لیڈز میں بدترین شکست کے باوجود سرفراز کو نوجوان ٹیم پر فخر
قومی ٹیم کے کپتان سرفراز احمد نے کہا ہے کہ ہیڈنگلے میں انگلینڈ کے خلاف اننگز اور 55رنز سے شکست کے باوجود انہیں اپنی نوجوان ٹیم کی کارکردگی پر فخر ہے۔
پاکستان نے انگلینڈ کو لارڈز میں ہونے والے پہلے ٹیسٹ میچ میں 9 وکٹوں سے شکست دے کر سیریز میں برتری حاصل کی تھی لیکن انگلینڈ نے پاکستان کی ناقص بیٹنگ کی بدولت سیریز میں شاندار انداز میں واپسی کرتے ہوئے تیسرے دن ہی پاکستان کو شکست دے کر سیریز 1-1 سے برابر کردی۔
اس شکست کے ساتھ ہی پاکستان نے انگلینڈ میں 22 سال بعد سیریز جیتنے کا نادر موقع گنوا دیا جہاں اس سے قبل قومی ٹیم نے 1996 میں وسیم اکرم اور وقار یونس کی باؤلنگ کی بدولت انگلینڈ کو شکست سے دوچار کیا تھا۔
لارڈز میں ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے والی انگلینڈ کی ٹیم کو 184 رنز پر آؤٹ کرنے کے باوجود لیڈز میں پاکستانی ٹیم کے کپتان نے ٹاس جیت کر خود بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔
ہیڈنگلے کی وکٹ ٹیسٹ کرکٹ کے لیے ایک بہترین وکٹ قرار دی جا سکتی ہے لیکن ابرآلود موسم نے وکٹ کو باؤلنگ کے لیے سازگار بناتے ہوئے بیٹنگ کو مشکل بنا دیا۔
پہلی اننگز میں ٹاپ آرڈر بلے بازوں کی ناکامی کے بعد لیگ اسپنر شاداب خان کی نصف سنچری کی بدولت پاکستان کی ٹیم کسی طرح 174 رنز کا مجموعی اسکور بورڈ پر سجانے میں کامیاب رہی۔
بدترین بیٹنگ کے بعد باؤلنگ بھی کچھ خاص کارکردگی نہ دکھا سکی لیکن ٹیم کی امیدوں پر اصل پانی اس وقت پھرا جب حسن علی نے صرف 4 کے انفرادی اسکور پر جوز بٹلر کا کیچ ڈرا کردیا اور یہی میچ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا اور بٹلر نے ناقابل شکست 80رنز کی اننگز کھیل کر انگلینڈ کا مجموعہ 363 تک پہنچا کر پہلی اننگز میں 189 رنز کی برتری دلائی۔
پاکستان کی بیٹنگ ایک مرتبہ ناکامی سے دوچار ہوئی اور بلے بازوں کی ناقص شاٹ سلیکشن کے سبب پوری ٹیم صرف 134 رنز پر ڈھیر ہو کر میچ کے تیسرے ہی دن اننگز اور 55رنز کی بدترین شکست سے دوچار ہوئی۔
تاہم اس بدترین شکست کے باوجود بلے سے مستقل ناقص کارکردگی دکھانے والے قومی ٹیم کے کپتان سرفراز احمد اپنی ٹیم کی کارکردگی سے مطمئن نظر آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم یہاں آئے تو لوگ ہی سوچ رہے تھے کہ ہم ایک میچ بھی نہیں جیت سکیں گے لیکن ہم نے جس طرح لارڈز میں کارکردگی دکھائی وہ بہت شاندار تھی، ہماری فاسٹ باؤلنگ، فیلڈنگ اور بیٹنگ بہت عمدہ تھی۔
انہوں نے کہا کہ مایوس کن امر یہ ہے کہ ہمارے پاس سیریز جیتنے کا نادر موقع تھا لیکن بدقسمتی سے ہم نے یہاں اچھا کھیل پیش نہیں کیا۔
ہیڈنگلے میں شکست سے قطع نظر اس سیریز میں پاکستان کے لیے کئی مثبت پہلو رہے جس میں محمد عباس کی شاندار باؤلنگ سرفہرست ہے جنہوں نے لارڈز میں 64رنز کے عوض 8وکٹیں لے کر میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز اپنے نام کیا اور سیریز کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔
'مجھے اپنی نوجوان ٹیم پر فخر ہے، جس طرح عباس نے باؤلنگ کی، شاداب بھی اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں، فہیم اشرف نے بھی اچھا کھیل پیش کیا البتہ میں ہیڈنگلے میں میچ نہ جیتنے پر بہت مایوس ہوں لیکن سیریز 1-1 سے برابر کرنا بھی اچھا نتیجہ ہے'۔
سیریز میں پاکستان میں سب سے پریشان کن امر تجربہ کار کھلاڑیوں خصوصاً بلے بازوں کی مایوس کن کارکردگی رہی جہاں سیریز میں اظہر علی کی اوسط 16.75 اور کپتان سرفراز کی اوسط 10.33 رہی۔
سرفراز نے کہا کہ اظہر ہمارے سب سے اہم بلے باز ہیں اور یہ درست ہے کہ وہ اچھی فارم میں نہیں لیکن لارڈز میں انہوں نے ففٹی اسکور کی تھی۔
کپتان نے کہا کہ میں سیریز میں اپنی بیٹنگ سے بھی مطمئن نہیں، میں نے غلطیاں کیں اور چند برے شاٹس کھیلے۔
اس سیریز سے قبل پاکستان نے اپنا آخری ٹیسٹ میچ مئی ماہ قبل سری لنکا کے خلاف دبئی میں کھیلا تھا جہاں قومی ٹیم کو 68رنز سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا اور سرفراز نے کہا کہ ایک عرصے بعد یکے بعد دیگرے تین ٹیسٹ میچ کھیلنا ٹیم کے لیے سخت چیلنج ثابت ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنا آخری ٹیسٹ اکتوبر میں کھیلا تھا لہٰذاپانچ سے چھ ماہ بعد ٹیسٹ کھیلنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ ایک مختلف فارمیٹ ہے اس لیے آپ کو پانچ روزہ کرکٹ میں خود کو ایڈجسٹ کرنا ہوتا ہے اور اگر تین دن تک فیلڈنگ کرنا ہو تو یہ بھی مشکل مشکل کام ہوتا ہے۔
کپتان نے مزید کہا کہ ہم جتنا ٹیسٹ کرکٹ کھیلتے ہیں، اتنا ہی میچور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اب ہمارے متحدہ عرب امارات میں 5 ٹیسٹ میچ ہیں جس کے بعد تین ٹیسٹ میچ جنوبی افریقہ میں ہوں گے اور ان سے ٹیم کو میچور ہونے میں مدد ملے گی۔