اکمل برادران کی کہانی
جب پوری دنیا کی توجہ روس میں ہونے والے فٹبال ورلڈ کپ 2018ء پر مرکوز تھی تب دنیا بھر میں کافی کچھ ہو رہا تھا جیسے پاکستان کو ہاکی میں چیمپیئنز ٹرافی کے حالیہ ایڈیشن میں بدترین شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور کرکٹ میں پاکستان نے بے یار و مددگار زمبابوین ٹیم کو بدترین خفت سے دوچار کیا، یہ دونوں ہی نتائج توقعات کے عین مطابق تھے۔ لیکن اس دوران ایک غیر متوقع واقعہ بھی پیش آیا۔ اگرچہ اس کو رونما ہوئے ایک ماہ سے زائد عرصہ ہوگیا ہے، لیکن حیران کن طور پر جتنی بات اس پر ہونی چاہیے تھی، اتنی بالکل بھی نہیں ہوئی۔
یہاں جس واقعہ کی بات ہوئی ہے اس کا تعلق قوم کے پسندیدہ فرزند عمر اکمل سے ہے۔ ہمیشہ ہی اپنے عجیب و غریب بیانات کے سبب خبروں کی زینت بننے اور توجہ حاصل کرنے کے خواہشمند عمر اکمل نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ 2015ء میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی سرزمین پر منعقد ہونے والے عالمی ورلڈ کپ کے دوران مبینہ طور پر فکسرز نے ان تک رسائی حاصل کی۔ یہ بیان ہر ہر حوالے سے اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ کھلاڑی ہر وقت تنازعات میں گھرے رہنے کی زبردست صلاحیت رکھتا ہے۔
میچ فکسنگ کے ساتھ ساتھ بال ٹیمپرنگ ایک ایسا اہم مسئلہ ہے جسے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اور ایسے حالات میں عمر اکمل کی جانب سے محض توجہ حاصل کرنے کے لیے یوں دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کی کوشش کو احمقانہ بہادری ہی کہا جاسکتا ہے۔ اگرچہ انہیں خواہش کے مطابق توجہ تو ملی، لیکن اتنی نہیں جتنی وہ سوچ رہے تھے۔ اس بیان کا آنا تھا اور آئی سی سی نے ہنگامی طور پر ان سے ملنا چاہا جبکہ مقامی میڈیا اور حکام نے انہیں رپورٹنگ سے بڑھ کر توجہ تک نہ دی اور نہ ہی ان کے بیانات کو اہمیت دی۔ عمر اکمل کو خواہش کے مطابق توجہ تو مل گئی، مگر غلط جگہ اور حقیقت یہ ہے کہ اس بیان کے بعد وہ مشکلات کا شکار بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ انہوں نے مبینہ طور پر فکسنگ کے حوالے سے کی گئی پیشکش کے بارے میں ٹیم مینجمنٹ کو اپنی مرضی سے آگاہ نہیں کیا تھا۔
یہ ایک حیران کن امر ہے کہ آئی سی سی نے فوری طور پر معاملے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انہیں ملاقات کے لیے طلب کیا تھا لیکن اس معاملے پر اس سے آگے کوئی پیشرفت نہ ہوسکی۔ اس مسئلے پر مکمل بلکہ ناقابل فہم خاموشی طاری ہے۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کھیل کی عالمی تنظیم نے بھی عمر اکمل اور ان کے ہتھکنڈوں کو نظر انداز کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن جب آئی سی سی نے بیان پر ردعمل دینے کا فیصلہ کیا تھا تو یہ ایک منطقی عمل اور طریقہ کار کی مانگ ہے کہ عوام کو اس حوالے سے آگاہ کیا جائے۔ تاہم تاحال یہ انتظار جاری ہے۔
اگر 2015ء کے ورلڈ کپ میں عمر اکمل کی کارکردگی کا ذکر کریں تو یہ کچھ دلچسپ احوال پیش کرتی ہے۔ بھارت کے خلاف انہوں نے 4 گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے پورے صفر رنز بنائے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف 71 گیندوں پر 59رنز بنانے کے بعد عمر اکمل نے زمبابوے کے خلاف 42 گیندوں پر 33، متحدہ عرب امارات کے خلاف 13 گیندوں پر 19، جنوبی افریقہ کے خلاف 20 گیندوں پر 13، آئرلینڈ کے خلاف 29 گیندوں پر 20 اور کوارٹر فائنل میں آسٹریلیا کے خلاف 25 گیندوں پر 20 رنز بنائے۔ مجموعی طور پر انہوں نے 204 گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے 80 کے اسٹرائیک ریٹ سے 164 رنز بنائے اور یہ اسٹرائیک ریٹ ان کے 105 میچوں پر محیط ون ڈے کیریئر کے اسٹرائیک ریٹ 85.94 سے محض کچھ کم ہے۔
