ہم سب ٹی وی پر سنتے ہیں کہ پاکستانی معیشت کا جنازہ نکل چکا ہے مگر کیا یہ بات سو فیصد درست ہے؟
سال 2017 پاکستانی معیشت کے لیے کیسا رہا؟ راجہ کامران
سال 2017ء کا سورج غروب ہونے اور اس سال کو ملکی تاریخ میں شامل ہونے میں چند ہی روز باقی ہیں۔ رواں سال کے دوران ملک نے معاشرتی، سماجی اور سیاسی میدان میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ ایسے میں یہ سال پاکستانی معیشت کے لیے مخصوص اہمیت کا حامل سال رہا ہے۔
رواں سال کے دوران پاکستان چین اقتصادی راہدری کے تحت لگائے جانے والے بجلی کے کارخانوں نے کام شروع کردیا ہے، جس سے ملک میں بجلی کی لوڈ شیدڈنگ تقریباً ختم ہوگئی ہے۔ اگر آپ شام 7 سے رات 12 بجے والے ٹی وی ٹاک شوز دیکھتے ہیں اور معیشت کو بھی آپ اگر انہی کی عینک سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ معیشت بالکل تباہ ہوگئی ہے، اور معاشی بحران آپ کے سر پر کھڑا ہے۔ جس میں سب کچھ تباہ ہوچکا ہے یا ہونے والا ہے۔
معیشت کے لیے حوالے کو پانی کے گلاس کے طور پر دیکھا جائے تو بعض لوگوں کی نظر میں یہ گلاس آدھا بھرا ہے اور بعض کی نظر میں یہ آدھا خالی ہے۔ مگر معیشت کے بارے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کا گلاس کبھی بھی مکمل طور پر بھر نہیں سکتا، کیونکہ معیشت بڑھنے کے ساتھ ساتھ گلاس میں پانی تو بڑھتا ہے مگر گلاس کا سائز بھی بڑھ جاتا ہے، اور یہی پاکستان کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔
اس وقت اگر پاکستانی معیشت کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کاروباری برادری کی رائے سے اہم کوئی چیز ہو نہیں سکتی۔ وفاقی ایوان ہائے تجارت و صنعت کے صدر زبیر طفیل سے معیشت پر احوال معلوم کیا تو بہت ہی مثبت رائے کا سامنا ہوا۔
زبیر طفیل کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت اس وقت درست سمت میں جارہی ہے۔ ملک میں ترقیاتی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ تعمیراتی صنعت اس وقت تیزی پر ہے جس سے 40 سے زائد منسلک صنعتوں میں ترقی ہوتی ہے۔ ملک میں اسٹیل، سیمنٹ اور تعمیرات سے متعلق دیگر صنعتیں بھی اپنی پیداواری گنجائش کی انتہاء پر کام کررہی ہیں، اور اس کے باوجود طلب پوری نہیں ہورہی ہے۔ سیمنٹ اور اسٹیل بار کی صنعت میں پیداواری گنجائش بڑھائی جارہی ہے۔ زبیر طفیل خود ایک کیمیکل فیکٹری کے مالک ہیں اور ان کے اپنے کاروبار میں بھی اضافہ ہے۔
زبیر طفیل کی رائے کو جانچنے کے لیے پاکستان میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کی رائے کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔ پاکستان میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کے دو بڑے لابنگ گروپ موجود ہیں۔ جس میں ایک اوورسیز چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) اور دوسرا امریکن بزنس کونسل (اے بی سی) ہے۔
دونوں میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی نمائندگی ہے اور تمام کی تمام بڑی صنعتوں، بینکاری اور خدمات کے دیگر شعبوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ دونوں ہی پاکستان میں کاروباری ماحول اور امن و امان کے حوالے سے اپنے اپنے ممبران کی رائے پر منبی سروے رپورٹ جاری کرتی ہیں اور سال 2008ء سے 2014ء تک ان سروے رپورٹس کی بنیاد پر میڈیا کی شہ سرخیاں بنتی رہیں کیونکہ ان میں معیشت پر کڑی تنقید کی گئی تھی۔
