—فوٹو:نعمان لیاقت
زینب کے خاندان نے پانچ روز گزرنے کے باوجود کوئی خاص پیش رفت نہ ہونے پر تحقیقات کے حوالے سے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
زینب کے والد نے حکام سے درخواست کی کہ وہ احتجاج کے دوران گرفتار ہونے والے افراد کو رہا کردیں جو کچرا کنڈی سے زینب کی لاش ملنے کے بعد قصور شہر کی سڑکوں میں نکل آئے تھے۔
ملک بھر میں ہونے والے احتجاج میں ایک ہی مطالبہ کیا جارہا تھا کہ بچوں کے تحفظ کے لیے ایسے ملزمان کو گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے جبکہ اسی حوالے سے لندن میں پاکستانی سفارت خانے کے باہر بھی ایک احتجاج کیا گیا۔
زینب قتل کیس کے حوالے سے نئی سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر آنے کے بعد قصور کے شہریوں کا کہنا تھا کہ یہ فوٹیج مجرم کو پکڑنے کے عمل کو متاثر کرسکتی ہے۔
اہل علاقہ کے مطابق نئی ویڈیو مجرم کو پکڑنے کی کوششوں کو متاثر کرسکتی ہے کیونکہ گزشتہ ویڈیو میں جو شخص پیرو والا روڈ پر زینب کو لے کر جاتے ہوئے دکھایا گیا وہ نئی ویڈیو میں دیکھے جانے والے شخص سے مختلف ہے، اس کے علاوہ نئی سی سی ٹی وی فوٹیج 5 بج کر 27 منٹ کی ہے جبکہ زینب کو 7 بجے کے قریب اغوا کیا گیا تھا۔
قصور میں 6 سالہ زینب کا قتل
صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں 4 جنوری کو 6 سالہ بچی زینب کو اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔
جس وقت زینب کو اغوا کیا گیا اس وقت اس کے والدین عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں سعودی عرب میں تھے جبکہ اہل خانہ کی جانب سے زینب کے اغوا سے متعلق مقدمہ بھی درج کرایا گیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔
5 روز بعد 9 جنوری کو ضلع قصور میں شہباز خان روڈ پر ایک کچرے کے ڈھیر سے زینب کی لاش ملی تو ابتدائی طور پر پولیس کا کہنا تھا کہ بچی کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔
بعد ازاں پولیس کی جانب سے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا تھا، جس کے بعد لاش کو ورثا کے حوالے کردیا گیا تھا تاہم یہ بھی اطلاعات تھی کہ بچی کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس واقعے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایک سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظر عام پر آئی تھی، جس میں ننبھی بچی کو ایک شخص کے ساتھ ہاتھ پکڑ کر جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا جبکہ پولیس نے اس ویڈیو اور اہل علاقہ کی مدد سے ملزم کا خاکہ بھی جاری کیا تھا۔
دوسری جانب زینب کے قتل کے بعد سے قصور شہر کی فضا سوگوار رہی اور ورثا، تاجروں اور وکلا کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور فیروز پور روڈ بند کردیا گیا تھا۔
اس واقعے میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب اہل علاقہ نے مشتعل ہو کر ڈی پی او آفس پر دھاوا بول دیا اور دروازہ توڑ کر دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔
اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
10 جنوری کو بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد پاکستان پہنچے اور انھوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے ننھی زینب کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی۔
بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے گھر کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندان سے ملاقات کر کے مجرموں کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی تھی۔