اس صورتحال کا مزید باریک بینی سے جائزہ لیں تو ایڈیلیڈ اور اوول میں بھارت کے خلاف معرکے کے دوران عمر کو بیٹنگ کرتے ہوئے مبینہ طور پر 2 گیندیں چھوڑنے کے عوض 2 لاکھ ڈالر کی پیشکش کی گئی۔ اس میچ میں انہوں نے 4 گیندیں کھیلی، ایک گیند کو چھوڑا، 2 کا دفاع کیا اور چوتھی پر آؤٹ ہوگئے جہاں فیلڈ امپائر نے آؤٹ دینے سے انکار کیا لیکن تھرڈ امپائر نے 'اسنیکو' کی مدد سے انہیں آؤٹ قرار دیا۔ اگر ارادے کی بات کی جائے تو عملی طور پر یہ گیند چھوڑی گئی تھی۔ تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے طے کردہ رقم کو یقینی بنانے کے لیے دوسری گیند چھوڑی تھی، وہ رقم جس کا مبیّنہ طور پر ان سے وعدہ کیا گیا تھا؟
آئی سی سی یا پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) سوالات نہیں پوچھ رہے۔ وہ پی سی بی کے اینٹی کرپشن یونٹ کے سامنے بھی پیش ہوئے لیکن اس کے نتیجے میں محض یہ اعلان سامنے آیا کہ 'تفصیلات جلد سامنے لائی جائیں گی'۔ آفیشل کی عدم دلچسپی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں کے دوران عمر اکمل کی پاگل پن سے بھرپور تاریخ کو دیکھتے ہوئے ان الزامات کو بھی تشہیر کا ایک گھٹیا طریقہ سمجھا گیا ہو۔
وہ اپنے بڑے بھائی کامران اکمل سے سیکھ سکتے ہیں جو ان کے برعکس ایک مختلف صورتحال کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ ان کو بغیر الوداعی میچ کے بغیر ہی قومی ٹیم سے ایک طرف کردیا گیا لیکن اس کے باوجود انہوں نے جس استقامت، جرات اور کردار کا مظاہرہ کیا ہے وہ بہت کم لوگ کر پاتے ہیں۔ ٹیم آگے بڑھ چکی ہے اور اسی طرح اسے ایک وکٹ کیپر بھی مل چکا ہے جو ٹیم کا کپتان بھی ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس ٹیم میں دوبارہ واپسی کا کوئی چانس نہیں۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور ٹیم میں واپسی کے لیے مستقل کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے رنز کے انبار لگا دیے جو انہیں دورہ ویسٹ انڈیز کے لیے بحثیت بلے باز منتخب کرانے کے لیے کافی ثابت ہوئے۔
اس دورے کے بعد انہیں دوبارہ ایک جانب پھینک دیا گیا لیکن پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے دوران کارکردگی ان کو پھر سب کی نظروں میں لے آئی اور میڈیا نے ٹیم مینجمنٹ، سلیکٹرز اور بورڈ سے سوالات کرنا شروع کردیے کہ اگر ٹیم میں منتخب نہ کیا گیا تو کامران دوبارہ رنز کے انبار لگا کر آخر کیا کریں گے؟ وہ جنہیں ان سوالات کے جواب دینا چاہیے تھے وہ کچھ ایسے بیانات دے رہے ہیں جن میں کوئی وزن یا منطق نہیں تھی۔
تاہم آخر میں یہ کہنا درست ہوگا کہ کامران اکمل نے اپنی کارکردگی سے متعلقہ حکام پر جو دباؤ قائم کیا تھا، اسے خود ہی ختم کردیا۔ پی ایس ایل فائنل کے دوران انہوں نے ایک کیچ ڈراپ کیا جو ان کا نہیں تھا اور فیلڈر آرام سے اسے تھام سکتا تھا لیکن انہوں نے کیچ لینے کی آواز لگائی اور میچ کے انتہائی نازک موڑ پر اسے افسوسناک طریقے سے ڈراپ کردیا۔ اس کے ساتھ ہی ان کے مستقبل کے حوالے سے بحث مستقل طور پر دم توڑ گئی۔
تاہم اگر دونوں بھائیوں کا تنقیدی طور پر موازنہ کیا جائے تو ٹیم میں واپسی کی سوچ کے طریقہ کار پر کامران اکمل کو بالکل بھی غلط قرار نہیں دیا جاسکتا۔ وہ منہ سے کچھ نہ بولے لیکن بلے سے رنز کے انبار لگاتے رہے۔ تاہم عمر اکمل نے ہر چیز اس کے الٹ کی۔
حمیر اشتیاق صحافی اور سوانح نگار ہیں، اور تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس humair.ishtiaq@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: HumairIshtiaq@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