پاکستان سپر لیگ سیزن تھری میں کونسی ٹیم کمزور اور کونسی مضبوط؟
پاکستان سپر لیگ کے تیسرے ایڈیشن کے ڈرافٹ کی تکمیل کے ساتھ ہی ٹیموں نے اپنے اپنے دستوں کو حتمی شکل دے دی ہے۔ اِس عمل کے بعد ہر جانب سے یہ دعوی سننے کو مل رہا کہ سب سے اچھی ٹیم تو اُنہی کی ہے اور اب کی بار ٹائٹل وہی جیتے گی۔ میرا خیال ہے کہ یہ دعوے بہت حوصلہ افزاء ہیں کیونکہ یہ دعوے بتارہے ہیں کہ ہر ٹیم جیتنے کے لیے ہی میدان میں اترنے کا ارادہ رکھتی ہے اور یہی وہ جوش ہے جو میدان میں مقابلے کو دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
ڈرافٹ کے عمل کی بات کی جائے تو سب سے اہم پہلو یہ دیکھنے کو ملا کہ فرنچائزوں نے بڑے ناموں کو اپنے پاس رکھنے کے بجائے اُن کھلاڑیوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی جو اِس وقت زیادہ اچھی فارم میں ہیں، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جارحانہ بلے بازی کے لیے مشہور اور ٹی20 کرکٹ کے بے تاج بادشاہ تصور کیے جانے والے ویسٹ انڈین اسٹار کرس گیل ناقص فارم اور فٹنس کے سبب کسی بھی ٹیم کی توجہ حاصل نہ کرسکے۔
پھر اِس پورے معاملے میں سب سے اہم پہلو یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ٹیموں نے اُن کھلاڑیوں کے انتخاب کو ترجیح دی جو مکمل سیزن کے لیے دستیاب تھے اور پاکستان میں ہونے والے میچز کو کھیلنے کے لیے پاکستان آنے کے لیے رضامند بھی تھے، کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) اور پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے چئیرمین نجم سیٹھی گزشتہ ماہ یہ اعلان کرچکے ہیں کہ پی ایس ایل کے تیسرے کچھ میچ کراچی میں بھی منعقد کیے جائیں گے۔ اِس حوالے سے اسلام آباد یونائیٹڈ کے کوچ ڈین جونز کا بیان بہت مثبت ہے کہ اگر اُن کی ٹیم فائنل میں پہنچی تو اُن کے تمام غیر ملکی کھلاڑی فائنل کھیلنے پاکستان آئیں گے۔
پاکستان سپر لیگ کا تیسرا سیزن آئندہ سال فروری اور مارچ میں کھیلا جائے گا۔ یہ وہ وقت ہوگا جب 2019ء کے ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائنگ راونڈ کھیلے جارہے ہوں گے جبکہ کچھ ٹیمیں دوطرفہ سیریز میں بھی مصروف ہوں گی، لہٰذا اکثر ٹیموں نے اُنہی ٹیموں کے کھلاڑیوں کو منتخب کیا جو اُس دوران مصروف نہ ہوں یا پھر اُن کی اپنی قومی ٹیم کی جانب سے طلب کیے جانے کا خطرہ کم سے کم ہو۔
مزید پڑھیے: پی ایس ایل3: تمام چھ ٹیموں کے اسکواڈ تشکیل
پی ایس ایل کی کامیابی کو اگر جانچنا ہے تو ہمیں تیسرے سیزن اور پہلے سیزن کا تقابلی جائزہ لینا ہوگا۔ کیونکہ پہلے سیزن کے مقابلے میں اِس بار نہ صرف ٹیموں کے کوچنگ اسٹاف میں چند مزید بڑے ناموں کا اضافہ ہوا وہیں گزشتہ دو ایڈیشنز کی نسبت اِس سال چند مزید بڑے انٹرنیشنل کھلاڑی بھی ٹیموں کا حصہ بنے ہیں جس سے لیگ کی اہمیت اور ٹیموں کے درمیان مسابقت میں مزید اضافہ ہوگا۔
