فواد چوہدری نے اس امید کا اظہار کیا کہ حتمی فہرست کے اعلان تک تمام تنازعات حل کرلیے جائیں گے، اس ضمن میں جب ان کی توجہ بنی گالہ میں عمران کی رہائش گاہ کے باہر احتجاج کرنے والے کارکنان کی تعداد کی جانب دلائی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ پارٹی میں موجود ہر ایک فرد کو مطمئن کرنا ممکن نہیں۔
اس حوالے سے جب پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما اسحٰق خاکوانی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر شکایات سنجیدہ نوعیت کی نہیں تھیں، زیادہ تر افراد نے درخواستوں میں دعویٰ کیا کہ ٹکٹس، پارٹی سے طویل عرصے کی وابستگی کو دیکھتے ہوئے دیئے گئے تاہم کچھ درخواستوں میں سنجیدہ شکایات موجود تھیں جنہیں حل کرلیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: بنی گالا: پی ٹی آئی کارکنان کا آپس میں آزادانہ ڈنڈوں کا استعمال
اس ضمن میں اسحٰق خاکوانی، جو خود بھی جنوبی پنجاب میں وہاڑی سے قومی اسمبلی کی نشست کے امیدوار ہیں، کا مزید کہنا تھا کہ پارٹی کی جانب سے تجربہ کار اور غیر متنازع امیدواروں کے انتخاب کو ترجیح دی گئی، انہوں نے تسلیم کیا کہ کچھ سیاسی مفاد پرستوں کو اس سے فائدہ پہنچا لیکن اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’انتخابات الیکٹیبلز کو حاصل کرنے کا کھیل ہے‘۔
ایک سوال کے جواب میں گجرات میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے ساتھ متوقع سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ جو لوگ اس فیصلے کی مخالفت کررہے ہیں ان کی تعداد بہت کم ہے۔
ادھر پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے نگراں وزیراعظم کو ایک خط ارسال کیا گیا، جس میں انہوں نے سندھ اور پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے تعینات کردہ اعلیٰ عہدیداروں اور گورنر خیبر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا کی برطرفی کا مطالبہ کیا ہے۔
مزید پڑھیں: تحریک انصاف نے انتخابی امیدواروں کا اعلان کردیا
خط کی ایک نقل ذرائع ابلاغ کو بھی فراہم کی گئی جس میں وزیراعظم کی توجہ گورنر خیبر پختونخوا کی جانب مبذول کرائی گئی جن کے پاس تاحال سابق فاٹا کے مالی معاملات کا اختیار ہے اور وہ مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں۔
اس کے ساتھ انہوں نے خط میں اعلیٰ حکومتی عہدیداروں پر جانبدار ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ آزادانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں خطرہ ہیں اور اپنے اثر ورسوخ سے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔
عمران خان نے اپنے خط میں لکھا کہ سندھ اور پنجاب کی ضلعی انتظامیہ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے تعینات کردہ امیدوار پر مشتمل ہیں جو اس بات کی پوری کوشش کررہے ہیں کہ ان کے صوبے میں دیگر جماعتوں کو انتخابی میدان میں برابری کا موقع نہ ملے۔
انہوں نے خط میں مزید لکھا کہ نگراں حکومت بہت سست روی سے کام کررہی ہیں، لیکن آزادنہ اور شفاف انتخابات کے یقینی انعقاد کے لیے اس صورتحال کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
یہ خبر 20 جون 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