اوورسیز چیمبرز نے اس سلسلے کو مزید دراز کرتے ہوئے سہ ماہی بنیادوں پر سروے جاری کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس کے نومبر میں جاری ہونے والے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والی کمپنیوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان میں بزنس کانفیڈینس اسکور 21 پوائنٹس ہوگیا ہے۔ جبکہ مئی 2017ء میں یہ 13 پوائنٹس تھا۔ اسی طرح کاروباری اعتماد میں 8 پوائنٹس کا اضافہ ہوا ہے۔ ریٹیل سیکٹر 40 فیصد مثبت رہا جبکہ پیداواری شعبے کے اعتماد میں تقریباً دگنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
اس سروے میں او آئی سی سی آئی کے ممبران سے پوچھا گیا کہ کیا وہ پاکستان میں نئی سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتے ہیں تو اکثریت نے پاکستان میں نئی سرمایہ کاری کرنے کا مثبت اشارہ دیا۔
او آئی سی سی آئی کے ممبران کا کہنا تھا کہ سال 2017ء کے دوران معیشت میں بہتری بھی آئی ہے، بجلی کی فراہمی، امن و امان کا ماحول بہتر ہوا ہے اور حکومتی ترقیاتی بجٹ میں بھی اضافہ ہوا، مگر اس کے باوجود ملک میں کاروباری مسابقت کو بہتر بنانے اور بیوروکریسی کا سرخ فیتہ ختم کرنے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو تجارت میں ہونے والے خسارے کی بڑی وجہ پاکستان کا پیٹرولیم مصنوعات کا درآمدی بل ہے اور سالانہ تقریباً 12 ارب ڈالر کی پیٹرولیم مصنوعات درآمد کی جاتی ہیں
اسی طرح امریکن بزنس کونسل کے سروے میں بھی معیشت اور خصوصاً سرکاری اداروں کے کام کے حوالے سے تفصیلی سروے جاری کیا ہے۔ اس سروے کے مطابق 95 فیصد امریکی کمپنیاں پاکستان میں مستقبل میں اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا چاہتی ہیں۔ ان میں سے 40 فیصد کی رائے ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کا تشخص بہتر ہوا ہے۔
اسی سروے میں اے بی سی کا کہنا ہے کہ پالیسیوں اور ان پر تسلسل کے ساتھ عملدرآمد، سیاسی صورتحال، امن و امان، اندرونی اور بیرونی سیاسی ماحول، حکومت کا ترقیاتی بجٹ اور کاروبار کرنے کے یکساں مواقع میں قدرے بہتری کے آثار نظر آرہے ہیں۔ مگر اس کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
ملکی معیشت کے حوالے سے پالیسی انسٹیٹیوٹ ریفارمز نے بھی دسمبر میں موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ ملکی معیشت نے ملے جلے ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔ ملک کی مجموعی قومی پیداوار کی شرح 10 سال کی بلند ترین سطح پر رہی۔ ملکی زراعت اور پیداواری صنعتوں کی کارکردگی بہتر رہی، مگر پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج اسٹاک مارکیٹ کو ملکی معیشت کا سادہ ترین اشاریہ بھی تصور کیا جاسکتا ہے۔ ملکی معیشت کی ترقی یا تباہی، سیاسی کشیدگی اور دیگر عوامل میں ہونے والی مثبت یا منفی پیش رفت کا اظہار معاشی لحاظ سے سب سے پہلے اسٹاک مارکیٹ میں ہی ہوتا ہے۔
