پاکستان

ریپ کے ملزم کی سزا کے لیے ڈی این اے کا ثبوت ناکافی

سپریم کورٹ اور قانونی شہادت کے مطابق ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ ایک ثبوت کے طور پر قابلِ قبول نہیں۔

لاہور: قصور میں بچیوں کے ساتھ ریپ کرنے والے ملزم کی سزا کو یقینی بنانے کے لیے تحقیقاتی ٹیم کو مزید ایسے شواہد دینا ہوں گے جو پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی کی رپورٹ کی توثیق کرسکیں کیونکہ سپریم کورٹ آف پاکستان اور قانونی شہادت کے مطابق ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ ایک ثبوت کے طور پر قابل قبول نہیں ہے۔

یہ بات پنجاب حکومت کے حکام، سول اور جرائم کے قانونی معاملات کو دیکھنے والے افراد سے اس معاملے پر تبادلہ خیال کے دوران واضح ہوئی۔

ایک سینئر حکام کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کچھ مقدمات میں ڈی این اے رپورٹ کو بطور ثبوت پیش کرنے کی اجازت دیتی ہے لیکن انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کی پابندی ملزم کو سزا دلانے میں مشکل پیدا کرسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: جیکٹ کے دو بٹن زینب کے قاتل کی گرفتاری میں معاون

خیال رہے کہ متعدد ممالک میں ڈی این اے ٹیسٹ قابلِ قبول ثبوت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کیونکہ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کسی فرد کی جرائم میں ملوث ہونے کے لیے شناخت کا بنیادی کام کرتا ہے۔

واضح رہے کہ دو زور قبل وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے لاہور میں پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ زینب کے ساتھ ریپ اور قتل میں عمران نامی ملزم ملوث ہے اور اس کا ڈی ین اے بھی میچ ہوگیا ہے، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ملزم کے پولی گراف ٹیسٹ میں بھی کامیابی ملی ہے۔

خیال رہے کہ پولی گراف ٹیسٹ سے ملزم کے سچ بولنے اور جھوٹ بولنے کے بارے میں معلوم کیا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب کچھ میڈیا رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز انسداد دہشت گردی کی عدالت سے ریمانڈ حاصل کرنے کے بعد تحقیقاتی ٹیم نے کیس سے متعلق کچھ اہم ثبوت حاصل کیے ہیں۔

ذرائع کے مطابق 15 اکتوبر 2015 کو جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس مشیر عالم اور جسٹس دوست محمد پر مشتمل بینچ نے 2009 کی جرائم کی اپیل ( 496 اور 497) میں فیصلہ دیا تھا کہ کرمنل طریقہ کار کوڈ ( سی آر پی سی) کے سیکشن 510 کے مطابق ڈی این اے پر بائیو کیمیکل ماہرین کی رپورٹ مکمل نہیں لہٰذا ایسی رپورٹ کا معاملہ قانون کی مذکورہ شق کے مطابق بھی نہیں اور اس پر ایک بحث ہو سکتی ہے جبکہ ماہرین کی ڈی این اے رپورٹس کے علاوہ کچھ مخصوص ماہرین کی رپورٹس قابلِ قبول ہوسکتی ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ یہ معاملات اور ان پر فیصلے دیگر مقدمات میں دیکھے جائیں گے، تاہم اس وقت ہم ایسے کسی قانون کی غیر موجود میں اس ثبوت کو قابلِ قبول تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔

عدالت نے ڈی این اے ٹیسٹ کے ناکافی شواہد کو واضح کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ڈی این اے کسی بھی کیس میں یہ ایک ماہر کی رائے ہو سکتی ہے اور حتیٰ کہ اس پر عمل کرتے ہوئے بطور شواہد بھی قبول کیا جاستا ہے, لیکن اس پر یقین کرتے ہوئے کسی بھی ملزم کو سزا نہیں دی جاسکتی جب اس کے علاوہ بھی دیگر ٹھوس شواہد موجود ہوں۔

فیصلے کے ایک اور اقباس میں عدالت نے واضح کیا تھا کہ پروسیکیوشن کا پورا کیس واقعاتی ثبوتوں پر مبنی ہے لہٰذا قانونی اصول کے مطابق عدالت کو مختلف ثبوتوں کو ایک جگہ جمع کرنا ہوگا اور ناقابلِ تردید ثبوت بنانا ہوگا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے لاکھوں روپے سے فارنزک سائنس لیبارٹری بنائی اور بہترین تکنیکی اسٹاف تعینات کیا تاکہ مجرموں کو ٹھوس اور ناقابل تردید سائنسی ثبوتوں جیسے ڈی این اے کے مطابق سزا دی جاسکے۔

فیصلے کی روشنی میں قانونی شہادت میں ڈی این اے کو قابلِ قبول ثبوت کے طور پر شامل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کچھ وجوہات کے باعث یہ ممکن نہیں ہوسکا۔

یہ بھی پڑھیں: زینب قتل کا ملزم 14 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

اس بارے میں حکام کا کہنا تھا کہ ہمیں اس معاملے پر قومی سطح پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور ڈی این اے رپورٹس کو قابل قبول ثبوت تسلیم کرنا ضروری ہے کیونکہ ہمارے ملک میں جہاں پولیس کی تفتیش کمزرو ہے اور عینی شاہدین معاملے سے دور ہوجاتے ہیں یا انہیں ختم کردیا جاتا ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ جب تک ڈی این اے رپورٹ کا کام کیا گیا تھا تحقیقات کرنے والے حکومتی اداروں کو ایسے ثبوت بھی حاصل کرنے چاہیے تھے، جو اس رپورٹ کی توثیق کرسکیں۔

حکام نے کہا کہ اگر گرفتار شخص ہی اصل قاتل ہے تو اسے کسی بھی قانونی غلطی سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے.

انہوں نے پولیس کو مشورہ دیا کہ وہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی موجودگی میں ملزم کا اعترافی بیان ریکارڈ کریں کیونکہ پولیس کے سامنے اعترافی بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔


یہ خبر 25 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی