پاکستان

سندھ سے پہلی مرتبہ انتخاب لڑنے والی ہندو خواتین

صوبے کے پسماندہ ترین علاقے سے پہلی بار اقلیت سے تعلق رکھنے والی خواتین بااثراور تجربہ کار سیاستدانوں کا مقابلہ کریں گی۔

ملک میں 25 جولائی کو عام انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں، جس سے عوام کو بہت بڑی توقعات ہیں۔

اس مرتبہ انتخابی مہم کے دوران انتہائی طاقتور اور بااثر سیاستدانوں کو جہاں پہلی بار اپنے ہی حلقے کے عام افراد کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، تو وہیں یہ بھی توقع کی جا رہی ہے کہ 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج ماضی کی طرح نہیں ہوں گے۔

صوبہ سندھ میں بھی اس بار وڈیروں، سرداروں اور بااثر سیاستدانوں کو اپنے ہی حلقے کے عام افراد کے احتجاج، غصے اور سوالات کا سامنا کرنا پڑا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام 25 جولائی کو ماضی کی روایت کو برقرار رکھنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔

تاہم 25 جولائی کے عام انتخابات سندھ میں کیا تبدیلی لاتے ہیں اور کون فتح حاصل کرکے عوام کی خدمت کرتا ہے، اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ سے پیپلز پارٹی شہید بھٹو کی واحد اور پہلی خاتون امیدوار

لیکن اس مرتبہ سندھ بھر سے انتخابات میں حصہ لینے والے متعدد امیدوار ایسے بھی ہیں، جن کے سامنے آنے سے عوام کو یہ تسلی ہوئی ہے کہ اب حالات پہلے جیسے نہیں رہیں گے۔

صوبہ سندھ کے دیگر علاقوں کی طرح پسماندہ ترین علاقوں میں شمار ہونے والے صحرائے تھر سے بھی اس بار عام انتخابات میں جہاں کئی کم آمدنی اور متوسط طبقے کے آزاد مرد امیدوار سامنے آئے ہیں۔

وہیں صحرائے تھر سے ہندو برادری کی نچلی ذات سے تعلق رکھنے والی ایسی خواتین امیدوار بھی سامنے آئی ہیں، جنہیں سالوں تک پینے کا پانی بھی الگ برتن میں دیا جاتا رہا۔

میگھواڑ، بھیل اور کولہی جیسی ذاتوں کا شمار ہندوؤں کی نچلی ذاتوں میں کیا جاتا ہے، جنہیں بھارت کی طرح پاکستان میں بھی اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے ہندو خود سے بدتر سمجھتے ہیں اور انہیں پینے کا پانی تک الگ برتن میں دیا جاتا ہے۔

لیکن اب ان ہی ذاتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین نہ صرف اعلیٰ ذات کے ہندو امیدواروں بلکہ بااثر اور منجھے ہوئے مسلمان سیاستدانوں کا بھی مقابلہ کرتی نظر آئیں گی۔

تلسی بالانی ( این اے 222 تھرپارکر )

—فوٹو: فیس بک

میگھواڑ قبیلے سے تعلق رکھنے والی 36 سالہ تلسی بالانی کا تعلق بھی صحرائے تھر کے ان لاکھوں افراد سے ہے، جنہیں آج تک حلقے سے منتخب ہونے والے کسی بھی ہندو یا مسلمان سیاستدان نے اپنے حقوق نہیں دیے۔

مسلسل حقوق نہ ملنے اور بنیادی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے 36 سالہ تلسی بائی نے اسمبلی میں جاکر اپنے ہی قبیلے کے لاکھوں افراد کے لیے قانون سازی کے لیے آواز اٹھانے کے فیصلے کے تحت ہی انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔

تلسی بالانی صحرائے تھر سے قومی اسمبلی کے حلقے 222 سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑیں گی اور ان کا انتخابی نشان ہتھوڑا ہے۔

اس حلقے سے مجموعی طور پر 14 امیدوار میدان میں اتریں گے، جن میں سے سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے مہیش کمار ملانی، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے ارباب ذکاء اللہ اور تحریک لبیک پاکستان کے محمد رمضان شامل ہیں۔

اس حلقے سے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا کوئی بھی امیدوار نہیں ہے۔

—فوٹو: فیس بک

گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس میں شامل ارباب غلام رحیم بھی اس حلقے سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اتریں گے۔

ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے تلسی بالانی کا کہنا تھا کہ وہ اپنے علاقے میں اپنی طرح کے لاکھوں افراد کو مسلسل نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہی سیاست میں آئیں اور انہوں نے خود انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔

تلسی بالانی نے تسلیم کیا کہ اگرچہ وہ سیاست کے داؤ پیچ اور چالبازیوں سے ناواقف ہے، تاہم انہیں امید ہے کہ اگر حلقے کے عوام انہیں ووٹ دے کر کامیاب کریں تو وہ اپنے لوگوں کے لیے روایتی سیاستدانوں سے بہترین کام کریں گی۔

طاقتور اور بااثر سیاستدانوں کے خلاف انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیوں کیا اور ان کی جیت کے کتنے امکانات ہیں کہ حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انتخابی مہم کے دوران انہیں تقریباً ہر ملنے والے شخص اور ہر گاؤں کے افراد نے ووٹ دینے کی یقین دہانی کرائی ہے، تاہم نتائج کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے خلاف دیگر بااثر امیدوار پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: سندھ کی قوم پرست پارٹی سے تعلق رکھنے والی کم عمر خاتون امیدوار

انہوں نے الزام عائد کیا کہ جیسے ہی وہ کسی گاؤں کا چکر لگاکر واپس گھر پہنچتی ہیں تو انہیں گاؤں والے فون کرکے کہتے ہیں کہ فلاں سیاسی جماعت کے امیدوار آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ تلسی نے ان سے لاکھوں روپے لے کر انتخابات سے دستبرداری کا اعلان کیا ہے، کیا یہ سچ ہے؟ جس پر وہ انہیں کہتی ہیں کہ اگر انہیں پیسے ہی لینے ہوتے تو وہ ان کے پاس ووٹ مانگنے نہ آتیں۔

—فوٹو: فیس بک

36 سالہ تلسی بالانی نے انٹر تک تعلیم حاصل کر رکھی ہے اور وہ نچلی ذات کے ہندوؤں کے لیے سرگرم تنظیم دلت سجاگ تحریک میں بھی شامل ہیں۔

6 بچوں کی ماں تلسی بالانی کا سب سے بڑا بچہ 15 سال کا ہے اور وہ ان کی انتخابی مہم سے دور اپنی تعلیم میں مصروف رہتا ہے۔

تلسی بالانی کے شوہر مڈل اسکول میں ڈرائنگ ٹیچر ہیں اس لیے وہ بھی ان کی انتخابی مہم میں ان کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ انہوں نے خود ہی اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ اس مہم کو چلایا ہے۔

رادھا بھیل ( پی ایس 48 میرپورخاص )

—فوٹو: فیس بک

رادھا بھیل اگرچہ انتخابات میں پہلی بار حصہ لے رہی ہیں، تاہم وہ انتخابی عمل کا حصہ بننے سے قبل ہی اپنی سماجی تنظیم دلت سجاگ تحریک کے ذریعے سیاسی و سماجی کاموں کے حوالے سے متحرک تھیں۔

رادھا بھیل صوبائی اسملبی کے حلقے پی ایس 48 سے آزاد امیدوار کی حیثیت میں انتخاب لڑ رہی ہیں، اس حلقے سے مجموعی طورپر 13 امیدوار میدان میں اتریں گے، جن کا مقابلہ واحد خاتون امیدوار رادھا بھیل کرتی نظر آئیں گی۔

—فوٹو: فیس بک

اس حلقے سے انتخاب لڑنے والے امیدواروں میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چنیسر، تحریک لبیک پاکستان کے خالد حسین، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رام چند، پاکستان پیپلز پارٹی کے سید ذوالفقار علی شاہ، تبدیلی پسند پارٹی کے محمد ارشد اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے میر شاہ محمد تالپور سمیت مجموعی طور پر 13 امیدوار میدان میں اتریں گے۔

رادھا بھیل دلت سجاگ تحریک اور اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے متحرک رہتی ہیں، انہوں نے ماضی میں ہمیشہ اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔

—فوٹو: فیس بک

40 سالہ رادھا بھیل نے نہ صرف دلت برادری اور ہندوؤں کی دیگر نچلی ذاتوں کے حقوق کے لیے کام کرتی دکھائی دیتی ہیں بلکہ وہ بچوں اور خواتین کے ساتھ ہونے والی جنسی ذیادتیوں اور تشدد کے واقعات پر بھی متحرک نظر آتی ہیں۔

سنیتا پرمار ( پی ایس 56 تھرپارکر )

—فوٹو: فیس بک

صحرائے تھر سے صوبائی اسمبلی کے حلقے پی ایس 56 سے پہلی بار انتخاب لڑنے والی 27 سالہ سنیتا پرمار بھی سندھ سے انتخابی دوڑ میں شامل کم عمر ترین امیدواروں میں سے ایک ہیں۔

سنیتا پرمار پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) اور جی ڈی اے کے امیدواروں سمیت دیگر 18 امیدواروں کے خلاف میدان میں اتریں گی۔

