پاکستان

فیس بک نے ملی مسلم لیگ اور اللہ اکبر تحریک کے متعدد اکاؤنٹس غیر فعال کردیے

سماجی رابطے کی ویب سائٹ نے ہمارے اکاؤنٹس بند کرنے سے متعلق کوئی وجہ نہیں بتائی، انچارج ایم ایم ایل میڈیا سیل

کراچی: سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک نے غیر رجسٹرڈ سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ (ایم ایم ایل) اور اس کی حمایت کرنے والی رجسٹر سیاسی جماعت اللہ اکبر تحریک سے منسلک متعدد فیس بک اکاؤنٹس غیر فعال کردیے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق فیس بک کی جانب سے پاکستان میں انتخابات میں مثبت رجحان برقرار رکھنے کے لیے ملی مسلم لیگ کے متعدد فیس بک اکاؤنٹس کو غیر فعال کیا گیا۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے ملی مسلم لیگ کے سوشل میڈیا انچارج طحٰہ منیب نے بتایا کہ ایم ایم ایل، اللہ اکبر تحریک کے پلیٹ فارم سے لڑنے والے 260 امیدواروں کی حمایت کر رہی ہے اور ہمارے ایک ہزار سے زائد کارکنان سوشل میڈیا پر انتخابی مہم چلانے میں مصروف تھے لیکن 4 سے 5 دن میں فیس نے بغیر کسی وجہ کے ہمارے امیدواروں، حمایت یافتہ افراد، کارکنوں کے اکاؤنٹس بند اور غیر فعال کردیے۔

واضح رہے کہ ملی مسلم لیگ، کالعدم جماعت الدعوۃ کا سیاسی گروپ ہے اور اسی وجہ سے وزارت داخلہ کی تجویز پر الیکشن کمیشن نے اس جماعت کو الیکشن میں حصہ لینے کے لیے رجسٹر نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن کا معاملہ، ’وزارت داخلہ حتمی رپورٹ پیش کرنے میں ناکام‘

رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے ملی مسلم لیگ انتخابات میں حصہ نہیں لے رہی تھی، جس کے باعث ایم ایم ایل کے حمایت یافتہ امیدوار اللہ اکبر تحریک کے پلیٹ فارم سے عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

ایم ایم ایل کے سوشل میڈیا انچارج کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے کارکنوں کی جانب سے متعدد مرتبہ اکاؤنٹس دوبارہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن انہیں بھی فیس بک کی جانب سے غیر فعال کردیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے فیس بک کی ای مارکیٹنگ کے ذریعے ہزاروں روپے انتخابی مہم میں خرچ کیے لیکن اس کے باوجود بغیر کسی اطلاع کے ہمارے اکاؤنٹس بند کردیے گئے‘۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ ہوسکتا ہے ہمارے یہ اکاؤنٹس بھارت کے کہنے پر بند اور غیر فعال کیے گئے ہوں کیونکہ فیس بک پر بھارت کا اثر و رسوخ ہے۔

طحٰہ منیب کا کہنا تھا کہ کچھ ماہ قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھی کشمیر سے متعلق ہمارے اکاؤنٹ کو مبینہ طور پر ’بھارتی قوانین کی خلاف ورزی‘ پر بند کردیا گیا تھا، یہ اکاؤنٹ پاکستان میں بنایا گیا تھا اور یہاں سے ہی اسے چلایا جارہا تھا جبکہ اس پر بھارتی قوانین کا اطلاق بھی نہیں ہوتا۔

انہوں نے اس معاملے پر حکومت کی جانب سے کسی قسم کا کردار ادا نہ کرنے پر تحفظات کا اظہار بھی کیا۔

ایک سوال کے جواب میں طحہٰ منیب نے بتایا کہ ملی مسلم لیگ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے رجسٹریشن نہ دینے کے فیصلے کے خلاف ایک مرتبہ پھر اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس کی سماعت جلد متوقع ہے۔

دوسری جانب اس معاملے پر ایم ایم ایل کے ترجمان تابش قیوم نے ڈان کو تصدیق کی کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ نے بغیر کسی وجہ کے ایم ایم ایل، ان کے امیدوار اور کارکنان کے اکاؤنٹس غیر فعال اور ختم کردیے۔

