2017: ٹرمپ کی ناکامیوں اور یورپی انتہاپسندوں کی کامیابیوں کا سال
2017: ٹرمپ کی ناکامیوں اور یورپی انتہاپسندوں کی کامیابیوں کا سال
یورپ میں 2017 کو انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کا سال کہا جاسکتا ہے۔ آسٹریا وہ پہلا یورپی ملک ہے جس نے انتہائی دائیں بازو کی جماعت کو حکمرانی سونپی۔ فرانس سے پولینڈ تک یورپ کے کئی ملکوں میں تارکینِ وطن اور اسلام کے معاملے پر انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کو پذیرائی ملی۔
یوں یہ کہنا بجا ہوگا کہ یورپی سیاست 2016 کی نسبت کچھ خاص نہیں بدلی۔ 2016 میں بھی کئی ایسے واقعات ہوئے جنہوں نے یورپی سیاست کو ہلاکر رکھ دیا جیسے کہ بریگزٹ، مہاجرین کی آبادکاری کے مسائل، فرانس کے قومی دن پر نیس میں دہشتگرد حملہ وغیرہ، تاہم 2017 کی اہم بات یہ ہے کہ انتہائی دائیں بازو کی مقبولیت بڑھنے کے باوجود اعتدال پسندوں نے اکثر ملکوں میں انہیں اقتدار میں آنے سے روک دیا۔
دوسری جانب امریکا میں 2017 صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اقتدار میں پہلا سال تھا اور انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی کئی تنازعات کھڑے کیے۔ امریکی سیاست کو ٹرمپ کے اقتدار کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ تنازعات کا سال ہی کہلائے گا، جس میں امریکی صدارتی الیکشن میں روس کی مبینہ مداخلت، اس کی تفتیش میں صدر ٹرمپ کی الیکشن مہم کے دو اہم افراد پر فرد جرم کا عائد کیا جانا، ان کے سابق نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر مائیکل فلن کا ایف بی آئی کے سامنے بولا گیا جھوٹ پکڑا جانا، میکسیکو بارڈر پر دیوار کی تعمیر پر مزاحمت، اوباما کیئر کے خاتمے میں ناکامی، گورسچ کا سپریم کورٹ کا جج بننا اور سب سے بڑھ کر ٹرمپ کا بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا شامل ہیں۔
مزید پڑھیے: بحرانوں میں ڈوبتے اور اُبھرتے مشرق وسطیٰ کا سال 2017ء
2016 میں ٹرمپ کی صدارتی الیکشن میں کامیابی اور بریگزٹ نے 2017 کو انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کا سال بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انتہائی بائیں بازو کی مقبولیت اور چند کامیابیوں کو یورپ کے اعتدال پسند طبقے فکرمندی کے ساتھ دیکھتے تو ہیں لیکن انہیں یہ بھی یقین ہے کہ اچانک ابھر کر سامنے آنے اور چند کامیابیاں سمیٹنے کے باوجود یہ جماعتیں اسی طرح اچانک گم بھی ہو جائیں گی۔ اسے خوش گمانی ہی کہا جائے تو بہتر ہوگا۔
یورپی اعتدال پسندوں کی امیدوں کو خوش گمانی اس لیے قرار دیا جا سکتا ہے کہ 2018 ایک بار پھر کئی یورپی ملکوں میں الیکشن کا سال ہے جبکہ امریکا میں بھی وسط مدتی الیکشن ہونے ہیں۔ 2018 کے الیکشن ٹرمپ کی 2016 کی کامیابی اور بریگزٹ کے اثرات سے خالی ہرگز نہیں ہوں گے۔