جنرل ایوب خان
صدر اسکندر مرزا نے اکتوبر 1958 میں فوج کو ملک کے مختلف حصوں میں تعینات کرتے ہوئے پہلی بار آئین کو معطل کر دیا، جبکہ وزیراعظم فیروز خان نون کو بھی عہدے سے ہٹا دیا، ساتھ ہی انہوں نے ملک میں مارشل لگانے کا اعلان کیا جبکہ جنرل ایوب کو اپنا چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر (سی ایم ایل اے) تعینات کیا تاہم انہیں جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے اس کا برملا ذکر اخبارات کو جاری ایک اعلامیے کے ذریعے بھی کیا۔
بعد ازاں انہوں نے جنرل ایوب کو ہٹانے کے لیے فوج میں اپنے قابل بھروسہ لوگوں کی تلاش شروع کی تاکہ جنرل ایوب خان کو اس عہدے سے ہٹانے کے لیے دباؤ میں لیا جائے، اسی دوران ایوب خان کو ملک کا وزیراعظم بنانے کی ناکام کوشش کی گئی جبکہ انہیں اپنی کابینہ میں ٹیکنوکریٹ کابینہ بنانے کو کہا گیا، تاہم جنرل ایوب خان نے ان کے مذکورہ فیصلے کی بھرپور مخالفت اور مزاحمت کی۔
جب تنازع شدت اختیار کرگیا، تو جنرل ایوب خان نے فوج کو صدارتی محل پر تعینات کرکے اسکندر مرزا کو برطانیہ بے دخل ہونے پر مجبور کر دیا، صدر کو ہٹائے جانے کے معاملے کو عوام میں پذیرائی حاصل ہوئی جبکہ ایئر مارشل اصغر خان نے مارشل لاء کی حمایت کی.
بعد ازاں جنرل ایوب خان نے جنرل موسیٰ کو آرمی چیف مقرر کرتے ہوئے خود کو فوج میں فائیو اسٹار جنرل اور فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے دی، تاہم ناقدین کے مطابق وہ مذکورہ ترقی کے اہل نہیں تھے۔
جنرل ایوب خان نے 1960 میں ریفرنڈم کرایا اور اس میں 95.6 فیصد کامیابی کے بعد صدارتی نظام میں تبدیلیاں کیں اور آئندہ 5 سال کے لیے ملک کے صدر منتخب ہوگئے۔
17 فروری 1960 کو ایوب خان نے ملک کے سیاسی مستقبل کا منظر نامہ وضع کرنے کے لیے ایک کمیشن قائم کیا، جس کی سربراہی چیف جسٹس محمد شہاب الدین کر رہے تھے، اس کمیشن میں مغربی اور مشرقی پاکستان کے نمائندے جبکہ ریٹائرڈ جج، وکلاء، صنعت کار اور دیگر طبقہ زندگی کے افراد شامل تھے۔
کمیشن نے 6 مئی 1961 کو صدر ایوب خان کو ایک رپورٹ پیش کی، جس کا انہوں نے اور ان کی کابینہ نے تفصیلی جائزہ لیا جبکہ کابینہ نے جنوری 1962 میں ملک کے دوسرے آئین کو حتمی منظوری دے دی، مذکورہ آئین کے مسودے پر صدر ایوب خان نے یکم مارچ 1962 کو دستخط کیے اور اسے 8 جون 1962 کو نافذ کردیا گیا، 1962 کا آئین 250 آرٹیکلز پر مشتمل تھا، جسے 12 حصوں اور 3 شیڈول میں تقسیم کیا گیا تھا۔
نئے آئین میں ریاست کو ریپبلک آف پاکستان قرار دیا گیا جبکہ یہ آئین ملک کو وفاقی نظام مہیا کرتا تھا، جس میں ملک کے دونوں حصوں، مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو دو صوبے قرار دیا گیا جہاں علیحدہ صوبائی حکومتیں تشکیل دی جانی تھیں، اس آئین میں بھی قومی اسمبلی کو قانون سازی کا اختیار دیا گیا جبکہ اس کے ارکان کی تعداد 157 کردی گئی اور اسے دونوں صوبوں میں برابر تقسیم کیا گیا، دوسرے آئین میں ملک کا طرز حکومت صدارتی رکھا گیا۔
1962 کے آئین کے مطابق ملک کا صدر 5 سال کے لیے منتخب کیا جانا تھا جبکہ وہ ریاست کا چیف ایگزیکٹو ہوگا اور اس کے پاس ملک کے تمام انتظامی معاملات پر فیصلوں کا اختیار ہوگا، ملک کے دوسرے آئین کی نمایاں خصوصیات میں اس کا تحریری ہونا، وفاقی نظام، صدارتی طرز حکومت، صوبائی حکومتیں، صوبائی قانون سازی، اسلامی قوانین، بنیادی حقوق، عدلیہ کا کردار اور سپریم جوڈیشل کونسل کا قیام شامل تھا۔
اس کے علاوہ ایوب خان کا دور صنعتی اصلاحات اور دیہی ترقی کے حوالے سے ایک بڑی کامیابی تصور کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں ملک کو صنعتی ترقی حاصل ہوئی جبکہ ملک میں سرمایہ دارانہ نظام اور صنعتوں میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کرنے پر زور دیا گیا، اس حوالے سے ملک میں نجی کنسورشیم کمپنیز اور صنعتوں کا قیام عمل میں آیا جبکہ نجی شعبے کے ساتھ ساتھ درمیانے اور چھوٹے درجے کے کاروبار کی حوصلہ افزائی کی گئی، جس کے نتیجے میں ملک میں ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے جبکہ ملک کی معاشی ترقی میں اضافہ ہوا۔