سال 2017ء میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے اپنے طویل مدتی تنظیم نو کے اہم سنگِ میل کو عبور کیا اور اسٹاک ایکسچینج میں بروکرز کی اجارہ داری کو ختم کرتے ہوئے چینی اسٹریٹجک سرمایہ کاروں نے جنوری میں چارج سنبھال لیا۔
سال 2017ء کے پہلے 6 ماہ اسٹاک مارکیٹ کے لیے بہتر رہے اور کاروبار میں تیزی دیکھی گئی۔ مئی کی 24 تاریخ کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس 53 ہزار پوائنٹس کی حد کو چھو گیا جو کہ اسٹاک ایکسچینج کی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔
یکم جون کو پاکستان اسٹاک مارکیٹ کو مورگن اسٹینلے کیپٹل انٹرنیشنل کے انڈیکس میں فرنٹیئر مارکیٹس سے نکال کر ایمرجنگ مارکیٹس میں شامل کردیا گیا۔ مگر اِس حوالے سے اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی رائے دینے والوں کی توقعات اور پیش گوئی کے مطابق بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔
عارف حبیب بروکریج کے سربراہ شاہد حبیب کہتے ہیں کہ توقعات تھیں کہ ایم ایس سی آئی انڈیکس میں گریجویٹ کرنے اور ایمرجینگ مارکیٹس میں جانے سے 50 کروڑ ڈالر تک غیر ملکی سرمایہ کاری آئے گی۔ مگر توقع کے برخلاف فرنٹیئر مارکیٹ انڈیکس کے سرمایہ کاروں نے 48 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری نکال لی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی توقع پوری نہ ہونے کی وجہ سے مارکیٹ نے منفی رجحان لیا۔
پڑھیے: معیشت پر بھاری 'چائنہ کا مال'
اسٹاک مارکیٹ کو ابھی یہ دھچکا لگا ہی تھا کہ اس کے ساتھ ہی بجٹ میں لگائے گئے ٹیکسوں نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ بجٹ میں بونس شیئرز، ڈیویڈنڈ، کیپٹل گین اور بروکریج ہاؤسز پر ٹیکسوں کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ کردیا گیا جس سے مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے رجحان کو ٹھیس پہنچی۔
24 مئی کو مارکیٹ 53 ہزار پر تھی جس کے بعد مارکیٹ میں مندی دیکھی گئی۔ مسلسل کئی ماہ کی مندی کے بعد اس وقت اسٹاک مارکیٹ کا ہنڈرڈ انڈیکس 38 ہزار پوائنٹس کی سطح پر موجود ہے۔ سال کے آغاز سے اب تک مارکیٹ کا منافع یا ریٹ آف ریٹرن منفی 21 فیصد رہا۔ اگر بلند ترین سطح سے موازنہ کریں تو یہ گراوٹ 27 فیصد کی ہے۔
معروف سرمایہ کار عقیل کریم ڈھیڈھی سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی ٹیم کو اسٹاک مارکیٹ کی گراوٹ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ جان بوجھ کر حکومتی سطح پر ایسے بیانات دیے گئے اور ایسے اقدامات کیے گئے جس سے اسٹاک مارکیٹ میں کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ بجٹ میں منفی اقدامات کے علاوہ ایس ای سی پی میں کمزور ریگولیٹرز لگائے گئے جنہوں نے اسٹاک بروکرز کو بلاوجہ تنگ کیا اور نوٹسز کی بھرمار نے بروکرز کو کاروبار سے دور کردیا۔ اس صورتحال میں جبکہ بیرونی سرمایہ کار توقعات کے مطابق نہیں آئے تو مقامی سرمایہ کاروں نے بھی اپنا سرمایہ نکال لیا اور مارکیٹ گراوٹ کا شکار ہوگئی۔
بجلی کی پیداوار
