پاکستان

ماضی میں انتخابی نتائج کیسے جانے جاتے تھے؟

2018 میں ہمارے پاس اس حوالے سے کافی آپشنز موجود ہیں، مگر ماضی میں لوگوں کے لیے انتخابی نتائج جاننا اتنا آسان نہیں تھا۔

اگر آپ سے پوچھا جائے کہ 2018 کے انتخابات کے کسی مخصوص حلقے یا مکمل نتائج جاننے کے لیے آپ کس کی مدد لینا پسند کریں گے، ٹیلیویژن، سوشل میڈیا، ویب سائٹس یا اسمارٹ فون ایپس یا کوئی اور؟

تو اس کا جواب آپ اپنی پسند کے مطابق دے سکتے ہیں، کیونکہ 2018 میں ہمارے پاس اس حوالے سے کافی آپشنز موجود ہیں، مگر ماضی میں لوگوں کے لیے انتخابی نتائج جاننا اتنا آسان نہیں تھا۔

درحقیقت 1970 میں جب ملکی تاریخ کے پہلے عام انتخابات ہوئے تو نتائج جاننا اتنا آسان نہیں تھا، جتنا اب ہے، کیونکہ ٹیلیویژن تو تھا مگر اکثر افراد اس سے محروم تھے، یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں ریڈیو کو زیادہ اہمیت حاصل تھی، مگر وہ بھی ہر ایک کے پاس نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے کہ 70 ، 80 یا 90 کی دہائی میں اخبارات کو انتخابی نتائج جاننے کے لیے زیادہ ترجیح دی جاتی تھی مگر اس طریقے سے مکمل نتائج جاننے میں عام طور پر ایک سے 3 دن لگ جاتے تھے۔

یہاں ہم آپ کو ماضی کی کچھ جھلکیاں دکھاتے ہیں کہ کس طرح انتخابی نتائج لوگوں تک پہنچتے تھے۔

1970

پی ٹی وی اسٹوڈیو کراچی سے نشر ہونے والی الیکشن ٹرانسمیشن کے دوران زبیر الدین اور غزالہ یاسمین نتائج بتارہے ہیں— فوٹو بشکریہ ڈوک قاضی فلیکر اکاؤنٹ

یہ پاکستانی تاریخ کے پہلے عام انتخابات بھی تھے اور لوگوں میں اس کے حوالے سے جوش و خروش بھی دیدنی تھا، مگر اس کی کوریج ریڈیو اور اخبارات تک ہی محدود سمجھی جاسکتی ہے کیونکہ اس زمانے میں پاکستانی ٹیلی ویژن کی نشریات کو کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔

پی ٹی وی کا الیکشن سیل

تاہم ریڈیو اور پی ٹی وی کی جانب سے عوام کو انتخابی نتائج سے آگاہ کرنے کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے اور 29 گھنٹے لگاتار نشریات کو جاری رکھا گیا، جو اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اس زمانے میں 9 بجے کے خبرنامے کے بعد ٹی وی نشریات ختم کردی جاتی تھی، اسی طرح اخبارات نے بھی لوگوں کو نتائج سے آگاہ کرنے کے لیے کردار ادا کیا، تاہم اخباری ذرائع سے نتائج سے انتخابات کے 2 دن بعد ہی مکمل طور پر سامنے آسکے تھے۔

1988

1970 کے بعد 1988 کے انتخابات پاکستانی تاریخ میں اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ طویل مارشل لاءکے بعد یہ پہلے الیکشن تھے جس میں بے نظیر بھٹو نے کامیابی حاصل کی تھی اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بنی تھیں۔

اس زمانے میں نتائج جاننے کے لیے ٹی وی ہی لوگوں کی اولین ترجیح تھا کیونکہ اکثر افراد بلیک اینڈ وائٹ یا کلر ٹیلیویژن کے مالک بن چکے تھے، جس کے بعد ریڈیو کا نمبر آتا تھا، جبکہ اخبارات کو تفصیلی نتائج کے حوالے سے اہمیت حاصل تھی تاہم اس میں بھی مکمل نتائج آنے میں 2 دن لگ جاتے تھے، جبکہ ٹی وی سے یہ جاننا 24 گھنٹوں میں ہی ممکن تھا۔

اس طرح انتخابی نشریات کے لیے خصوصی پروگرام بھی تیار کیے گئے تھے جو دیکھنے والوں کو بیزار نہیں ہونے دیتے تھے۔

1993

1993 میں بھی حالات کچھ زیادہ مختلف نہیں تھے اور ٹیلیویژن کو ہی انتخابی نتائج جاننے کے لیے ترجیح دی جاتی تھی، بس ساری رات جاگنا شرط تھا۔

تاہم اس زمانے میں اخبارات میں انتخابی نتائج کے حوالے سے ایک دلچسپ کام کیا تھا اور وہ تھا کہ تمام انتخابی حلقوں میں لڑنے والے امیدواروں کے نام دے کر قارئین کو دعوت دی جاتی تھی کہ وہ جیتنے والوں کے نام پر گڈ مارک لگا کر اپنا ریکارڈ خود بنائیں اور اکثر افراد ایسا کرتے بھی تھے، جس کے لیے ٹی وی، ریڈیو اور اخباری نتائج سے مدد لی جاتی تھی۔

2008

یہ صحیح معنوں میں وہ الیکشن ہیں جس میں پاکستان ٹیلی ویژن کی بجائے نجی نیوز چینیلز کے ذریعے انتخابی نتائج جاننے کا رجحان زور پکڑا اور ماضی کے مقابلے میں زیادہ جلدی نتائج سامنے آنے لگے، جبکہ ویب سائٹس بھی اس حوالے سے مددگار ثابت ہوتی تھیں۔

اس کے مقابلے میں اخبارات میں وہی ڈگر برقرار رہی، یعنی نتائج سامنے لانے میں کم از کم 2 دن کا عرصہ لگ جاتا تھا۔

2013

2013 کے انتخابات میں صرف ٹی وی ہی نہیں سوشل میڈیا بھی انتخابی نتائج کے حصول کے لیے ذریعہ بن چکا تھا جبکہ ویب سائٹس زیادہ مددگار ثابت ہونے لگیں جہاں ہر لمحے کی اپ ڈیٹ فوری مل جاتی تھی، اسی طرح ایف ایم ریڈیو بھی اس حوالے سے لوگوں کو مدد فراہم کرنے لگے تھے۔