پاکستان

کراچی: ایک درجن سے زائد نادرا سینٹرز کی بندش سے عوام کو مشکلات کا سامنا

لوگوں کی ایک بڑی تعداد شناختی کارڈ بننے میں تاخیر کی وجہ سے ووٹ نہیں دے سکے گی، سیاسی جماعتوں کا خدشہ

کراچی کے ہزاروں افراد کا الیکشن 2018 میں حقِ رائے دہی کا استعمال مشکوک دکھائی دیتا ہے کیوں کہ نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے ان کے لیے کمپیوٹرائز قومی شناختی کارڈز کا حصول مشکل بنادیا ہے۔

گزشتہ چند ماہ میں نادرا نے کراچی میں ایک درجن سے زائد سوئفٹ اور ایگزیکٹیو رجسٹریشن سینٹرز بند کیے، جس کی وجہ سے نادرا کے میگا سینٹرز پر طویل قطاریں دیکھیں جارہی ہیں، نتیجتاً عوام کے لیے یہ پورا مرحلہ سست روی کا شکار ہے۔

اس معاملے سے پریشان ایک شہری رضوان الزمان کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ کو اگلی دفعہ نادرا آفس میں کام ہو، تو آپ کو ایک یا دو دن کی چھٹی لے لینی چاہیے‘۔

مزید پڑھیں: چیئرمین نادرا کا سینٹرز کا اچانک دورہ،عملے کی کارکردگی کا پول کھل گیا

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے نادرا کے نارتھ ناظم آباد میگا سینٹر کے باہر اپنے بھائی کے ساتھ انتظار کرتے ہوئے اپنا پورا دن ضائع کیا جبکہ سینکڑوں لوگ اب بھی اپنی باری کے منتظر تھے۔

ان کے بھائی قمر الزمان کا کہنا تھا کہ انہیں صبح 6 بجے ٹوکن ملا، مگر ان کی باری صبح 10 بجے آئی، جس کے بعد پورے مرحلے سے گزرنے میں مزید 2 گھنٹے لگے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آج مجھے کام پر ہونا چاہیے تھا مگر اس کے بجائے میں یہاں اس طویل قطار میں کھڑا ہوں‘۔

میگا سینٹرز میں انتظامات کی کمی

نارتھ ناظم آباد کا میگا سینٹر ایک زیرِ تعمیر عمارت کے ساتھ قائم ہے جبکہ درخواست گزاروں کے لیے بیٹھنے کے انتظامات موجود نہیں۔

لوگوں کو زمین پر بیٹھے یا کسی سہارے کے ساتھ لگ کر کھڑا دیکھا جا سکتا ہے جبکہ زیرِ تعمیر عمارت سے کوئی بھی بھاری چیز گرنے کا خطرہ بھی ہر دم موجود رہتا ہے۔

حالیہ مہینوں میں پاک کالونی، تیموریہ، سولجر بازار، نارتھ کراچی، کیماڑی، اتحاد کمرشل، بلدیہ ٹاؤن اور سائٹ ایریا میں نادرا کے کئی سینٹرز بند کیے جا چکے ہیں۔

اورنگی ٹاؤن کے رہائشی محمد عرفان، جو اپنے دوستوں کے ساتھ نارتھ ناظم آباد کے میگا سینٹر پر موجود تھے، کا کہنا تھا کہ اورنگی ٹاؤن جیسی بڑی آبادی کے لیے صرف ایک سوئفٹ سینٹر موجود ہے، جو صحیح طریقے سے اپنا کام نہیں کر رہا۔

یہ بھی پڑھیں: نادرا اور ماسٹر کارڈ معاہدہ دوبارہ بحال ہونے کا امکان

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے مقامی آفس میں خراب سروس کی وجہ سے یہاں آنے کو ترجیح دی‘۔

