قصور بے چاری پیپلز پارٹی کا نہیں عوام کا ہی ہے!
پاکستان پیپلز پارٹی کا انتخابی منشور 2008ء اور 2013ء پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے پیپلز پارٹی کو ٹھیک سے سمجھا ہی نہیں، اس کے خلوص کو جانا ہی نہیں، اگر ہم سمجھ جاتے اور جو ہم نے ماضی میں کیا وہ نہ کرتے تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ سندھ کبھی بھی تعلیمی ایمرجنسی کا شکار نہیں ہوتا۔ لڑکوں کے 50 فیصد اور لڑکیوں کے 47 فیصد پرائمری اسکول کبھی بھی بیت الخلاء سے محروم نہ ہوتے، اور سندھ کی مائیں بہنیں کبھی بھی بھوک کا شکار نہیں ہوتیں اور نہ ہی تھر میں غذائی قلت کے سبب یوں بچوں کی اموات واقع ہوتیں۔
مجھے یہ کہنے دیجیے کہ سندھ پر جتنی بھی سماجی اور معاشی قیامتیں ٹوٹیں ہیں ان سب کی ذمہ داری ہماری سیاسی نابلدی کا ہی شاخسانہ ہیں۔
بحیثیت سندھ کے شہری ہمارے اور بھی بہت سے قصور ہیں۔ سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے انتخابی منشور کو پڑھنے اور اس پر غور کرنے کی ہم نے کبھی زحمت ہی نہیں کی، اور یہ المیہ آج کا نہیں بلکہ قیام پاکستان کے فوراً بعد سے ہی ہم مطالعہ ترک کرکے زبانی کلامی باتوں پر ہی اکتفا کرنے لگ گئے۔
مزید پڑھیے: بلاول بھٹو زرداری کے نام ایک سِندھی کا کھلا خط
جوتیوں کے ڈبے کتابوں کے شیلف بن گئے اور جوتیاں ان دنوں ہمارے سروں پر برس رہی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا انتخابی نعرہ ’نیا پاکستان‘ بہت تنقید کی زد میں رہا لیکن جب تحقیق کرنے کے لیے چھوٹی سی زحمت کی تو ہمیں معلوم ہوا کہ بھیّا پیپلز پارٹی کا انتخابی منشور 2008ء کا نچوڑ ہی دراصل ’نیا پاکستان‘ کا کُل تھا، جس میں قائدِ اعظم اور قائدِ عوام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بہتر مستقبل کی نوید سنائی گئی اور ’نیا پاکستان‘ کے عنوان میں ہی انتخابی نعرہ لگایا کہ
علم روشنی، سب کو کام
روٹی، کپڑا اور مکان
مانگ رہا ہے ہر انسان
لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے لیکن میں کہتا ہوں کہ لوگ غلط بات کرتے ہیں۔ ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ پیپلز پارٹی نے منشور 2002ء اور 2008ء میں یہ وعدے کیے تھے کہ ہم ملک میں غربت ختم کردیں گے، نوجوانوں کو اتنی ملازمتیں دیں گے کہ ان کے پاس گلی کے نکڑ پر بیٹھ کر خوش گپوں کا وقت نہیں ہوگا، میڈیا آزادی سے جھوم اٹھے گا، لوکل گورنمنٹ فعال ہوجائے گی، کاشتکاروں اور کسانوں کے مسائل دور کردیئے جائیں، لیکن سچ بتائیے کہ کیا پیپلز پارٹی نے وقت کا تعین کیا تھا کہ یہ سارے کام وہ کب کرے گی؟ اگر نہیں تو پھر یہ شکایتیں کیسی؟
مجھے تو پیپلز پارٹی کے اعتماد کو دیکھ کر رشک آتا ہے۔ اس کے منشور میں سارے وعدے ہیں لیکن یہ کہیں نہیں لکھا کہ وہ یہ کام کرے گی کیسے؟ جیسے ترقی کے ہدف کیا ہوں گے؟ مسائل اور وسائل کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟ اقتصادی و معاشی ترقی کے اہداف کیا ہوں گے؟ ان کی تکمیل میں کتنا وقت درکار ہوگا؟ کتنی افرادی قوت لگے گی؟ خارجہ پالیسی کے مدارج کون کون سے ہوں گے؟ وغیرہ وغیرہ۔ منشور میں تمام سوالات کا ایک ہی جواب ملتا ہے ’ہم سب کردیں گے، ایک بار مسندِ اقتدار پر براجمان تو ہونے دیجیے‘۔
اب دیکھیے نا کہ پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے منشور 2018ء کے تحت گھر کے ہر ایک فرد کو سرکاری ملازمت دینے کا وعدہ کیا۔ یہ ہے بین السطور وعدہ، انہوں نے وعدے کی تکمیل سے متعلق کوئی وضاحت پیش نہیں کی۔ کچھ اسی طرح کے وعدے پیپلز پارٹی کی جانب سے منشور 2013ء اور 2008ء میں بھی پیش کیے گئے تھے لیکن لوگ اس پر غور کرنے کے بجائے حکومت ملنے کے بعد شور شروع کردیں گے کہ نوکری دینے کا وعدہ کیا گیا تھا جو پورا نہیں کیا گیا۔ اب آپ خود ہی بتائیے کہ اس میں غلطی لوگوں کی ہے جو منشور کو ٹھیک سے سمجھ ہی نہیں سکے یا مخلص زرداری صاحب کی جنہوں نے صرف ایک وعدہ کیا ہے، وقت تھوڑی بتایا ہے۔
مزید پڑھیے: عمران و زرداری کو کوئی تو سمجھائے کہ نوکری من و سلویٰ نہیں!
پیپلز پارٹی نے منشور 2008 میں بھی اعلان کیا تھا کہ غریبوں کے لیے ایک لاکھ گھر تعمیر کیے جائیں گے اور اس کام کے لیے یہ پارٹی مخلص بھی تھی، لیکن بے چاری ایک اکیلی پارٹی کیا کچھ کرے؟ اس کو اور بھی تو دیگر ’اہم‘ کام ہوتے ہیں۔ اب یہ پارٹی اگر وہ ’اہم‘ کام چھوڑ کر غریبوں کے لیے گھر بنانا شروع کردے تو کیا یہ کوئی عقلمندی کا کام ہوگا؟ اب غریبوں کو کون سمجھائے کہ یہ حکومت بار بار تھوڑی ملتی ہے، بس جب ملے اور جیسے بھی ملے، اپنے ’اہم‘ کام کو پہلے کرنا چاہیے تاکہ جب اقتدار ہاتھ میں نہ ہو تو اپنے پیٹ کا بندوبست آسانی سے ہوجایا کرے۔
اور اس بار تو پیپلز پارٹی کو ایک مرتبہ پھر نوجوان اور نئی قیادت مل گئی ہے، جو حکومت ملنے کے بعد نئے جوش اور نئے ولولے سے یہ ’اہم‘ کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ لہٰذا اگر سندھ اور پاکستان کو ترقی کرتے دیکھنا چاہتے ہیں تو ایک بار پھر غور کیجیے، اور ماضی میں کی گئی غلطی سے اجتناب کیجیے، تاکہ سندھ بھی آگے بڑھے اور پاکستان بھی خوب ترقی کرے۔
وقاص علی ڈان کے سابق اسٹاف ممبر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