لکھاری صحافی ہیں۔
فیصلہ اتنا حیران کن نہیں تھا جتنا کہ لندن سے میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کی واپسی کا اعلان تھا۔
ایسا لگتا ہے کہ زیادہ لوگوں کو ان کی واپسی کے بارے میں عدم یقینی تھی، بہ نسبت اس تعداد کے جسے لگتا تھا کہ انہیں سزا نہیں ہوگی۔
یہ اس لیے ہے کہ نواز شریف کا ماضی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ فوجی بغاوت کے بعد ان کی جانب سے سعودی عرب کی فلائٹ پکڑ لینے کی وجہ سے زیادہ تر لوگ اس دفعہ بھی قائل تھے کہ پارٹی سربراہ بھاگ جائیں گے۔
اس پریشانی میں ان لوگوں کی بھی آوازیں شامل تھیں جو نواز شریف کو دور رکھنا چاہتے تھے تاکہ مسلم لیگ (ن) کی تباہی میں اضافہ ہو، یا پھر ان کی ایماء پر جنہیں شریف خاندان کی اس شاخ کے واپس نہ آنے پر تخت ملنے والا ہے۔
مگر کچھ غور و خوض کے بعد واپسی کی فلائٹس کا اعلان کردیا گیا ہے۔ واضح طور پر 2018ء، 2000ء سے مختلف ہے۔ فوجی آمریت میں جیل جانا مختلف ہے، سویلین سیٹ اپ میں قید ہونا الگ۔ شریف خاندان کو عدلیہ کتنی بھی بری محسوس ہو رہی ہو، مگر اس کا موازنہ اس انصاف سے نہیں کیا جاسکتا جو کسی جنرل کے اقتدار میں ہونے پر ہوتا ہے۔
شاید عمر کے ساتھ سیاسی تجربہ اور دور اندیشی بھی آ چکی ہے۔ جلاوطنی شاید آرام دہ ہو، مگر پیچھے رہ جانے والے پھر ساتھ نہیں نبھاتے۔ اگر نواز شریف اور مریم نواز دور رہے ہوتے، تو پارٹی (مزید) تقسیم کا شکار ہوجاتی۔ مسلم لیگ (ن) چاہے 25 جولائی کو الیکشن میں چاہے جتنی بھی اچھی (یا بری) کارکردگی دکھائے، جیتنے والے کچھ اشخاص پھر بھی الگ ہونے کا راستہ ڈھونڈ ہی لیں گے۔ کیا آپ کو 2008ء سے 2013ء تک پنجاب اسمبلی میں (ق) لیگ کا فارورڈ بلاک یاد نہیں ہے؟
نواز شریف کو شاید وزیرِ اعظم بننے میں دلچسپی نہ ہو لیکن وہ اپنی بیٹی کی وراثت میں عدم دلچسپی بالکل بھی نہیں رکھتے۔
مگر آگے کا راستہ بھی آسان نہیں ہے۔
عدالتوں میں قانونی جنگ لڑی جائے گی، جو کہ شاید آسان ترین جنگ ہے۔ کیوں کہ پاکستان میں قانون عموماً سیاست کی پیروی کرتا ہے۔ سیاسی میدان میں جو بھی کامیاب ہو، وہ قانونی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ ورنہ آخر کیوں آصف علی زرداری تمام کرپشن مقدمات میں بری ہوجائیں گے جو ان کے خلاف دہائیوں پہلے قائم کیے گئے تھے۔
پڑھیے: نواز شریف کے لیے کوئی بھی فیصلہ آسان نہیں
مختصر مدتی سیاسی جنگ کا مطلب ایسی پِچ پر الیکشن جیتنا (یا جتنا ہوسکے اتنا جیتنا ہے) جو کہ بہت ہی ناہموار ہے۔ مگر پھر بھی لندن سے واپسی مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی مدد کرے گی جو کہ سخت جدوجہد کر رہے ہیں، بھلے ہی کہا جا رہا ہے کہ وسطی پنجاب میں پارٹی کی حمایت برقرار ہے۔
خوف یہ ہے کہ پارٹی کو نشستوں کی مطلوبہ تعداد جیتنے کے باوجود شاید حکومت نہ بنانے دی جائے؛ شاید اسی لیے کچھ نونی یہ دلیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پارٹی حکومت بنانے کی کوشش نہیں کرے گی۔ کیا وہ بڑے اور بُرے بھیڑیوں کو دور رکھنا چاہتے ہیں؟ کھیل سے خود کو نکال ہی دیں تاکہ پارٹی پر مزید حملے بند ہوجائیں؟ تاکہ لیگ کے کامیاب امیدواروں سے پیٹریاٹ گروپ بنانے کے منصوبے ایک طرف کر دیے جائیں؟ اگر وہ واقعی اپوزیشن میں بیٹھنے کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو قائدِ حزبِ اختلاف کی نشست پر چوہدری نثار علی خان کے نہ ہونے پر حکومت کو بور کر کرکے کون مارے گا؟
