ووٹ ڈالتے وقت ’ان میں سے کوئی بھی نہیں‘ کا آپشن اور پاکستان
پارلیمنٹ تحلیل ہوچکی ہے۔ نگراں حکومتیں متنازع انداز میں ہی سہی مگر آہستہ آہستہ اپنی جگہیں لیتی جا رہی ہیں۔ نگراں وزیرِاعظم نے وعدہ کیا ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے، بھلے ہی پچھلے ہفتے کئی محاذوں سے انتخابات ملتوی کروانے کی کوششیں ہوئیں۔ اب وقت ہے کہ ہم فیصلہ کریں کہ ووٹ کسے دینا ہے۔
کئی پاکستانیوں کے لیے اس کا جواب قومیت یا لسانی شناخت، یا خاندانی اور برادری کی وفاداریوں پر منحصر ہوتا ہے۔ مگر بڑھتی ہوئی شہری آبادی جو رشتے داریوں وغیرہ سے دور اور پُرعزم نوجوان ووٹر پر مشتمل ہے، وہ اپنے ووٹ کے صحیح حقدار کا تعین کرسکتے ہیں۔ ہم میں سے بڑی تعداد کو پارٹی منشور، خدمات کی فراہمی کے ریکارڈ، اقلیتوں کے حقوق، توانائی اور ماحول سمیت دیگر مسائل پر سیاستدانوں کے مؤقف تک رسائی حاصل ہے۔
اس تعداد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو سیاسی منظرنامے پر تحقیق کریں گے اور اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ تمام آپشنز ہی بُرے آپشنز ہیں۔ پاکستان نیشنل ہیومن ڈیویلپمنٹ کی نوجوانوں سے متعلق گزشتہ ماہ جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 90 فیصد نوجوان لڑکے اور 55 فیصد نوجوان لڑکیاں اگلے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر صرف 24 فیصد کا کہنا ہے کہ انہیں سیاسی رہنماؤں پر بھروسہ ہے۔
تو کیا ان اعداد و شمار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان کو اپنے بیلٹ پیپرز میں 'ان میں سے کوئی بھی نہیں' (None of the above) کا آپشن متعارف کروانا چاہیے؟
مزید پڑھیے: 2018ء کے انتخابات ’الیکٹیبلز‘ کے لیے مشکل ثابت کیوں ہوسکتے ہیں؟
ہم نے 2013ء میں فیصلہ کیا کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ مگر کئی ممالک، بشمول 2014ء سے ہندوستان ووٹروں کو احتجاجی ووٹ کا آپشن دیتا ہے۔ سوچ یہ ہے کہ یہ آپشن جمہوریت مضبوط کرتا ہے اور سیاست کے بارے میں منفی جذبات کو ختم کرتا ہے۔ یہ شہریوں کو جمہوری نظام میں شرکت کرنے، ووٹ ڈالنے اور آزادیءِ اظہار کی اجازت دیتا ہے مگر شہریوں کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ ان سیاستدانوں کو ووٹ دے کر اپنی اقدار پر سمجھوتہ کریں جو ان کے نزدیک 'ان فِٹ' ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ 'ان میں سے کوئی بھی نہیں' کی جتنی زیادہ تعداد ہوگی، سیاسی جماعتیں اتنا ہی زیادہ خدمات کی بہتر فراہمی پر توجہ دیں گی، اچھے امیدوار سامنے لائیں گی اور اپنے ووٹروں سے اچھے تعلقات قائم کریں گی۔
اصولی طور پر 'ان میں سے کوئی بھی نہیں' کا آپشن ایک زبردست خیال ہے۔ نظام کی حمایت کرتے ہوئے اسی اثنا میں ان لوگوں کو سزا دینے کا اور اچھا طریقہ کیا ہوسکتا ہے جو ملک کی خدمت نہیں کرتے؟ اگر ووٹر بڑی تعداد میں اس آپشن کا استعمال کریں تو ہمارے نمائندے شرم سے بچنے کے لیے اگلی دفعہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔
اس کے علاوہ پاکستان کے لوگوں کی سیاست میں عدم دلچسپی بھی اس سے کم ہوگی۔ ہاں ہمارے سیاست دان کرپٹ ہیں۔ ہاں وہ صنفی تعصب رکھتے ہیں۔ ہاں ان میں سے کئی نااہل ہیں۔ ہاں ان میں سے بمشکل ہی کسی نے اپنے حلقوں میں ترقی یا اپنے ووٹروں کے مفادات کا تحفظ کیا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے سیاستدانوں کی قابلیت کو جمہوری نظام سے جوڑ کر دیکھنے کی وجہ سے بہت نقصان اٹھا چکے ہیں۔ 'ان میں سے کوئی بھی نہیں' کا آپشن ان دونوں کو الگ الگ کرنے میں مدد کرے گا اور اس کی وجہ سے ووٹروں کے اندر ایسے نظام کے لیے عزت پیدا ہوگی جو آپ کی شنوائی میں مدد کرتا ہے اور آپ کو اپنے نمائندوں سے زیادہ بہتر کی توقع کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