اس حلقے سے پیپلز پارٹی کے فقیر شیر محمد بلالانی، جی ڈی اے کے ارباب رزاق، تحریک لبیک پاکستان کے عبدالکریم اور ایم ایم اے کے میر محمد سمیت دیگر آزاد امیدوار انتخاب لڑ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پورے صوبے سے اے این پی کی پہلی اور واحد خاتون امیدوار

سنیتا پرمار نے بھی تلسی بالانی کی طرح شکایت کی کہ ان کے خلاف بھی دیگر سیاسی جماعتوں کے تجربہ کار امیدوار پروپیگنڈا کرکے لوگوں کو یہ بتاتے ہیں کہ سنیتا نے دوسری پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرلی یا پھر انہوں نے انتخابات سے دستبرداری کا اعلان کردیا۔

سنیتا پرمار نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ انہوں نے کسی بھی پارٹی سے کوئی اتحاد نہیں کیا اور نہ ہی وہ کسی کے حق میں دستبرداری کا اعلان کریں گی۔

سنیتا پرمار کا کہنا تھا کہ انہیں بھی ہار اور جیت کے نتائج کی پرواہ نہیں، کم سے کم انہوں نے انتخابی عمل میں حصہ لے کر ایک تاریخ رقم کرنے سمیت حلقے کے مظلوم عوام کو یہ حوصلہ تو دیا ہے کہ نچلی ذات کے لوگ بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔

—فوٹو: فیس بک

انتخابات میں کیوں حصہ لیا اور جیت کا کتنا امکان ہے کہ سوال میں سنیتا پرمار نے بتایا کہ ان کے حلقے میں کسی کو بھی پینے کا صاف پانی میسر نہیں، یہاں تک ان کے گھر میں بھی پینے کے لیے صاف پانی پیسوں سے منگوایا جاتا ہے، لیکن لاکھوں لوگوں کے پاس تو پانی خریدنے کے لیے پیسے بھی نہیں ہوتے۔

سنیتا پرمار نے بتایا کہ انہوں نے علاقے میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور لوگوں کی مجبوری اور تنگی کو دیکھ کر انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔

نوجوان سنیتا کے مطابق انہیں ووٹرز نے 25 جولائی کو ووٹ دینے کی یقین دہانی کرائی ہے، تاہم ان کے مد مقابل بااثر اور تجربہ کار سیاستدان ووٹ حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

آزاد امیدوار کی حیثیت میں میدان میں اترنے والی سنیتا پرمار نے الزام عائد کیا کہ تجربہ کار اور بااثر سیاستدان عوام کو ووٹوں کے لیے بلیک میل کر رہے ہیں اور عین ممکن ہے کہ وہ ووٹ خریدنے کے لیے عوام کو پیسوں کا لالچ بھی دیں۔

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے گزشتہ ایک ماہ کے دوران 50 دیہات کا دورہ کیا، جن میں سے صرف چند گاؤں میں ایک کمرے پر مشتمل کچے اسکول تھے، جو خستہ حالت میں بند پڑے تھے۔

—فوٹو: فیس بک

انہوں نے کہا کہ اگر وہ منتخب ہوگئیں تو علاقے میں سب سے پہلے پینے کے پانی، صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر کام کریں گی۔

سنیتا پرمار نے گریجویشن اور بی ایڈ کی ڈگر حاصل کی ہوئی ہے، ان کے شوہر ڈیپلو کے تعلقہ ہسپتال میں بچوں کے ماہر ڈاکٹر ہیں۔

تین بچوں کی والدہ سنیتا پرمار کے مطابق انہیں متعدد سیاسی جماعتوں نے اپنی جماعتوں میں شمولیت کی دعوت دی، تاہم وہ کسی پارٹی کی پالیسی کا حصہ بننے سے آزاد امیدوار کے طور پر عوام کے سامنے جوابدہ ہونے کو اہم سمجھتی ہیں۔

لیلاں لوہار ( این اے 218 میرپور خاص )

—فوٹو: رام کرشن فیس بک

لیلاں لوہار کا شمار بھی ان کم آمدنی رکھنے والے افراد میں ہوتا ہے اور انہوں نے بھی اپنے حلقے کے مسائل کو دیکھ کر طاقتور اور تجربہ کار امیدواروں کے بلمقابل اٹھنے کا فیصلہ کیا۔

قومی اسمبلی کے حلقے این اے 218 سے لیلاں لوہار سمیت مجموعی طور پر 16 امیدوار میدان میں اتریں گے، جن میں سے واحد خاتون امیدوار لیلاں ہی ہیں۔

لیلاں لوہار کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے پیر حسن علی شاہ، مسلم لیگ (ن) کے غلام جعفرجونیجو، تبدیلی پسند پارٹی کے مسعود احمد وسان، تحریک انصاف کے سید ممتاز علی شاہ اور ایم کیو ایم پاکستان کے سنجے پیروانی سمیت دیگر سے ہوگا۔

——فوٹو: رام کرشن فیس بک