اس موقع پر انہوں نے بینر اٹھائے احتجاج کرنے والے کارکنان پر بھی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ یہ پلے کارڈز کیوں اٹھائے ہوئے ہیں کیا یہاں کوئی جلسہ ہورہا ہے؟
احتجاج میں ملتان سے تعلق رکھنے والے کارکنان کا مطالبہ تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر سکندر بوسن کو ٹکٹ نہ دیا جائے۔
خیال رہے ابھی پی ٹی آئی نے باضابطہ طور پر سکند بوسن کو ٹکٹ دینے کا اعلان نہیں کیا تاہم اطلاعات ہیں کہ انہیں ٹکٹ دینے کی یقین دہانی کروادی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: انتخابات 2018: سیاسی جماعتیں ٹکٹ کی تقسیم پر اندرونی اختلافات کا شکار
احتجاج کرنے والے کارکنان میں سے ایک نے عمران خان کو یاد دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ آپ ہمیں کہا کرتے تھے کہ یہ کرپٹ لوگ ہیں جنہیں نمونہ عبرت بنایا جائے گا اور اب پارٹی اُنہی کرپٹ لوگوں کو ٹکٹ سے نواز رہی ہے۔
اس حوالے سے عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اپنے اعتراضات پر مبنی درخواست جمع کرائیں تا کہ وہ اس معاملے کا جائزہ لے سکیں۔
بنی گالہ کے باہر مظاہرین کا ایک گروہ جب عمران خان کی یقین دہانی پر منتشر ہوا تو دوسرا گروہ احتجاج کرنے پہنچ گیا جس کا تعلق گجرات سے تھا، مظاہرین پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کی متوقع سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی نے انتخابی ٹکٹ پر اختلافات دور کرنے کیلئے کمیٹی تشکیل دے دی
اس موقع پر کچھ مظاہرین کا عمران خان کے دفتر میں زبردستی گھسنے کی کوشش کرتے ہوئے پولیس اور سیکیورٹی اہلکاروں سے جھگڑا ہوگیا، جس پر چیئرمین پی ٹی آئی کو کارکنان کو سمجھانے بجھانے کے لیے دوبارہ باہر آنا پڑا۔
احتجاج کرنے والے کارکنان کو عمران خان نے جانے کے لیے کہا تا کہ وہ دیگر رہنماؤں کے ساتھ مل کر اپنا کام کر سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ بھی انسان ہیں اور ان سے بھی غلطی ہوسکتی ہے، لیکن کارکنان نے جانے سے انکار کردیا جس پر چیئرمین تحریک انصاف نے انہیں بتایا کہ وہ نظر ثانی کی درخواستوں پر اپنا فیصلہ منگل کو سنائیں گے۔
تاہم کارکنان بضد رہے کہ وہ حتمی فیصلہ سننے کے بعد ہی اپنے گھروں کو لوٹیں گے، آخری اطلاعات موصول ہونے تک ایک ہزار سے زائد افراد بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر دھرنا دے کر بیٹھے ہیں، ان ناراض کارکنان کا تعلق ملتان، منڈی بہاؤالدین، راولپنڈی، گجرات، پشاور، دیر اور سوات سے ہے۔
مزید پڑھیں: جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا معاہدے کے بعد پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان
اس سے قبل پارٹی کے عہدے داروں کی جانب سے ٹکٹوں کی تقسیم پر اختلاف کیے جانے کے سبب تحریک انصاف نے گزشتہ ہفتے مفاہمتی کمیٹی تشکیل دی تھی، تا کہ آئندہ عام انتخابات کے پیشِ نظر پارٹی میں موجود اختلافات دور کیے جاسکیں۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے لیے قومی اسمبلی کی 173 اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی 290 نسشتوں کے اعلان کے بعد اگلے ہی روز اعلیٰ قیادت کو میڈیا سٹریٹیجک ٹیم کے اجلاس میں کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ کرنا پڑا۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ٹکٹ کی تقسیم کے دوران حال ہی میں سیاسی وفاداری تبدیل کرکے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے والے الیکٹیبلز کو ترجیح دی گئی ہے جس پر کارکنان میں اشتعال پایا جاتا ہے، اس ضمن میں کئی اور مقامات پر بھی پی ٹی آئی کے کارکنان کی جانب سے احتجاج کرنے کی اطلاعات ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف 2013 کے عام انتخابات میں تیار نہیں تھی، عمران خان
اس سلسلے میں پی ٹی آئی کے سیکریٹری اطلاعات فواد چوہدری نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر 100 کے قریب درخواستیں موصول ہوئیں۔
انہوں نے امید ظاہر کی ان کی جماعت خواش اسلوبی سے یہ معاملہ حل کرلے گی جس کے بعد تمام کارکنان تندہی کے ساتھ انتخابی مہم میں حصہ لیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں فواد چوہدری نے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے لیے انتخابی میدان خالی چھوڑنے کے امکان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی ان کے خلاف پارٹی کے نائب صدر غلام سرور خان کو 4 میں سے 3 حلقوں کے لیے نامزد کرچکی ہے۔
فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان نے بارہا چوہدری نثار کو پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت دی لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
یہ خبر 19 جون 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی