کھیل

ورلڈ کپ: چین میں اب تک ساڑھے4 ارب ڈالر کا جوا کھیلا جاچکا ہے

فیفا ورلڈ کپ 2018 میں اب تک بیٹنگ پر خرچ کی گئی رقم 2014 ورلڈ کپ میں چین میں بیٹنگ پر خرچ کی گئی رقم سے دگنی ہے۔

شنگھائی: چین کی ٹیم فیفا ورلڈ کپ 2018 کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی لیکن اس کے باوجود دنیا بھر کے دیگر ملکوں کی طرح چینی کے عوام بھی کھیلوں کے سب سے بڑے عالمی مقابلوں کے بخار میں مبتلا ہیں۔

چین میں لوگوں کے فٹبال کے جنون میں مبتلا ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی کپ کے 3 ہفتے گزرنے کے بعد اب تک بیٹنگ پر اتنی رقم خرچ کی جا چکی ہے جو 2014 ورلڈ کپ میں چین میں بیٹنگ پر خرچ کی گئی رقم سے دگنی ہے۔

روس میں جاری عالمی کپ میں ارجنٹائن اور فرانس کے درمیان کھیلے گئے ایونٹ کے پہلے ناک آؤٹ میچ سے قبل چین میں لاٹری سٹیزن کے نام سے مشہور پنٹرز بیٹنگ کے لیے طویل قطاروں میں کھڑے نظر آئے۔

55 سالہ گاؤ لیوشن ارجنٹائن پر پہلے ہی رقم لگا کر ہار چکے تھے اور اس لیے پری کوارٹر فائنل مرحلے میں دگنی رقم لگائی تاکہ اس کا نقصان بھی پورا ہوسکے مگر ٹیم فرانس کے ہاتھوں شکست کا شکار ہوکر میگا ایونٹ سے باہر ہوگئی۔

گاؤ لیوشن نے مجموعی طور پر 1ہزار یوآن(150ڈالر) ہارے لیکن یہ تو کچھ بھی نہیں بلکہ کچھ لوگوں نے اس کھیل میں اپنا سب کچھ گنوا دیا جبکہ کچھ پر قسمت کی دیوی ایسی مہربان ہوئی کہ وہ راتوں رات کروڑ پتی بن گئے۔

آپ سب کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ برازیل میں ہونے والے 2014 فٹبال ورلڈ کپ میں پونے 2ارب ڈالر سے زائد(11.5ارب یوآن) کی بیٹنگ کی گئی تاہم یہ بات آپ کو مزید دنگ کر دے گی کہ یکم جولائی تک چین میں 2018 ورلڈ کپ پر 4.3ارب ڈالر(28.6ارب یوآن) کی رقم لگائی جا چکی ہے جو پاکستانی کی کرنسی میں 523ارب روپے بنتی ہے۔

چین میں جوا کھیلنا 'تکنیکی' طور پر غیرقانونی ہے لیکن ملک کی لاٹری کی دکانوں پر جوا کھیلنے کی کھلی اجازت ہے جس میں روز لاکھوں لوگوں کی قسمت بنتی یا بگڑتی ہے۔

ان لاٹری کی دکانوں کا اصل انتظام چین کی اسپورٹس انتظامیہ کے پاس ہے جو اس سے حاصل ہونے والی آمدنی اسٹیڈیمز کی تعمیر پر خرچ کرتی ہے تاکہ آنے والی نسل کو کھیل کی درست تربیت اور ٹریننگ دی جا سکے۔

ایک مقامی شخص ژیا نے اپنی آٹو ڈیلرشپ کی دکان کو بند کر کے 6سال قبل اس کی جگہ لاٹری کی دکان کھول لی اور ورلڈ کپ کے دوران ان کا کاروبار بے انتہا ترقی کر رہا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں افراد لاٹری کے ٹکٹ خرید رہے ہیں جس سے کاروبار میں عام دنوں کے مقابلے میں 10گنا اضافہ ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عوام اس سے قبل فٹبال میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے لیکن چین کی ٹیم کی ورلڈ کپ میں عدم موجودگی کے باوجود لوگوں کا جوش و خروش عروج پر پہنچا ہوا ہے۔

شنگھائی سے تعلق رکھنے والے 59سالہ شخص نے بتایا کہ ہر کوئی عالمی کپ دیکھ رہا ہے، وہ لوگ جو کبھی بیٹنگ نہیں کرتے تھے، وہ بھی آج کل قسمت آزماتے نظر آتے ہیں۔

ورلڈ کپ میں ہونے والے چند بڑے اور حیران کن اپ سیٹ کی وجہ سے دنیا بھر کی طرح چین میں بھی لوگوں کو بھاری رقوم کا نقصان اٹھانا پڑا جس میں دفاعی چیمپیئن جرمنی کی جنوبی کوریا کے ہاتھوں شکست اور پہلے ہی راؤنڈ سے اخراج شامل ہے۔

لی فینگ نامی ایک مقامی جواری نے اپنی فرائیڈ چکن کی دکان پر میچ دکھانے کے لیے بڑی اسکرین لگائی ہے اور انہوں نے بتایا کہ جرمنی کی جنوبی کوریا کے ہاتھوں شکست کے سبب وہ ایک ہزار یوآن بیٹنگ میں ہار گئے۔

انہوں نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی باہوش آدمی دفاعی چیمپیئن اور 4 مرتبہ چیمپیئن جرمنی کے مقابلے میں جنوبی کوریا پر شرط یا پیسہ نہیں لگاتا۔