اس کے علاوہ ایوب خان کے دور حکومت میں ملک میں میگا پروجیکٹس قائم کیے گئے، جن میں ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم، بجلی گھر اور دیگر اہم منصوبوں کی تعمیرات اور تکیمل شامل ہے جبکہ 1960 سے 1966 تک ملک کی سالانہ شرح نمو 6.8 فیصد رہی، اس کے ساتھ ساتھ ملک کے دونوں حصوں میں توانائی کو تبدیل کرنے کے بڑے منصوبے تکیمل کو پہنچے جبکہ پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے منگلا ڈیم اور کیپٹی ڈیم کا قیام عمل میں آیا، اس کے علاوہ ایوب خان نے اپنی کابینہ کی تجاویز کے خلاف ملک میں توانائی کے حصول کے لیے جوہری ذرائع کے استعمال کی اجازت بھی دی جس کے بعد ڈھاکا اور کراچی میں دو جوہری پاور پلانٹس لگائے گئے۔
ایوب خان کے دور حکومت میں ملک کی نیوی نے جدید جنگی حکمت عملی کو اپنانے کے لیے آبدوزوں اور دیگر ہتھیاروں کو اپنی بحری بیڑے میں شامل کیا جبکہ ایوب خان نے ملک کی افواج کی صلاحیت میں اضافے کے ساتھ ساتھ خلائی پروگرام کی ابتدا کرتے ہوئے اسپارکو جیسا ادارہ قائم کیا۔
صدر ایوب خان کی حکمرانی کا زوال اس وقت شروع ہوا, جب 1965 میں صدارتی انتخابات کے لیے مشترکہ اپوزیشن جماعتوں نے قائد اعظم کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو امیدوار نامزد کیا اور انہیں کراچی، لاہور سمیت ملک کے مختلف علاقوں سے ایوب خان کے خلاف پزیرائی حاصل ہونا شروع ہوئی، اسی دوران سندھ طاس معاہدے کے باعث ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا جبکہ ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب خان کا نام اس احتجاجی سلسلے کو روکنے کے لیے کراچی میں ہونے والے فسادات کے ساتھ جوڑا جانے لگا جس نے ایوب خان کو مزید مشکلات کی جانب دھکیل دیا۔
ایوب خان نے 1965 میں صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کچھ متنازع اقدامات کیے جن میں خفیہ اداروں نے بھرپور کردار ادا کیا، جس کے باعث انہوں نے فاطمہ جناح کو شکست دی۔
ایوب خان کی خارجہ پالیسی امریکا اور یورپ کی جانب جھکی ہوئی تھی جبکہ انہوں نے سوویت یونین کے ساتھ بہتر تعلقات کو نظر انداز کیا، ان کے دور حکومت میں 1965 میں پاک بھارت جنگ ہوئی جبکہ سوویت یونین کی مدد سے دونوں ممالک کے درمیان تاشقند معاہدہ طے پایا، جس کے بعد ان کی حکومت پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا جبکہ ان کی کابینہ میں شامل ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ایوب خان کی کھل کر مخالفت کرنے لگے۔
ملک میں ایوب خان کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں اور ان کی کابینہ کے ارکان کی جانب سے ان کی پالیسز کی مخالفت کے بعد انہوں نے 1969 میں صدر کے اختیارات اس وقت کے فوج کے کمانڈر جنرل یحییٰ خان کے سپرد کردیئے۔
جنرل ایوب کے دور حکومت میں 7 اکتوبر 1958 سے 25 مارچ 1969 تک وزیراعظم کی نشست خالی رہی۔
جنرل محمد یحییٰ خان
25 مارچ 1969 سے 20 دسمبر 1971
2 سال 8 ماہ 25 دن (1000 دن)
جنرل محمد یحییٰ خان
جنرل یحییٰ خان پاک فوج کے پانچویں سربراہ اور تیسرے صدر مملکت تھے۔
معاہدہ تاشقند کے بعد صدر ایوب خان کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شدت اختیار کرگیا جبکہ 1966 میں مشرقی پاکستان کی سیاسی جماعت عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے شیخ مجیب الرحمن کی جانب سے پیش کیے گئے مطالبات (جو 6 نکات پر مشتمل تھے) نے جلتی پر تیل کا کام کیا.