ان کا کہنا تھا کہ فیس بک نے نہ صرف ایم ایم ایل بلکہ عام اتنخابات میں حصہ لینے والی اللہ اکبر تحریک کے کچھ اکاؤنٹس بھی غیر فعال کیے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق تابش قیوم نے فیس بک کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’آزادی اظہار رائے کا حق ہر انسان اور سیاسی جماعت کا بنیادی حق ہے اور الیکشن کے موقع پر ہر سیاسی جماعت انتخابی مہم کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کے وقت میں ایم ایم ایل کے امیدوار اور ورکرز کے اکاؤنٹس معطل کرنا نا انصافی ہے۔

تابش قیوم کا کہنا تھا کہ فیس بک انتظامیہ نے انتخابات 2018 میں سیاسی جماعتوں اور ان کے امیدواروں کے اکاؤنٹس کے خاص تحفظ کی ضمانت دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ’ انتخابات میں اپنا پیغام پہنچانے کے لیے تمام سیاسی جماعتیں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا استعمال کرتی ہیں اور اپنے ووٹرز کو پوسٹرز اور ویڈیو پیغام کے ذریعے متوجہ کرتی ہیں لیکن ایم ایم ایل سے بغیر کسی وجہ کہ یہ سہولت چھین لی گئی‘۔

یاد رہے کہ اس تمام صورتحال پر ڈان نے اللہ اکبر تحریک کے چیئرمین احسن باری اور میڈیا سیکریٹری چوہدری طاہر اسلم سے متعدد مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی، تاکہ ان کا موقف بھی حاصل کیا جاسکے تاہم ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

واضح رہے کہ کچھ ماہ قبل فیس بک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) مارک زکربرگ نے اس بات پر روشنی ڈالی تھی کہ ان کی ترجیح ہوگی کہ ان کی سوشل ویب سائٹ مثبت بات چیت کی حمایت کرے اور پاکستان، بھارت، برازیل، میکسکو اور دیگر ممالک میں ہونے والے انتخابات میں کی جانے والی مبینہ مداخلت کو روکا جاسکے۔

اس سے قبل فیس بک انتظامیہ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے بھی رابطہ کیا تھا اور انہیں 25 جولائی کو پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے ایک خاص ٹریںڈ بنانے کی پیش کش کی تھی۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی پیش کش کی گئی تھی کہ سوشل میڈیا ویب سائٹ مختلف سیاسی جماعتوں کے جعلی اکاؤنٹس کی نشاندہی کرکے انہیں ختم کردے۔

تاہم فیس بک کی پش کش کے جواب میں الیکشن کمیشن نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ ان کا کوئی آفیشل سوشل میڈیا پیج نہیں، تاہم وہ دیگر اراکین اور سینئر حکام سے مشاورت کے بعد فیس بک انتظامیہ کو جواب دیں گے۔

ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن کا معاملہ

8 اگست 2017 کو کالعدم جماعت الدعوۃ نے نئی سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ کے نام سے سیاسی میدان میں داخل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے جماعت الدعوۃ سے منسلک رہنے والے سیف اللہ خالد کو اس پارٹی کا پہلا صدر منتخب کیا تھا۔

11 اکتوبر 2017 کو الیکشن کمیشن نے نئی سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن کی درخواست مسترد کردی تھی، یہ فیصلہ وزارت داخلہ کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے جواب کے بعد کیا گیا تھا، جس میں انہوں نے ملی مسلم لیگ پر پابندی لگانے کی تجویز دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن پر پابندی کےخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ

یہ بھی یاد رہے کہ ملی مسلم لیگ کے کالعدم جماعت الدعوۃ سے منسلک ہونے پر الیکشن کمیشن نے رجسٹریشن کی درخواست منسوخ کی تھی، الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ ایم ایم ایل نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

8 مارچ 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن کی درخواست مسترد کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا جبکہ الیکشن کمیشن کو ملی مسلم لیگ کی درخواست کا ازسر نو جائزہ لینے کی ہدایت کی تھی۔

بعد ازاں 13 جون 2018 کو الیکشن کمیشن نے ملی مسلم لیگ (ایم ایم ایل) کی رجسٹریشن سے متعلق درخواست ایک مرتبہ پھر مسترد کردی تھی۔

جس کے بعد ملی مسلم لیگ نے وزارت داخلہ کی الیکشن کمیشن میں پیش کردہ رپورٹ کو جھوٹ کا پلندہ قراردیتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود پارٹی کی رجسٹریشن نہ کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔

بعد ازاں 15 جون 2018 کو الیکشن کمیشن کی جانب سے ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد ایم ایم ایل نے ’اللہ‘ اکبر تحریک‘ (اے اے ٹی) کے پلیٹ فارم سے الیکشن 2018 لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