لکھاری فری لانس کالم نگار ہیں۔
پی ٹی آئی کے پنجاب میں مسلم لیگ ن کے سب سے بڑے حریف کے طور پر ابھرنے سے لے کر کچھ مبصرین نے باقاعدگی سے ووٹروں کے اندر بڑھتی شدید قطبی تفریق کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ثبوت کے طور پر مبصرین ان جماعتوں کے حامیوں کی جانب سے انتہائی جانبدارانہ شناختوں (آف لائن اور آن لائن دنیا دونوں میں) کے اپنائے جانے کو پیش کرتے ہیں جن کی وجہ سے سیاست کے کسی بھی معاملے پر کوئی بھی بحث انتہائی تھکا دینے والا بے نتیجہ کھیل بن جاتی ہے۔
حالیہ مہینوں میں اب جبکہ ہم انتخابات کی جانب بڑھتے جا رہے ہیں تو یہ مباحث نہ صرف مقدار میں بڑھ چکے ہیں، بلکہ ان میں بغض و عناد کا پہلو بھی بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے آن لائن یا آف لائن کوئی بھی سماجی میل جول ناقابلِ برداشت بن جاتا ہے۔
ایسا نہیں کہ پاکستان میں اتنی گہری سیاسی قطبی تفریق پہلی بار آئی ہے۔ 1990 کی دہائی ہر اعتبار سے تنازعات سے بھرپور تھی جس میں نہ صرف مقتدر حلقوں میں آپسی اختلافات تھے، بلکہ پارٹی کی بنیاد پر تنازعات بھی پوری دہائی تک چلتے رہے۔ مگر سب سے زیادہ مشہور شاید 1960 اور 1970 کی دہائیاں تھیں جو سیاسی قطبیت میں سب سے بلند تھیں، جس میں نظریاتی شناخت (پارٹی شناخت سے زیادہ) ہر سماجی پہلو پر چھائی نظر آتی، گھروں کے اندر سے لے کر تعلیمی اداروں میں طلباء یونینز تک، اور کام کی جگہوں پر مزدور یونینز سے لے کر سیاسی اکھاڑے میں موجود نظریاتی بنیادوں پر کام کر رہی سیاسی جماعتوں تک۔
پڑھیے: دائیں سے درمیان تک: مسلم لیگ ن کا نظریاتی سفر
آج یہ فیشن بن چکا ہے کہ ان دو دہائیوں کے سیاسی منظرنامے کو اس وقت سے اب تک کے عالمی تناظر کے ساتھ موازنہ کر کے قدیم ورثہ یا بس ایک ناقابلِ فہم رویہ قرار دے دیا جائے۔ مگر 1990 اور اوائلِ 2000 کی بظاہر بعد از نظریاتی دہائیوں کے مقابلے میں گزشتہ ایک دہائی سے ہم مزید باوثوق نظریاتی سیاست دیکھ رہے ہیں جو کہ اکثریتی طور پر دائیں بازو کی ہے مگر اس میں کبھی کبھی ایک ترقی پسند پہلو بھی نظر آتا ہے۔
اس کا سب سے واضح مظہر دنیا کے کئی حصوں میں سخت گیر اور مطلق العنان شخصیات کی عوامی مقبولیت ہے، مگر جس چیز پر کم توجہ دی جاتی ہے وہ مقامی ترقی پسند سرگرمیاں ہیں جن کے علمبردار ڈیموکریٹک سوشلسٹس آف امریکا یا برطانیہ میں مومینٹم تنظیم، یا مغربی یورپ میں اسی طرح کی دوسری تنظیمیں شامل ہیں۔
جیسے کہ پارٹی کی بنیادوں پر نظریاتی شناخت کی ترقی یافتہ جمہوریتوں میں طویل تاریخ ہوتی ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ حقیقت میں امریکا اور برطانیہ میں ہونے والی زیادہ تر تحقیق اب اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ (کلاسیکی سماجی متغیرات مثلاً طبقہ، صنف، یا نسل) کے بجائے اب پارٹی شناخت کسی شخص کے متفرق عوامی مسائل پر نکتہ نظر کا سب سے بہترین اشاریہ ہے۔
ویسے تو ہم اس چیز کے پاکستان میں معمول بننے سے ابھی کافی دور ہیں، مگر پارٹی کے ساتھ گہری شناخت شاید آبادی کے کچھ حصوں کے لیے ابھی سے ہی ایک حقیقی اشاریہ بن چکی ہے۔ لوگ اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت یا رہنما کے مؤقف تبدیل کرنے سے فوراً اپنا مؤقف تبدیل کر لیتے ہیں اور پھر اس نئے مؤقف کے حق میں بے جگری کے ساتھ لڑتے ہیں۔
وہ کئی لوگ جو حلف نامے میں ختمِ نبوت سے متعلق ترمیم کے پورے معاملے کے بعد مذہب کو سیاست سے جدا کرنے کے حامی تھے، اب وہ عمران خان کے مزار پر جانے کے بعد ان کے وزیرِ اعظم بننے کی اہلیت پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ نہایت جوش و جذبے کے ساتھ سیاست میں جاگیرداری اور دیہی جبر و استبداد کے خلاف بولتے تھے، اب وہ انتخابی سیاست میں ان کی ضرورت کے لیے نت نئی دلیلیں پیش کر رہے ہیں۔
اگر یہ جانبداری پوری طور پر نہیں تو اس کے کم از کم ایک حصے کی بنیاد اس حقیقت میں موجود ہے کہ ہمارے پاس سیاست سب سے زیادہ پسندیدہ اور غالب موضوعات میں سے ہے۔ چوں کہ ہمارے پاس سال میں دو ماہ سے زیادہ پاکستان سپر لیگ نہیں ہوتی، اور چوں کہ ہماری توجہ حاصل کرنے کے لیے یہاں اور کوئی ثقافتی سرگرمیاں نہیں ہوتیں، اس لیے ہمارے پاس شناخت کے بحران یا جانبداری دکھانے کی خواہش کی تکمیل کے لیے صرف سیاسی مباحث ہی رہ جاتے ہیں۔
مزید پڑھیے: پی ٹی آئی کی شکست کی پانچ وجوہات
بظاہر دیکھیں تو جانبداری ضروری طور پر کوئی غلط چیز نہیں ہے۔ پارٹیوں کے ووٹ بینکس میں اضافہ ایک ایسے سیاسی نظام کے لیے بلاشبہ مثبت چیز ہے جو ایک عرصے تک افراد اور ان کے گھرانوں پر منحصر رہا ہے۔ اس کی وجہ سے پارٹیوں پر بھی دباؤ بڑھتا ہے کہ جب ان کے منتخب کنندگان آواز رکھنے لگیں اور قابلِ شناخت ہوجائیں، تو ان کی ضروریات کا خیال رکھیں۔
مگر برطانیہ میں لیبر پارٹی اور کنزرویٹیو پارٹی کے حامیوں کے مابین یا پھر امریکا میں ڈیموکریٹس اور ری پبلیکنز کے مابین نظر آنے والی تفریق انگیز جانبداری کے مقابلے میں جانبداری کی پاکستانی برانڈ (خصوصی طور پر مسلم لیگ ن بمقابلہ پی ٹی آئی) تھوڑا سا پریشان کن معاملہ ہے کیوں کہ ان دونوں میں نسبتاً کوئی نظریاتی یا سوچ کا فرق نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دونوں سیاسی جماعتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں کئی مسائل، بشمول ترقیاتی ترجیحات اور اختیارات کی نیچے تک منتقلی پر اختلافات رکھتی ہیں۔ مگر دونوں کے منشور پر حاوی فریم ورک کی ترجیح نشونما ہے جس میں سماجی تحفظ کے منصوبوں کا ڈیزائن بھی ایک دوسرے کا عکس ہے۔ اس لیے ایک دوسرے کی شدید ترین مخالف جانبداری درحقیقت کسی اور چیز کے بجائے پارٹی رہنماؤں کی ذاتی کشش کی وجہ سے ہے۔
اگر ان دونوں سیاسی جماعتوں کی بنیاد میں کوئی ٹھوس فرق ہوتے، تو ہم دیکھتے کہ پی ٹی آئی کے حامی پارٹی کی انتخابی حکمتِ عملیوں اور شخصیات کے انتخاب پر سوالات اٹھاتے کہ جن کی وجہ سے اس کا 'منفرد سیاسی جماعت' ہونے کا دعویٰ کمزور ہوتا جا رہا ہے اور یہی دفتر میں اس کی کارکردگی متعین کریں گے۔
اسی طرح مسلم لیگ ن کے حامی اپنی قیادت کے پیش کیے گئے سول بالادستی کے بیانیے پر سوال اٹھاتے کہ 5 سال تک جگہ خالی کیوں چھوڑی گئی، ڈیلیں کیوں مانگی گئیں، یا دفتر میں ہوتے ہوئے ان تضادات کو کیوں نظرانداز رکھا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ نظریاتی خلا میں شہروں پر توجہ رکھنے والی اور اشرافیہ کے ہاتھوں میں موجود دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان غیر کاسمیٹک فرق ہمیشہ معمولی سا رہے گا۔ لوگ کرپشن پر پی ٹی آئی کی توجہ اور مسلم لیگ ن کی انفراسٹرکچر پر توجہ کے بارے میں نا ختم ہونے والی بحثیں کر سکتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم استعداد اور مالیات کے حوالے سے موجودہ وسائل کو دیکھیں تو دفتر میں آنے کے بعد دونوں سیاسی جماعتوں کی معاشی اور سماجی پالیسیوں میں زیادہ فرق نہیں ہوگا۔
جانیے: خان صاحب ماضی کے وزرائے اعظم کا حال دیکھ کر سبق حاصل کیجیے
باقی اس بات کا اطمینان رکھیں کہ اب سے کچھ ہفتے بعد جب پی ٹی آئی حکومت میں اپنا قدم رکھے گی، تو یہ اپنے ابتدائی چند سال ویسے ہی گزارے گی جیسا کہ پاکستانی تاریخ میں ہر حکومت نے گزارا ہے، یعنی ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے نمٹنا، جس کی وجہ سے عمومی طور پر مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے اور معاشی ترقی میں کمی ہوتی ہے۔
اب جبکہ ہم چند ہفتوں میں انتخابات کی جانب جا رہے ہیں تو ممکنہ طور پر یہ اچھا رہے گا کہ ہم جذبات کو ایک طرف رکھ کر سوچیں کہ دونوں جماعتوں کے درمیان کیا یکسانیت ہے، تاکہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ جس زہریلی فضا میں پھنسے ہوئے ہیں، اس کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے۔
انگلش میں پڑھیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 16 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