حال ہی میں کراچی کے علاقے گلستانِ جوہر میں جوہر چورنگی کے پاس موجود نادرا کا ایگزیکٹیو سینٹر بند کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے درخواست گزاروں کو ایف بی آر کی عمارت کے پیچھے ایک کونے میں موجود پرانے سینٹر جانا پڑتا ہے۔

فیڈرل بی ایریا کے علاقے نصیرآباد میں واقع ایگزیکٹیو رجسٹریشن سینٹر بھی چند ماہ قبل بند کر دیا گیا تھا اور اس کی جگہ پر اب ایک ریسٹورنٹ کھلا ہوا ہے۔

عائشہ منزل پر ایک رجسٹریشن سینٹر اب صرف ان کارڈز کی تصدیق کے معاملات سنبھال رہا ہے جنہیں بلاک یا مشتبہ قرار دے دیا گیا ہے۔

مذکورہ سینٹر کے باہر موجود بورڈ پر واضح طور پر 'رجسٹریشن سینٹر' لکھا ہے، لیکن پھر بھی یہ نئے شناختی کارڈز کی درخواستیں وصول نہیں کرتا جس کی وجہ سے قریبی علاقوں کے ہزاروں لوگوں کے پاس نارتھ ناظم آباد میگا سینٹر کی طویل قطاروں میں انتظار کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں بچتا۔

کراچی کے علاقے ڈی ایچ اے میں نثار شہید پارک کے قریب موجود سوئفٹ رجسٹریشن سینٹر بھی بند کر دیا گیا اور شہریوں کو اب ڈی ایچ اے میں کورنگی روڈ پر موجود میگا سینٹر جانا پڑتا ہے۔

سینٹرز بند کرنے کا مقصد عوام کو میگا سینٹرز تک لانا

گلستانِ جوہر میں نادرا رجسٹریشن سینٹر پر موجود ایک درخواست گزار نعمان احمد کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کی رہائش نارتھ کراچی کی ہے، اس لیے ان کے لیے نارتھ ناظم آباد کے میگا سینٹر پر درخواست دینا زیادہ آسان تھا، مگر انہوں نے جوہر برانچ کا انتخاب صرف رش سے بچنے کے لیے کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میگا سینٹر پر کبھی کبھی آپ پورا دن انتظار کرنے کے باوجود آفس میں داخل نہیں ہو پاتے، جن لوگوں کو معلوم نہیں کہ کراچی کے کسی بھی سینٹر سے کارڈ بن سکتے ہیں، وہ لاتعداد گھنٹوں تک انتظار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں‘۔

نارتھ ناظم آباد کے میگا سینٹر کے باہر موجود رش سے نعمان کی بات کی تصدیق ہوتی ہے جبکہ ڈی ایچ اے اور سائٹ میں موجود دیگر دو میگا سینٹرز پر رش بھی کچھ مختلف نہیں ہوتا۔

نادرا کے ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر تصدیق کی کہ حالیہ مہینوں میں ایک درجن سے زائد سوئفٹ اور ایگزیکٹیو رجسٹریشن سینٹرز بند کیے گئے ہیں تاکہ عوام کو میگا سینٹرز پر لایا جا سکے، ’اس اقدام کا مقصد معاملات کو آسان بنانے کے لیے تھا مگر نتائج منصوبے کے مطابق نہیں رہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے عوام کے لیے آسانیاں پیدا نہیں ہوئیں کیوں کہ انہیں اب قریبی سینٹرز بند ہونے کی وجہ سے دور دراز کے سینٹرز تک جانا پڑ تا ہے۔

گزشتہ ماہ نادرا کے چیئرمین عثمان مبین نے اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر سائٹ اور ڈی ایچ اے کے میگا سینٹرز سمیت شہر کے مختلف نادرا سینٹرز کا دورہ کیا تھا، جب ان کی باری آئی تو ڈیوٹی پر موجود عملے نے ان کے کاغذات مسترد کر دیے، بعد میں انہوں نے ’شہریوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے پر‘ عملے کے دو ارکان کو معطل کر دیا۔

دوسری جانب سیاسی جماعتیں نادرا سینٹرز کی بندش کو جمہوری مرحلے کے لیے نقصان دہ قرار دیتی ہیں اور اس خدشے کا اظہار کررہی ہیں کہ ان کے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد شناختی کارڈ بننے میں تاخیر کی وجہ سے ووٹ نہیں دے سکے گی۔

کراچی میں مزید سینٹرز کی ضرورت

دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے ترجمان امین الحق کہتے ہیں کہ صرف میگا سینٹرز بنا دینا مسئلے کا حل نہیں ہے، اور نادرا کو پہلے سے موجود سینٹرز بند کرنے کے بجائے کراچی کی آبادی کو مدِنظر رکھتے ہوئے مزید سینٹرز قائم کرنے چاہیئں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر لوگوں کو شناختی کارڈ بنوانے میں اتنی مشکلات پیش آ رہی ہیں تو وہ ووٹ کیسے ڈالیں گے؟‘

انہوں نے نادرا چیئرمین کی جانب سے عملے کی معطلی اور صبح 9 سے رات 9 بجے تک کام کرنے کے احکامات کو نمائشی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے کوئی طویل مدتی فوائد حاصل نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ ’عملے کی تعداد بڑھانے کے بجائے موجودہ عملے کو 12 گھنٹے کام کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جو عملے کی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے‘۔

خیال رہے کہ نادرا کے ایک سینئر عہدیدار نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ چیئرمین کے حالیہ دورہ کراچی کے بعد جن سینٹرز کو 12 گھنٹے کام کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اس میں موجودہ عملے سے ہی 12 گھنٹے تک کام لیا جارہا ہے۔

جماعتِ اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے بھی شناختی کارڈ کے اجراء میں تاخیر کے حوالے سے سوالات اٹھادیئے۔

مزید پڑھیں: ’شناختی کارڈ کو رقم کی ادائیگی کا ذریعہ بنانے کا سمجھوتہ‘

ان کی جماعت نادرا کے خلاف مظاہروں کی وجہ سے خبروں کی شہ سرخیوں میں رہی ہے۔

نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ جماعتِ اسلامی نے نادرا کے اعلیٰ حکام کے ساتھ کئی ملاقاتیں کی ہیں جن میں عوامی شکایات کے ازالے کی یقین دہانی کروائی گئی تھی، مگر ٹھوس اقدامات ابھی تک دیکھنے میں نہیں آئے۔

پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری وقار مہدی کا کہنا تھا کہ چونکہ ابتدائی انتخابی فہرستیں آ چکی ہیں، اس لیے اگر کوئی اس دوران ووٹ دینے کی قانونی عمر کو پہنچتا ہے مگر تاخیر کی وجہ سے شناختی کارڈ حاصل نہیں کر پاتا، تو یہ ’ووٹوں کا زیاں‘ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ نادرا کو ’جنگی بنیادوں‘ پر کام کرنا چاہیے تاکہ کوئی بھی شخص ووٹ ڈالنے سے نہ رہ جائے۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے رکنِ صوبائی اسمبلی ثمر علی خان کا کہنا تھا کہ نادرا کے مزید 'سیٹلائٹ سینٹروں' کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’صرف این اے 250 میں ہی 2 درجن سے زائد بستیاں ہیں، ایک نادرا میگا سینٹر اتنی بڑی آبادی کی ضروریات کیسے پوری کر سکتا ہے؟‘

ڈان نے ان شکایات پر نادرا سے باضابطہ جواب حاصل کرنے کے لیے متعدد مرتبہ کوششیں کیں مگر ان کے محکمہ تعلقاتِ عامہ نے دو ہفتے سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی کوئی جواب نہیں دیا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 5 اپریل 2018 کو شائع ہوئی

انگلش میں پڑھیں۔