ہماری آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور زیادہ تر ووٹر پہلی مرتبہ ووٹ دیں گے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم ابھی تک حکومتوں کے اپنی مدت پوری کرنے اور انتخابات کے معمول کے مطابق انعقاد کی عادت ڈال رہے ہیں۔ پاکستان میں جمہوری روایات کی پختگی میں ابھی بہت وقت لگے گا اور اس میں ووٹنگ کا کلچر بھی شامل ہے۔ لہٰذا 'ان میں سے کوئی بھی نہیں' کا آپشن ایسے وقتوں میں ہماری جمہوریت کی جانب منتقلی کو آسان بنائے گا جب عوام کے اندر سیاست دانوں کے خلاف عدم اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مگر افسوس کی بات ہے کہ یہ پاکستان میں کام نہیں کرے گا کیوں کہ یہاں سیاسی نظام میں خفیہ ہاتھوں کی مداخلت کے خدشات ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان پہلے ہی مار کھائے ہوئے ہیں۔ سیاسی نظام کمزور رکھنے کے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان کے جواز اور ان کی معتبریت کو ہر موڑ پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہم میں سے وہ لوگ جو ہمارے نمائندوں سے بہتر کی توقع رکھتے ہیں، انہیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ سیاستدان اپنا وجود برقرار رکھنے میں ہی اتنے مصروف رہتے ہیں کہ پالیسی سازی یا خدمات کی فراہمی کے لیے کم ہی وقت بچتا ہے۔
مگر ہمارے سیاستدان جتنا زیادہ دباؤ جھیلتے ہیں، اتنے ہی زیادہ وہ کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں اور ہمیں اتنا زیادہ ہی ان کی حمایت کرنی چاہیے، چاہے وہ کتنے ہی کرپٹ یا نااہل کیوں نہ ہوں، تاکہ جمہوریت چلتی رہے۔ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو 'ان میں سے کوئی بھی نہیں' کا آپشن صرف شہریوں کا احتجاجی ووٹ نہیں بلکہ یہ غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ الحاق اور پہلے سے ٹوٹ پھوٹ کے شکار سیاسی نظام پر ایک اور حملے کے مترادف ہوگا۔ یہ سوچنا نہایت آسان ہے کہ اگر 'ان میں سے کوئی بھی نہیں' کے ووٹ بڑی تعداد میں پڑتے ہیں تو خفیہ طاقتیں اسے آسانی سے جمہوری بساط لپیٹنے کے لیے استعمال کرسکتی ہیں، بجائے اس کے کہ ان ووٹوں کو نظام پر اعتماد کی علامت سمجھا جائے۔
اس کے علاوہ ہماری سرپرستانہ سیاست بھی 'ان میں سے کوئی بھی نہیں' کے آپشن سے متضاد ہے۔ آخر ہم کیوں گرمی میں قطار میں بلاوجہ کھڑے ہوں؟ پاکستانی ووٹر عملیت پسند نہیں ہیں۔ ٹیوب ویل، سڑک کی مرمت یا بریانی کی پلیٹ کے بدلے میں انگوٹھا لگا دیتے ہیں۔ ہماری سیاست کا بنیادی تصور ہی یہی ہے، یہاں ووٹ حق یا پھر آزادیِ اظہار نہیں، بلکہ ایک چھوٹا سا معاہدہ ہے۔
مزید پڑھیے: نئی حلقہ بندیاں متنازع کیوں ہیں؟
'ان میں سے کوئی بھی نہیں' کا آپشن ان حالات میں بہترین کام کرے گا جہاں جمہوریت کو خطرہ نہ ہو، بلکہ صرف اس کے معیار کو خطرہ ہو، جہاں ووٹنگ کے عمل کو مقدس سمجھا جائے۔
اور یہیں پر پاکستان کے سیاسی مستقبل کی اہم کڑی موجود ہے۔ ہمارا سیاسی نظام کیسے بالغ ہوگا اگر ہم 'ان میں سے کوئی بھی نہیں' جیسے جمہوریت کو مضبوط کرنے والے آپشن کا بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتے؟
یہ مضمون ڈان اخبار میں 4 جون 2018 کو شائع ہوا۔
لکھاری فری لانس صحافی ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس huma.yusuf@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