزار 933 یعنی تقریباً 96 فیصد ووٹ حاصل کر کے ملکی تاریخ میں ریکارڈ بھی قائم کیا۔

2008 میں ہونے والے عام انتخابات میں ایم کیو ایم نے اپنی انتخابی تاریخ میں قومی اسمبلی کی کامیاب نشستوں پر کل ووٹوں 29 لاکھ 45 ہزار 7 سو 12 ووٹوں میں 22 لاکھ 94 ہزار 7 سو 86 ووٹ حاصل کر کے اب تک کی سب سے زیادہ ریکارڈ 20 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: متحدہ قومی موومنٹ کے 25 دفاتر منہدم

خیال رہے کہ 2008 کے عام انتخابات میں ایم کیوایم کی کامیاب نشستوں پر ووٹر ٹرن آؤٹ بھی سب سے زیادہ یعنی 77 فیصد رہا یہ وہ زمانہ تھا جب سابق صدر پرویز مشرف کی سربراہی میں متحدہ قومی موومنٹ اپنے عروج کے دور سے گزر رہی تھی۔

تاہم 2013 کے انتخابات میں صورتحال میں کچھ فرق آیا اور ایم کیو ایم نے ابتدائی طور پر 18 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 254 پر امیدوار کے انتقال کے باعث انتخابات ملتوی کردیے گئے تھے، بعد ازاں اس حلقے سے ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی محمد علی راشد کامیاب ہوئے تھے۔

یوں مجموعی طور پر عام انتخابات 2013 میں ایم کیو ایم کو 19 نشستیں حاصل ہوئیں اور کل 34 لاکھ 4 سو 4 ووٹوں میں سے 22 لاکھ 24 ہزار 3 سو 33 ووٹ حاصل کیے جبکہ ایم کیوایم کی کامیاب نشستوں پر ووٹر ٹرن آؤٹ 65 فیصد رہا۔

سال 2016 میں 22 اگست کو بانی ایم کیوایم کی متنازع تقریر کے بعد ایم کیو ایم کا بدترین زوال شروع ہوا، اور پارٹی کے تمام دفاتر بند اور سیاسی سرگرمیاں محدود کردی گئی تھیں۔

جس کے اگلے ہی روز سینئر رہنما اور ڈپٹی کنوینر فاروق ستار نے بانی ایم کیو ایم سے لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو فعال رکھنے کا اعلان کردیا۔

مزید پڑھیں: 'ہم محب وطن لوگ تھے، 'را' کے ایجنٹ ہوگئے'

تاہم اس واقعے سے قبل اس جماعت کو ایک جھٹکا اس وقت بھی پہنچا جب سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال، انیس قائم خانی کے ہمراہ اچانک پاکستان پہنچے اور ڈرامائی انداز میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپنی جماعت بنانے کا اعلان کردیا۔

22 اگست کے بعد متحدہ قومی موومنٹ میں واضح طور اندرونی اختلافات سامنے آئے اور اسے مزید دھڑے بندی کا سامنا بھی کرنا پڑا اس سلسلے میں ایک دھڑا فاروق ستار کی قیادت میں پی آئی بی کے نام سے جبکہ عامر خان کی قیادت میں بہادر آباد کا دھڑا سامنے آیا۔

بعدازاں انتخابات کے پیشِ نظر دونوں دھڑے ایک تو ہوگئے لیکن لندن کی جانب سے بائیکاٹ کے اعلان کے باعث انتخابی مہم میں وہ جوش و خروش دیکھنے میں نہیں آیا جو ایم کیو ایم کا خاصہ تھا۔

25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ کو اپنی انتخابی تاریخ کی بدترین صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جس میں وہ قومی اسمبلی کی محض 6 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی۔

ایم کیو ایم نے نہ صرف اپنے تاریخ کے برے انتخابی نتائج کا سامنا کیا بلکہ حالیہ انتخابات میں مجموعی طور پر 8 لاکھ 56 ہزار 3 سو 97 ووٹ میں سے صرف 3 لاکھ 40 ہزار 9 سو 8 ووٹ حاصل کیے جبکہ ایم کیوایم کی کامیاب نشستوں پر ووٹر ٹرن آؤٹ بھی محض 39 فیصد رہا۔