نازیبا زبان کا استعمال، ایاز صادق، فضل الرحمٰن، پرویز خٹک بھی طلب
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے نازیبا زبان کے استعمال اور انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر ایاز صادق، مولانا فضل الرحمٰن اور پرویز خٹک کو نوٹسز جاری کردیے۔
تینوں رہنمائوں کو 21 جولائی کو طلب کیا گیا ہے۔ ای سی پی کے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اورسابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کی الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر تضحیک آمیز اور نازیبا گفتگو نشر ہوئی جس پر دونوں رہنماؤں کو 21 جولائی کو خود یا وکیل کے ذریعے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان غیراخلاقی زبان استعمال کرنے پر الیکشن کمیشن میں طلب
ای سی پی نے نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو بھی نوٹس جاری کر دیا ہے، انہیں بھی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی اور نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر 21 جولائی کو طلب کیا گیا ہے۔
ای سی پی نے انتخابی مہم کے سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو ناشائستہ اور نازیبا زبان نہ استعمال کرنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ امیدوار اپنے جلسوں کے دوران زبان کا مناسب استعمال کرنے میں محتاط رہیں۔
الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بھی نازیبا زبان استعمال کرنے پر 19 جولائی کو طلب کیا تھا، تاہم اُن کی جگہ ان کے وکیل بابر اعوان پیش ہوئے۔
الیکشن کمیشن میں سماعت کے دوران ای سی پی رکن سندھ عبدالغفار نے بابر اعوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے بہت نازیبا الفاظ استعمال کیے، آپ نے سنا ہوگا وہ آپ کے ساتھ ہی ہوتے ہیں، اس پر بابر اعوان نے کہا کہ جی میں نے سنا ہے لیکن عمران خان کے خلاف طالبان خان اور یہودی جیسے الفاظ استعمال ہورہے ہیں۔
کمیشن کے پنجاب سے رکن الطاف ابراہیم نے کہا کہ یہ کون کہہ رہے ہیں، جو شرح اور دین کے قریب ہیں، ابھی اور بھی نوٹسز جاری ہورہے ہیں۔
مزید پڑھیں: ’(ن) لیگ کے انتخابی اشتہار کے ساتھ عمران خان کی تقاریر پر بھی پابندی لگائی جائے‘
جس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ گدھا تو معمولی لفظ ہے، یہاں استاد بھی گدھا کہہ دیتے ہیں، جس پر الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ استاد کی بات اور ہوتی ہے۔
اس موقع پر بابر اعوان نے عمران خان کی جانب سے تحریری یقین دہانی کرائی کہ آئندہ ان کے چیئرمین کی جانب سے نازیبا زبان استعمال نہیں کی جائے گی جس پر الیکشن کمیشن نے سماعت انتخابات کے بعد تک کے لیے ملتوی کردی تھی۔