پاکستان میں لوڈ شیڈنگ ملکی سیاست میں ایک اہم نعرہ و وعدہ رہی ہے۔ کراچی کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا میں لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی طویل بندش نے سیاسی گرما گرمی پیدا کرنے کے علاوہ امن و امان کی صورتحال کو بھی مخدوش بنایا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت نے بجلی کی قلت پر قابو پانے کو سب سے اہم قرار دیا اور یہی وجہ ہے کہ پاک-چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں 35 ارب ڈالر بجلی کے نئے یونٹس قائم کرنے پر لگائے گئے اور اب یہ کارخانے بتدریج آپریشنل ہورہے ہیں اور ملک میں اضافی بجلی بڑھ رہی ہے۔ اسی لیے وفاقی وزیرِ مملکت برائے توانائی کا کہنا ہے کہ ملک میں بجلی کی پیداوار ضرورت کے مطابق ہوگئی ہے، اور اب صرف ان فیڈرز پر بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوگی جہاں چوری زیادہ ہے۔
پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے میں بجلی کی پیداوار 14 ہزار میگا واٹ کے منصوبے شامل کیے گئے تھے جن میں سے اکثر آن لائن آچکے ہیں۔ بلوچستان، سندھ اور پنجاب میں سی پیک کے تحت بجلی کی پیداوار کے منصوبے لگائے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں توانائی کے لیے ہوا، پانی، ایٹمی، تھرمل (فرنس آئل، کوئلہ، گیس) شمسی اور دیگر ذرائع سے بجلی پیدا کی جاتی رہی ہے۔ موجودہ حکومت نے تھرمل بجلی میں کوئلے اور ایل این جی کو فروغ دیا ہے۔ جس سے پاکستان کا فرنس آئل پر انحصار کم سے کم ہو رہا ہے۔ بجلی کی پیداوار میں اضافے سے ملکی معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہورہے ہیں اور صنعتوں کو ملک بھر میں بجلی کی فراہمی بلاتعطل جاری ہے۔
پاکستان میں تھر کے کوئلے سے بجلی پیدا کرنا بھی خواب نہیں رہا ہے اور وہاں پر بجلی گھروں کی تعمیر کے علاوہ کوئلے کی کان کنی کا عمل بھی بھرپور طریقے سے جاری ہے اور سال 2018ء میں تھر سے بھی بجلی کی پیداوار شروع ہوجائے گی۔
تجارت کسی بھی ملک کی تجارت دو طرفہ ہوتی ہے۔ ہر ملک کی طرح پاکستان بھی اشیاء اور خدمات کی درآمد اور برآمد کرتا ہے۔ دنیا میں بہت کم ملک ایسے ہیں جن کا تجارتی توازن مثبت ہے۔ یعنی ان کی برآمدات کی مالیت درآمدات سے زائد ہے۔ پاکستان ہمیشہ ہی سے تجارتی خسارے کا شکار رہا ہے۔ یعنی اس کی برآمدات اس کی درآمدات کے مقابلے میں کم رہتی ہیں۔ گزشتہ چند سال سے برآمدات میں گراوٹ دیکھی جا رہی تھی۔ مگر موجودہ سال کے وسط سے برآمدات میں بہتری آنا شروع ہوئی ہے اور سال کے ابتدائی 9 ماہ میں پاکستان نے 21 ارب 30 کروڑ ڈالر کی خدمات اور اشیاء برآمد کی ہیں جبکہ جنوری سے ستمبر کے دوران 47 ارب ڈالر سے زائد خدمات اور اشیاء کی درآمد کی، یوں خدمات اور اشیاء کی تجارت کا خسارہ 25 ارب 78 کروڑ ڈالر رہا۔
پاکستان کو تجارت میں ہونے والے خسارے کی بڑی وجہ پاکستان کا پیٹرولیم مصنوعات کا درآمدی بل ہے اور سالانہ تقریباً 12 ارب ڈالر کی پیٹرولیم مصنوعات درامد کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ مشینری، کیمیکل، دھاتوں کی بڑے پیمانے پر امپورٹ کی جاتی ہے۔
