چیمپیئنز کا سال 2017ء کیسا رہا؟
پاکستان سپر لیگ 2017ء کے پہلے ہی میچ میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے جب ٹورنامنٹ کے آغاز کو دھندلا دیا تھا، تو یوں محسوس ہونے لگا جیسے 7 سال بعد ایک مرتبہ پھر پاکستان کرکٹ اُسی مقام پر واپس آگئی ہے جہاں وہ 2010ء میں لارڈز ٹیسٹ کے بعد پہنچ گئی تھی.
لیکن ماضی کی نسبت بہتر منصوبہ بندی اور بہتر قیادت کی بدولت پاکستان کرکٹ اِس صدمے کو جھیلنے میں کامیاب رہی اور بعد ازاں ویسٹ انڈیز کے خلاف تاریخی ٹیسٹ سیریز جیتنے کے بعد قومی ٹیم نے ون ڈے کرکٹ کی رینکنگ میں آٹھویں نمبر پر ہونے کے باوجود ناقابلِ یقین کارکردگی دکھاتے ہوئے چیمپیئنز ٹرافی کی چیمپیئن بن کر دنیا پر ایک مرتبہ پھر ثابت کر دکھایا کہ پاکستانی ٹیم دنیا کی سب سے 'ناقابل یقین' ٹیم ہے۔
اسپاٹ فکسنگ و کرپشن، پاکستان سپر لیگ کا کامیاب انعقاد، دو سپر اسٹارز کی ریٹائرمنٹ، چیمپیئنز ٹرافی کی شاندار فتح اور ون ڈے و ٹی ٹوئنٹی میں بہترین کارکردگی سے بڑھ کر اِس سال پاکستان کرکٹ کے لیے سب سے بڑی خبر ملک میں طویل عرصے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی و بحالی تھی۔
تو آئیے اتار چڑھاؤ سے بھرپور پاکستان کرکٹ کے ایک اور سال کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔
ٹیسٹ کرکٹ
سال 2017ء ٹیسٹ میچوں کے اعتبار سے قومی ٹیم کے لیے ناکامیوں سے عبارت رہا جہاں ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز میں تاریخی فتح کے باوجود قومی ٹیم سال کا اختتام مثبت انداز میں نہ کرسکی اور کمزور سری لنکن ٹیم کے ہاتھوں اُسے کلین سوئپ کا سامنا کرنا پڑا۔
12 ماہ میں صرف 6 ٹیسٹ میچ کھیلنے والی قومی ٹیم کو سال کے آغاز میں ہی آسٹریلوی سرزمین پر لگاتار چوتھے کلین سوئپ کا سامنا کرنا پڑا۔
دورہ ویسٹ انڈیز
ساڑھے تین ماہ بعد قومی ٹیم 3 ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنے ویسٹ انڈیز پہنچی تو یہ ناصرف پاکستان کے لیے ویسٹ انڈین سرزمین پر ٹیسٹ سیریز جیتنے کا بہترین موقع تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ قومی ٹیم کے دو سب سے تجربہ کار اور عظیم کھلاڑیوں یونس خان اور مصباح الحق کی بھی آخری سیریز تھی۔
پاکستان نے کنگسٹن میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں باآسانی 7 وکٹ سے فتح اپنے نام کی لیکن سیریز کی فیورٹ قومی ٹیم کے لیے دوسرا ٹیسٹ ڈراؤنا خواب ثابت ہوا اور محض 188 رنز کے ہدف کے تعاقب میں پاکستانی ٹیم میچ کے آخری دن صرف 81 رنز پر ڈھیر ہوگئی اور اسے 106 رنز کی بڑی شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اِس شکست کے بعد یوں محسوس ہونے لگا جیسے ویسٹ انڈیز میں سیریز جیتنے کا خواب شاید اس مرتبہ بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔
مصباح الحق اور یونس خان کے کیریئر کے آخری ٹیسٹ میچ میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کی دعوت پر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے اظہر علی کی سنچری کی بدولت 376 رنز بنائے جس کے جواب میں محمد عباس اور یاسر شاہ کی عمدہ باولنگ کے سامنے میزبان ٹیم 247 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔
پاکستان نے دوسری اننگز 174 رنز 8 کھلاڑی آؤٹ پر ڈکلیئر کی اور پہلی اننگز کی برتری کی بدولت میزبان کو میچ اور سیریز میں فتح کے لیے 304 رنز کا ہدف دیا۔
باؤلرز کی شاندار کارکردگی کے سبب ویسٹ انڈیز کے ابتدائی 6 کھلاڑی محض 93 رنز پر پویلین پہنچ گئے تھے اور فتح انتہائی آسان دکھائی دے رہی تھی مگر اس اہم ترین موقع پر روسٹن چیز پاکستان اور فتح کے درمیان حائل ہوگئے۔