اگر ہمارا دعوی اب بھی آپ کو محض دعوی لگ رہا ہے تو آئیے ایک نظر تمام ٹیموں کے اسکواڈ پر ڈالتے ہیں کہ انہوں نے آئندہ ایڈیشن کے لیے اپنے اسکواڈ کو کس طرح ترتیب دیا ہے۔
ملتان سلطان
سب سے پہلے ذکر پاکستان سپر لیگ میں اپنا ڈیبیو کرنے والی ٹیم ملتان سلطان کا کرنا اِس لیے ضروری ہے کہ سب کو ہی شدت سے انتظار تھا کہ وہ کونسی ٹیم ہوگی جو اِس نئے سیزن میں شامل ہوگی۔ اگر اِس ٹیم کا بغور جائزہ لیا جائے تو بظاہر یہ اسکواڈ کافی متوازن اور تجربے سے مالا مال نظر آتا ہے۔
اگر بیٹنگ لائن کی بات کی جائے تو ملتان سلطان نے کپتان شعیب ملک، جارحانہ بلے باز کیرون پولارڈ اور سینئر اور انتہائی تجربہ کار کمار سنگاکارا کو اپنے پاس بلایا تو وہیں جنید خان، محمد عرفان اور جنوبی افریقی اسپنر عمران طاہر پر مشتمل اِس ٹیم کی مضبوط باولنگ لائن نے بھی دیگر ٹیموں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجائی
ڈرافٹ میں ویسٹ انڈین بلے باز ڈیرن براوو کا انتخاب متعدد لوگوں کیلئے حیرانی کا سبب ہوگا لیکن اسٹائلش ویسٹ انڈین بلے باز کی مکمل سیزن کیلئے دستیابی اور ذمے دارانہ بیٹنگ کے سبب اِس انتخاب کو کسی بھی طور بُرا انتخاب قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اگر دیکھا جائے تو اوپننگ میں احمد شہزاد اور کمار سنگاکارا کے بعد مڈل آرڈر میں ڈیرن براوو، شعیب ملک، صہیب مقصود اِسے ایک مضبوط بیٹنگ لائن بناتے ہیں۔
آل راؤنڈرز میں کیرون پولارڈ اور سہیل تنویر ٹیم کی مدد کو موجود ہوں گے جس کے بعد جنید خان، محمد عباس، محمد عرفان اور عمران طاہر پر مشتمل باؤلنگ اٹیک حریف بلے بازوں کا امتحان لینے کے لیے تیار ہوگا۔
ملتان سلطان کی جانب سے سب سے دلچسپ انتخاب 22 سالہ ویسٹ انڈین بلے باز نکولس پووران ہیں جو ایک ٹی20 اسپیشلسٹ اوپنر ہیں اور جارحانہ بیٹنگ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ گوکہ پووران اپنے ٹیلنٹ سے اب تک انصاف کرنے میں ناکام رہے ہیں تاہم پی ایس ایل میں عمدہ کارکردگی سے وہ اپنے کیریئر پر سیاہ بادلوں سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔
ویسے تو اِس ٹیم کے حوالے سے کافی بات ہوگئی، لیکن میں یہاں خصوصی ذکر احمد شہزاد کا کرنا چاہوں گا جو گنجائش سے زیادہ مواقع ملنے کے باوجود بھی تسلسل سے کارکردگی دکھانے اور سلیکٹرز کے اعتماد پر پورا اترنے میں ناکام رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈرافٹنگ کے مرحلے میں ٹیمیں اِنہیں لینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی نظر آئیں لیکن ملتان سلطان نے اُن پر اعتماد ظاہر کرتے ہوئے صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن اوپننگ بلے باز کے لیے یہ ایونٹ کیریئر کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اگر وہ اِس مرتبہ بھی ناکامی سے دوچار ہوئے تو شاید آئندہ کوئی اور فرنچائز اِن پر اعتماد نہ کرسکے۔