پاکستان کو تجارتی خسارے سے نکلنے کے لیے طویل مدتی تجارتی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کرنا ہوگی اور برآمدات کے فروغ کے ساتھ ساتھ درآمد میں کمی پر بھی صنعتوں کو خصوصی رعایت دینا ہوگی اور اس میں سب سے اہم فوڈ گروپ ہے جس میں پاکستان خشک دودھ، دالوں کی مقامی پیداوار کو بڑھا کر زرِمبادلہ بچا سکتا ہے۔
جنوری سے ستمبر کے دوران 47 ارب ڈالر سے زائد خدمات اور اشیاء کی درآمد کی اس طرح خدمات اور اشیاء کی تجارت کا خسارہ 25 ارب 78 کروڑ ڈالر رہا۔
ترسیلاتِ زر پاکستان کے لیے زرِمبادلہ کمانے والا سب سے بڑا اور واحد ذریعہ سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات زر ہیں جنہیں وہ بینکاری نظام کے زریعے وطن بھجواتے ہیں۔ عالمی سطح پر کساد بازاری اور خصوصاً خلیجی ملکوں میں تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کے بعد پیدا ہونے والی معاشی صورتحال میں پاکستان کو آنے والی ترسیلات زر میں کمی دیکھی گئی ہے۔ موجودہ مالی سال کے دوران 8 ارب ڈالر سے زائد کی ترسیلات بینکاری نظام کے ذریعے وطن آئی ہیں۔ جبکہ گزشتہ سال 7 ارب کی ترسیلات آئیں تھیں اس طرح گزشتہ سال ترسیلات میں کمی ہوئی تھی، جبکہ اب اس میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔
پاکستان میں ترسیلات کو وطن لانے کے لیے پاکستان ریمیٹنس اِنیشی ایٹیو (Pakistan Remittance Initiative - PRI) کے نام سے ادارہ قائم ہے۔ یہ ادارہ بینکوں کو ایک ڈالر وطن لانے کے عوض تقریباً 8 روپے کی ادائیگی کرتا ہے مگر اس کے باوجود ادارے کی کارکردگی کی کوئی رپورٹ تاحال سامنے نہیں آئی ہے اور اس میں کس قدر شفافیت موجود ہے، اس بارے میں بہت سے شکوک و شہبات پائے جاتے ہیں۔
مزید پڑھیے: معیشت پر تنقید اور گورنر اسٹیٹ بینک کا غصہ
فاریکس ایسوسی ایشن کے رہنما مَلک بوستان کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے ترسیلات کا کاروبار ایکسچینج کمپنیوں سے لے کر بینکوں کے حوالے کردیا ہے۔ ایکس چینج کمپنیاں یہ کام مفت کرتی ہیں جبکہ بینکس پیسے لینے کے باوجود ترسیلات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کرسکے ہیں۔ پاکستان میں تقریباً سالانہ 12 ارب ڈالر کی ترسیلات بینکاری نظام کے ذریعے آتی ہیں اور اتنی ہی مقدار میں ہنڈی و حوالے کے ذریعے آتی ہیں۔
مَلک بوستان کا کہنا ہے کہ بینکوں کی طرح اگر ایکسچینج کمپنیوں کو بھی ترسیلات ملک میں لانے کی اجازت دے دی جائے تو ترسیلات دگنی ہوسکتی ہے اور ہنڈی و حوالے کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
بیرونی کھاتوں کا توازن
پاکستان کی معیشت کو روزِ اول سے جس مشکل کا سامنا ہے وہ ہے بیرونی کھاتوں کا توازن اور یہ مسئلہ ہر چند سال بعد اُبھر کر سامنے آتا ہے جس کو عالمی مالیاتی فنڈز کے قرضوں، دوست ملکوں سے ادھار یا عالمی مارکیٹ سے کمرشل بانڈز کی فروخت سے پورا کیا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چند سال تو آرام سے گزر جاتے ہیں، مگر پھر ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے اور اس طرح معیشت بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبتی چلی جارہی ہے۔
