پاکستان

اپوزیشن جماعتوں کا الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کا فیصلہ

اسلام آباد میں 8 اگست کو ای سی پی اور 9 اگست کو صوبائی الیکشن کمیشن کے دفاترکے باہر احتجاج کریں گے، سینیٹر مشاہد حسین

اسلام آباد: انتخابات 2018 میں مبینہ دھاندلی پر احتجاج اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو پارلیمنٹ میں کڑا وقت دینے کے لیے اپوزیشن جماعتوں نے پاکستان الائنس فار فری اینڈ فیئر الیکشن (پی اے ایف ایف ای) کے نام سے اتحاد تشکیل دے دیا۔

ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد حسین نے کہا ہے کہ 11 جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن الائنس اسلام آباد میں 8 اگست کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے باہر احتجاجی مظاہرہ کرے گا جبکہ 9 اگست کو صوبائی الیکشن کمیشن کے دفاترکے باہر احتجاج کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابات 2018مسترد، دوبارہ انتخابات کیلئے تحریک چلائیں گے، آل پارٹیز کانفرنس

انہوں نے واضح کیا کہ پی اے ایف ایف ای اپنے نومنتخب امیدواروں کو بھی ای سی پی کے باہر احتجاج کے لیے کال کرے گا۔

اس حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی اور پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کا فیصلہ کیا گیا۔

سینیٹر کا کہنا تھا کہ ’پارلمنٹ کے اندر اور باہر سخت احتجاج ہوگا لیکن اس کا دائرہ کار جارحانہ نہیں ہوگا‘۔

مشاہد حسین سید نے کہا کہ اپوزیشن جماعتیں جلد ازجلد عوامی اجلاس کا ارادہ رکھتی ہیں تاہم ’دھاندلی پر نیشنل کانفرنس‘ کے انعقاد بھی سوچا جارہا ہے جس میں سول سوسائٹی، وکلا اور صحافیوں کو مدعو کیا جائے گا۔

دیگر جماعتوں کے علاوہ مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، قومی وطن پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ)، نیشنل پارٹی (این پی)، جمعیت علماء اسلام (ف) اور جماعت اسلامی (جے آئی)، جمعیت علماء پاکستان (نورانی) نے مشترکہ حکمت عملی اپنانے پر اتفاق کیا ہے۔

مزید پڑھیں: انتخابات میں دھاندلی کا الزام: اے این پی کا احتجاج کا اعلان

مشاہد حسین سید نے بتایا کہ اجلاس میں شہباز شریف کا نام بطور وزیراعظم زیرِ بحث آیا تاہم کوئی حتمی فیصلہ نہیں لیا گیا۔

علاوہ ازیں انہوں نے واضح کیا کہ شہباز شریف پارٹی کے کسی سینئر کا نام بھی تجویز کر سکتے ہیں۔

دوسری جانب پی پی پی میں ذرائع نے بتایا کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے نام کے لیے سید خورشد شاہ کو کے نام کے لیے گرین سگنل مل چکا ہے۔

میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے پی پی پی کی رہنما شیری رحمٰن نے کہا کہ ایجنڈا اور منشور مختلف ہونے کے باوجود تمام جماعتوں نے ’دھاندلی شدہ انتخابات‘ کو مسترد کردیا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایک پارٹی کو ’مداخلت‘ کے ذریعے کامیاب کیا گیا تاہم ان کی جماعت ’کٹھ پتلی حکومت کے خلاف لڑے‘ گی۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابات 2018مسترد، دوبارہ انتخابات کیلئے تحریک چلائیں گے، آل پارٹیز کانفرنس

اے این پی کے افتخار حسین نے دعویٰ کیا کہ ان کی جماعت ’وفاق میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے‘۔

مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال نے واضح کیا کہ یہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر ہیں جنہوں نے انتخابات کے نتائج کو یکسر مسترد کیا۔

ایم ایم اے جنرل سیکریٹری لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ تمام جماعتوں نے پارلیمنٹ میں جانے کا فیصلہ کیا اور ’آئین اور جمہوریت کے تحفظ‘ کے لیے مشترکہ کوششیں کی جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو تمام اختیارات حاصل تھے لیکن وہ مبینہ طور پر اپنے اختیارات سے دستبردار ہوگیا۔


یہ خبر 4 اگست 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی