کمسن بچوں پر جنسی تشدد : ’معاشرے میں آگاہی کی ضرورت‘
سماجی کارکن ماہین تاثیر نے کہا ہے کہ ملک میں کمسن بچوں پر جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے معاشرے میں آگاہی پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔
ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے ماہین تاثیر کا کہنا تھا کہ سب پہلے تو ہمیں بچوں کیساتھ ہونے والی زیادتی کی نوعیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور جو کچھ قصور میں مقتول زینب اور دیگر بچوں کیساتھ ہوا، وہ انتہائی خطرناک قسم کے واقعات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلا کام والدین کا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس حوالے سے تعلیم دیں تاکہ وہ خود اچھے اور بُرے میں فرق کو تلاش کرسکیں، یقیناً جب بچہ گھر سے تربیت حاصل کرتا ہے تو اس میں معاشرے کی بُرائیوں کا سامنا کرنے کی صلاحتیں پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں، لہذا یہ کام بہت ضروری ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسری ذمہ داری تعلیمی اداروں کی ہے جہاں ایسا نصاب ہونا چاہیے جس سے بچے خود اس بارے میں بات کرنے کی ہمت پیدا کریں، کیونکہ زیادہ تر کیسز میں یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ بچے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کو بتانے سے گھبراتے ہیں۔
مزید پڑھیں: بچوں کو قصور جیسے واقعات سے کیسے محفوظ رکھا جائے؟
'میڈیا کو بھی ذمہ دار ہونا ہوگا'
ماہین تاثیر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح سے معاشرے میں ایسے واقعات جنم لے رہے ہیں، تو ہمارے یہاں میڈیا کا کردار بھی بظاہر کچھ حد تک غیر ذمہ دارانہ دکھائی دیتا ہے ، لہذا ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ وہ بھی ذمہ داری کا مظاہرہ پیش کرے تاکہ کسی سطح پر بھی ایک منفی تاثر نہ ابھر کر آئے، کیونکہ ایسا ہوگا تو کامیابی انہیں لوگوں کی ہوگی جو ایسے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا بعض اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کوئی بھی لڑکی ریب کا شکار ہوتی ہے تو ایسے فوراً سے کیمرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اُس کے لیے مزید تکلیف دے بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ ایسا کرکے ہم خود اُس کی رازداری کو قائم نہیں رکھ پاتے، جو غیر مناسب طرزِ عمل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 'بچوں سے زیادتی کے واقعات پر حکومت سنجیدہ نہیں'
انہوں نے ان واقعات کے بڑھنے کی ایک وجہ حکومت کو بھی قرار دیا اور کہا کہ ایک جانب تو ملزمان کی گرفتاری یا سزاؤں کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے، جبکہ دوسری طرف محکمہ پولیس میں بھی تربیت کا وفقدان پایا جاتا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ ریپ کے کیسز میں درست طرح سے تفتیش ہی نہیں کرسکتی۔
زینب کا قتل، کب کیا ہوا؟
صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔
جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا اس وقت اس کے والدین عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب گئے ہوئے تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔
5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تھی، ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔
بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثاء کے حوالے کردیا گیا تھا، تاہم یہ بھی اطلاعات تھی کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔اس واقعے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایک سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظر عام پر آئی تھی، جس میں ننبھی بچی کو ایک شخص کے ساتھ ہاتھ پکڑ کر جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا جبکہ پولیس نے اس ویڈیو اور اہل علاقہ کی مدد سے ملزم کا خاکہ بھی جاری کیا گیا تھا۔
دوسری جانب زینب کی قتل کے بعد سے ضلع بھر کی فضا سوگوار رہی اور ورثاء، تاجروں اور وکلاء کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور فیروز پور روڈ بند کردیا گیا تھا۔
اس واقعے میں شدت تب دیکھنے میں آئی جب اہل علاقہ نے مشتعل ہو کر ڈی پی او آفس پر دھاوا بھول دیا اور دروازہ توڑ کر دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔
یہ بھی پڑھیں: قصور:کمسن بچی کے مبینہ ریپ، قتل پر احتجاج، توڑ پھوڑ
اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی تھی، جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
10 جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے اور انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی۔
بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات کی اور مجرموں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی۔