مگر کیا پارٹی پنجاب میں شکست کے لیے تیار ہے؟ یا پھر یہ واقعی سمجھتی ہے کہ لاہور پر انہی کی حکمرانی ہوگی؟ کچھ وقت پہلے تک بھی پارٹی اور کچھ مبصرین کا خیال تھا کہ اگر اسلام آباد ان سے چھن بھی گیا، تب بھی تختِ لاہور (ن) لیگ کا ہی ہوگا۔
الیکشن کے جھنجھٹ کے علاوہ نیب بھی ہے، جو کہ پہلے ہی 'شہباز اسپیڈ' (یا اسے 'پنجاب اسپیڈ' کہیں؟) پر کام رہا ہے۔ ایسا نہیں لگتا کہ بیورو 25 جولائی کے بعد اپنی رفتار کم کر دے گا۔
ٹرین کا آگے کا سفر جھٹکوں سے بھرپور ہے مگر نواز شریف اور ان کی بیٹی راستہ بدلنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اور طویل مدت میں ان کے لیے مزید چیلنجز منتظر ہوں گے۔
پچھلے دور میں ان کو کسی قسم کے اندرونی خطرات لاحق نہیں تھے۔ اب شریف سینیئر نے اپنی بیٹی کو سیاسی وارث کے طور پر چنا ہے مگر دوسروں کی قیمت پر۔ مریم نے مستقبل کے سیاسی وارث کے طور پر حمزہ شہباز کی جگہ لے لی ہے مگر شاید وہ ساری زندگی اپنے والد کی طرح 'نمبر دو' بنے رہنے پر تیار نہیں ہوں گے۔ یہ بھی ایک اور وجہ ہے کہ ان کا واپس آنا ضروری ہے، بالکل اسی طرح جس طرح 2000ء میں ملک سے باہر جانے میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔
پڑھیے: عدالتی کیموتھراپی حل نہیں، مگر ضروری ہے
پورے معاملے میں اس قدر عوامل شامل ہیں کہ ہم یہ یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ وراثت دوسری شاخ میں منتقل ہوجائے گی۔ یہ اس سے مختلف ہے جس کا سامنا بینظیر بھٹو کو تھا؛ وہ جنرل ضیاء کے ابتدائی سالوں میں (خاندان میں سے) واحد وارث تھیں؛ جب تک مرتضیٰ بھٹو واپس آئے تب تک انہوں نے پارٹی پر اپنا کنٹرول قائم کرلیا تھا۔
طویل مدت میں مریم کو اس طرح جدوجہد نہیں کرنی پڑے گی جیسے کہ بینظیر بھٹو نے کی مگر ان کے سامنے اپنے الگ چیلنجز ہیں۔ کیوں کہ مسلم لیگ (ن) شاید نواز شریف کی پارٹی ہو، مگر یہ خدمات کی فراہمی کے اس ماڈل پر قائم ہے جس کی تشکیل دونوں بھائیوں نے کی ہے۔ نون کے زیادہ تر ووٹر آج بھی شریفوں کے 'کام' پر بھروسہ کرتے ہیں، نا کہ ان کی 'ذہنیت' یا نواز شریف اور مریم نواز کے بیانات پر۔
اگر کسی کو اس بات پر کوئی شک ہے کہ ووٹروں کو کیا چیز متوجہ کرتی ہے تو آپ بس پارٹی کے ٹی وی اشتہارات دیکھیں۔ 'ووٹ کو عزت دو' کے نعرے کے باوجود پیغام بنیادی طور پر ایسی پارٹی کے بارے میں ہے جس نے اپنے وعدے پورے کیے ہیں۔
اگر مریم اپنے والد، جن کی شہرت کی وہ دعویدار ہیں، سے پارٹی کی باگ ڈور لے بھی لیتی ہیں، تو بھی انہیں ڈیلیور کرنا ہوگا بالکل اسی طرح جس طرح ان کے والد اور ان کے چچا کی جوڑی نے کیا ہے۔ نواز شریف قومی سطح پر جزوی طور پر ایک بزرگ سیاستدان کا کردار اس لیے ادا کر سکے کیوں کہ شہباز شریف نے پنجاب پر آہنی ہاتھ کے ساتھ بیوروکریٹس کے ذریعے حکومت کی، سیاسی مخالفین کو نچوڑ دیا، اور سیاستدانوں پر کنٹرول قائم رکھا۔ صرف پنجاب کو زیرِ کنٹرول رکھ کر ہی بڑے شریف قومی سیاست پر توجہ دے سکے۔
مریم کو ان دونوں محاذوں پر ڈیلیور کرنا ہوگا جو کہ ایک سخت چیلنج ہے۔ بینظیر بھٹو کی پاکستانی سیاست میں تمام تر خدمات کے علاوہ ان کا ورثہ پنجاب سے پارٹی کی پسپائی کی ابتداء بھی ہے، جو کہ کبھی پی پی پی کا اتنا ہی مضبوط گڑھ تھا جتنا کہ سندھ ہے۔
مسلم لیگ (ن) نے ووٹروں کو خدمات کی فراہمی کے ذریعے پنجاب پی پی پی سے چھین لیا۔ ہو سکتا ہے کہ ووٹر کو ایک دفعہ پھر لبھا لیا جائے۔
انگلش میں پڑھیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 10 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