بیرونی کھاتے یا ایکسٹرنل اکاؤنٹ وہ حساب کتاب ہے جو پاکستان دنیا بھر میں لین دین کرتا ہے۔ پاکستانی برآمدات اور سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات زر بیرونی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں جبکہ درآمدات، بیرونی قرضوں کے سود اور اصل زر کی واپسی اور پاکستانیوں کے بیرونِ ملک سفری، تعلیمی، طبی یا دیگر نوعیت کے اخراجات ملک کے بیرونی ادائیگیاں ہوتی ہیں۔
بیرونی آمدنی اور بیرونی اخراجات کو منہا کرنے پر جاری کھاتے مرتب ہوتے ہیں۔ اگر بیرونی آمدنی اخراجات سے زائد ہو تو جاری کھاتوں میں نفع ہوتا ہے اور اگر اُلٹ ہو تو خسارہ ہوتا ہے اور پاکستان کو ہمیشہ جاری کھاتوں میں خسارے کا ہی سامنا رہا ہے، کیونکہ اس کو تجارتی خسارے اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے ڈیٹا کے مطابق جنوری سے مارچ کے دوران 3 ارب 21 کروڑ، اپریل سے جون تک 4 ارب 36 کروڑ اور جولائی تا اگست 3 ارب 39 کروڑ ڈالر کا خسارہ ہوا۔ اس طرح موجودہ سال کے 9 ماہ کے دوران پاکستانی معیشت کو 11 ارب 47 کروڑ ڈالر کا خسارہ جاری کھاتوں میں ہوا، جبکہ گزشتہ مالی سال میں یہ خسارہ محض 4 ارب ڈالر تھا۔
یہی خسارہ پاکستانی معیشت کے لیے سب سے اہم اور زہرِ قاتل ہے۔
زرِ مبادلہ ذخائر پاکستان کے زرِمبادلہ ذخائر کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 15 دسمبر کو ختم ہونے والے کاروباری ہفتے کو ملکی زرِمبادلہ ذخائر 20 ارب 38 کروڑ ڈالر سے زائد تھے۔ مگر اس ہفتے کے دوران اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر میں 33 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کا خسارہ ہوا۔ جس کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کے ذرِمبادلہ ذخائر 14 ارب 33 کروڑ ڈالر کی سطح پر آگئے۔
30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران حکومت نے 8 ارب 15 کروڑ ڈالر سے زائد مالیت کے بیرونی قرضے واپس کیے تھے اور ان کی جگہ پُر کرنے کے لیے بیرونی وسائل سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو موجودہ سال کے دوران بیرونی قرض دینے والے اداروں سے 2 ارب 87 کروڑ ڈالر ملے ہیں جبکہ بجٹ میں اس قرض اور امداد کا تخمینہ 8 ارب ڈالر سے زائد لگایا گیا ہے۔
کسی بھی ملک کی بیرونی ادائیگیوں کی صلاحیت کا اندازہ اس کے زرِمبادلہ ذخائر سے کیا جاتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ مذکورہ ملک کتنے عرصے کی درآمدات کے مساوی زرمبادلہ زخائر کو محفوظ رکھتا ہے اور یہی اس ملک کے دیوالیہ نہ ہونے کی نشانی ہوتی ہے۔ پاکستان کے پاس 4 ماہ کی ادائیگیوں کے لیے زرِمبادلہ ذخائر موجود ہیں۔
پاکستان کے لیے زرِمبادلہ ذخائر اس وقت سب سے اہم ہیں کیونکہ آئندہ چند ماہ میں پاکستان کو تقریباً 11 ارب ڈالر سے زائد ادائیگیاں کرنی ہیں جس سے زرِمبادلہ ذخائر میں نمایاں کمی کا خدشہ ہے اور جس سے پاکستان کے تجارتی اور معاشی رسک میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
روپے کی قدر میں کمی سے پاکستان میں تیار ہونے والی مصنوعات سستی ہوجائیں گی، جبکہ بیرونِ ملک سے پاکستان لائی جانے والی اشیاء کے مہنگا ہونے کا امکان ہے اور اس کا فائدہ زیادہ برآمدات اور کم درآمدات کی صورت میں نکلے گا.