عوامی لیگ کے رہنما کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور ان نکات کو علیحدگی کے جذبات سے جوڑا گیا جبکہ شیخ مجیب الرحمٰن کو گرفتار کر لیا گیا، اس کے ساتھ ہی مغربی پاکستان میں ایوب خان کے خلاف تحریک نے زور پکڑا اور خطے میں امن و امان کی صورت حال خراب ہونے لگی۔
صدر ایوب خان نے 1966 میں جنرل یحییٰ خان کو بری فوج کا سربراہ بنایا تھا، بعد ازاں ملک میں ان کے خلاف جاری تحریک کے باعث 25 مارچ 1969 کو ایوب خان نے قوم سے خطاب میں اقتدار سے الگ ہونے کا اعلان کیا، 1969 میں ایوب خان کے مستعفی ہونے کے ساتھ ہی جنرل یحییٰ نے صدارت سنبھالی، ملک میں دوسرا مارشل لاء نافذ کرتے ہوئے آئندہ سال عام انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کیا۔
ان کے دور حکومت میں 30 جون 1970 کو اس وقت کے صوبہ سرحد (اب خیبرپختونخوا) اور بلوچستان کی صوبائی حیثیت بحال کر دی گئی، ساتھ ہی سابق ریاست بہاولپور کو پنجاب میں ضم کر دیا اور کراچی کو سندھ کا حصہ قرار دے دیا گیا، اس کے علاوہ مالاکنڈ ایجنسی قائم کی گئی، اس میں سابق سرحدی ریاستوں سوات، دیر اور چترال کو شامل کیا گیا۔
1970 کے اختتام پر ملک میں عام انتخابات کرائے گئے جس میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمٰن نے اکثریت حاصل کی تاہم وہ مغربی پاکستان میں انہیں ایک بھی نشست پر کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔
دوسری جانب ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں پاکستان پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں بھرپور کامیابی حاصل کی تاہم انہیں مغربی پاکستان میں ایک نشست بھی نہیں ملی جبکہ نور الامین کی سربراہی میں پاکستان مسلم لیگ نے ملک کے تقریبا تمام حصوں سے نشستیں حاصل کیں تاہم ان کے پاس حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ نشستیں میسر نہیں تھیں۔
ملک میں حکومت قائم کرنے کے لیے دونوں اہم سیاسی جماعتوں ،پیپلز پارٹی اورعوامی لیگ کے درمیان متعدد مذاکراتی عمل ہوئے تاہم اس کے نتائج حاصل نہ ہوسکے۔
مختلف وقتوں میں اقتدار کی راہداریوں سے یہ بات سامنے آتی رہی کہ جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو یہ نہیں چاہتے تھے کہ مشرقی پاکستان کی اکثریت حاصل کرنے والی جماعت ملک میں حکومت کے قیام میں کامیاب ہو۔
اس دوران مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں سیاسی کشیدگی شدت اختیار کرگئی جبکہ جنرل یحییٰ خان نے اس صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے متعدد کوششیں کیں تاہم حالات مسلسل خرابی کی جانب جارہے تھے۔
16 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان پر بھارتی افواج کی مداخلت اور بنگلہ دیش کے نئی ریاست کے طور پر قیام جبکہ مغربی پاکستان کے محاذ پر پاکستانی افواج کی غیر تسلی بخش کارکردگی کی بنا پر ملک میں فوجی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے۔
20 دسمبر، 1971ء کو جنرل یحیٰی نے اقتدار پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کر دیا اور 8 جنوری 1972 کو انہیں عوامی ردعمل سے بچانے کے لیے نظر بند کر دیا گیا۔
نور الآمین
7 دسمبر 1971 سے 20 دسمبر 1971
(13 دن)
عام انتخابات 7 دسمبر 1971