روپے کی قدر میں کمی اسٹیٹ بینک کے ڈیٹا کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مالی سال 2015ء میں پاکستانی کرنسی 3.1 فیصد، 2016ء میں 2.8 فیصد اور 2017ء میں 0.01 فیصد کمی کا شکار ہوئی، مگر موجودہ ماہ کے آغاز پر اچانک پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی کی گئی اور یہ 105.50 سے گر کر 110.50 روپے تک گرگئی۔ اس طرح روپے کی قدر میں ہونے والی کمی تقریباً ساڑھے پانچ فیصد رہی ہے اور خدشہ ہے کہ کرنسی کو بتدریج گراوٹ کی جائے گی۔
پاکستان کو بیرونی وسائل میں مشکلات گرتی ہوئی برآمدات اور بڑھتی ہوئی درآمدات کی وجہ سے تجارتی خسارے کا سامنا ہے تو دوسری طرف بیرونی قرضوں کی ادائیگی بھی مشکل ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں کرنسی کی قدر کو کم کرنے سے صورتحال کو بہتر اور مستحکم کیا جاسکتا ہے۔
روپے کی قدر میں کمی سے پاکستان میں تیار ہونے والی مصنوعات سستی ہوجائیں گی، جبکہ بیرونِ ملک سے پاکستان لائی جانے والی اشیاء کے مہنگا ہونے کا امکان ہے۔ اس عمل سے ایسی مقامی صنعتیں جوکہ سستی درآمدات کی وجہ سے مقابلے کی سکت کھوچکی تھیں اُن میں بھی بہتری ہوگی اور ان کی پیداوار میں اضافے کا امکان ہے۔
جانیے: نمود و نمائش اور اسراف کے معیشت پر اثرات
قدر میں اس کمی کا سب سے زیادہ فائدہ سمندر پار پاکستانیوں کو ہوگا۔ روپے کی سرکاری قدر میں کمی سے اب سمندر پار پاکستانیوں کو 7 فیصد تک اضافی پاکستانی کرنسی مل سکے گی اور اس سے بھی ترسیلات میں اضافے کا رجحان پیدا ہوسکتا ہے۔
پاکستان میں روپے کی قدر میں کمی کو بھی زبیر طفیل مثبت کہتے ہیں، کیونکہ اِس سے نہ صرف برآمدات میں اضافہ ہوگا بلکہ درآمدات میں کمی ہوگی۔ پاکستانی کی برآمدات مسلسل کئی سال سے گراوٹ کا شکار تھیں اور زبیر طفیل کا کہنا ہے کہ مالی سال کے پہلے 5 ماہ میں برآمدات میں 11 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے، جبکہ درآمدات بھی خطرناک سطح پر موجود ہیں اور یہ 60 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہیں۔
افراطِ زر یا قیمتوں میں اضافے کے شرح ٖپاکستان میں عمومی طور پر افراطِ زر درمیانے درجے میں رہتا ہے، مگر گزشتہ چند سال کے دوران ایندھن اور کموڈیٹیز کی عالمی مارکیٹ کریشن کرجانے اور قیمتوں میں تیزی سے گراوٹ نے معیشت میں قیمتوں میں اضافے کی شرح یا افراطِ زر کو کم ترین سطح پر مستحکم رکھا ہوا ہے۔
سال 2017ء بھی افراطِ زر میں کمی کا سال ثابت ہوا۔ جنوری 2017ء میں عام افراطِ زر 3.7 فیصد، اشیاء خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ 2.6 فیصد اور نان فوڈ نان انفلیشن 4.4 فیصد رہا۔ اسی طرح سال بھر انفلیشن رینج باونڈ رہا اور نومبر میں عمومی افراطِ زر 4 فیصد، فوڈ انفلیشن 2.4 فیصد اور نان فوڈ انفلیشن 5 فیصد سے زائد رہا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ دسمبر میں روپے کی قدر میں کمی کے اثرات انفلیشن یا افراطِ زر پر بھی پڑیں گے جس سے افراطِ زر میں اضافے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی سے سب سے زیادہ متاثر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت ہوتی ہیں اور اس میں 7 فیصد تک اضافے کی توقع ہے۔
پاکستان کی معیشت کا جائزہ لیا جائے تو 2017ء مجموعی طور پر ایک بہترین سال ثابت ہوا۔ جس میں ملکی معیشت میں توانائی کے بحران کو کم کرنے میں خاطر خواہ کامیابی ملی مگر ملکی معیشت بیرونی کھاتوں کے خسارے کی وجہ سے زرِمبادلہ ذخائر میں کمی، روپے کی ناقدری کا شکار رہی ہے۔
اس تمام تر صورتحال میں ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے مزید اصلاحات کی ضرورت ہے، جبکہ 2018ء میں سی پیک اور عمومی انفرااسٹرکچر میں اضافے سے ملکی معیشت میں مزید بہتری کے امکانات موجود ہیں۔
راجہ کامران
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