آزادی کپ اور پاکستان میں کرکٹ کا مستقبل
پاکستان بین الاقوامی کرکٹ سے اب اتنے عرصے تک محروم رہا ہے کہ اس کے نوجوانوں کو اپنی سرزمین پر فتح کا ذائقہ ہی بھول چکا ہے۔ اسٹیڈیم اب شاید ہی کبھی روشن ہوتے ہیں، اور وہ اسٹینڈز جو کبھی شائقین اور پرچموں سے بھرپور ہوتے تھے، اب خالی نظر آتے ہیں۔
اپنے ملکی شائقین کی جانب سے حوصلہ افزائی کی امید میں ہمارے کھلاڑیوں کو پورا سال دوسرے ممالک تک جانا پڑتا ہے۔
وقتاً فوقتاً کسی نہ کسی ہوم سیریز کے ملک میں انعقاد کی خبریں آتی رہتی ہیں مگر کوئی بھی منصوبہ پایہءِ تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ اب، آٹھ طویل سالوں کے بعد، پاکستان آزادی کپ 2017 کی میزبانی کرنے جا رہا ہے۔ یہ سیریز شاید بین الاقوامی کرکٹ کی پاکستان واپسی میں معاون ثابت ہو۔
پاکستان تین ٹی 20 میچز میں آئی سی سی ورلڈ الیون ٹیم کا سامنا کرے گا۔ میچز لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں 12، 13 اور 15 ستمبر کو کھیلے جائیں گے۔
دونوں ٹیموں پر ایک نظر
مہمان ٹیم میں ٹی 20 کے ماہر کھلاڑیوں کی ایک اچھی ورائٹی موجود ہے۔ فاف ڈو پلیسی کی قیادت میں اس ٹیم میں دنیائے کرکٹ کے بڑے ستارے بشمول ہاشم آملہ، جارج بیلی، ڈیرن سیمی، عمران طاہر، تمیم اقبال، پال کولنگ ووڈ، بین کٹنگ، گرانٹ ایلیئٹ، سیموئل بیڈری، ڈیوڈ ملر، مورن مورکل، تھیسارا پیریرا اور ٹم پین شامل ہیں۔
مہمان ٹیم بیٹنگ کے شعبے میں کافی مضبوط دکھائی دے رہی ہے، کیوں کہ اس میں چھے ماہر بلے باز اور پانچ آل راؤنڈرز شامل ہیں۔ ہاشم آملہ، ڈیوڈ ملر اور تمیم اقبال وہ چند بڑے نام ہیں جو لاہور کی بیٹنگ وکٹ کا بھرپور استعمال کریں گے۔
اپنے شہرِ پیدائش میں پہلی بار کھیلنے والے عمران طاہر بلاشبہ اس جانب کے سب سے تباہ کن باؤلر ہیں۔ مگر ٹیم میں جنوبی افریقا کے مورن مورکل کو چھوڑ کر ایک حقیقی فاسٹ باؤلر کی کمی ہے۔
پاکستان کی ٹی 20 ٹیم بھی فخر زمان، سرفراز احمد، بابر اعظم اور شعیب ملک جیسے ماہر بلے بازوں کے ساتھ اتنی ہی خطرناک دکھائی دے رہی ہے۔ شاداب خان اور رومان رئیس جیسے نوجوانوں کو احمد شہزاد کے ساتھ کھیل میں اہم کردار حاصل ہوگا جو کافی عرصے سے متاثر کن کارکردگی نہیں دکھا سکے ہیں۔
پاکستان گیند کے ساتھ جادو جگانے کے لیے محمد عامر اور حسن علی پر بھروسہ کرے گا۔ عماد وسیم، عامر یامین اور محمد نواز جیسے آل راؤنڈرز تجربے میں نسبتاً کم عمر ہیں مگر شاندار کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ محمد حفیظ اور وہاب ریاض کو ٹی 20 اسکواڈ سے باہر رکھ کر عمر امین اور سہیل خان کے لیے جگہ بنائی گئی ہے۔
افسوسناک بات ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور ممکنہ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے پاکستان میں کرکٹ ایک طویل عرصے تک معطل رہا ہے۔ یہ خشکی 2015 میں زمبابوے کے دورہءِ پاکستان کے ساتھ کچھ دیر کے لیے ختم تو ہوئی، مگر یہ دورہ مزید ہلچل مچانے میں اور دنیا کی دیگر ٹیموں کو پاکستان آنے پر قائل کرنے میں ناکام رہا۔
اس دفعہ حالات سازگار لگ رہے ہیں کیوں آئی سی سی پہلے سے کہیں زیادہ دلچسپی لیتی دکھائی دے رہی ہے۔ ٹیسٹ میچ کھیلنے والے 7 ممالک کے 14 کھلاڑی اس سیریز کا حصہ ہوں گے جبکہ آئی سی سی کے رچی رچرڈسن میچ ریفری ہوں گے۔
ویسے تو سیریز کو بین الاقوامی حیثیت حاصل ہے، مگر ایک پاکستانی شائق کے لیے اس سیریز کی اہمیت ہار جیت سے کہیں زیادہ ہے۔ آٹھ سال میں پہلی بار پاکستان ایک اہم بین الاقوامی سیریز کی میزبانی کر رہا ہے جو خود ایک بہت بڑی جیت ہے۔
اس سیریز میں پی سی بی کے پاس مہمانوں پر ایک اچھا تاثر چھوڑنے کا موقع ہوگا جو ہمارے مستقبل کی کامیابی پر مہر ثبت کر سکتا ہے۔ اگر سب کچھ صحیح رہا، تو اگلے چند ماہ میں سری لنکا اور ویسٹ انڈیز ہمارے ملک کا دورہ کر سکتے ہیں۔ اس سیریز پر تمام نظریں جمی ہیں اور اس سے ہماری تمام امیدیں وابستہ ہیں۔
یہ سیریز ملک میں مزید پی ایس ایل میچز کے انعقاد کی راہ بھی ہموار کر سکتی ہیں۔ گذشتہ سیزن میں ہم نے دیکھا کہ اہم کھلاڑیوں نے لاہور میں لیگ کا فائنل کھیلنے سے انکار کر دیا تھا۔ امید ہے کہ اگلے سیزن میں ملک میں مزید میچز کا انعقاد ہوگا اور زیادہ تعداد میں غیر ملکی کھلاڑی اس ٹورنامنٹ کا حصہ بنیں گے۔
بین الاقوامی کرکٹ کی ملک واپسی کا مرحلہ تیز تر کرنے کے ساتھ ساتھ یہ سیریز مقامی کھلاڑیوں کو اپنے میدانوں پر بین الاقوامی کرکٹ کا تجربہ حاصل کرنے میں بھی مدد دے گی۔ یہ نوجوان اپنے میدانوں کی چمک دھمک اور جوش و جذبے کے مستحق ہیں، یہ تجربہ اعتماد میں بھرپور اضافہ کرتا ہے۔
حال ہی میں ایک بڑا آئی سی سی ٹائٹل جیتنے کے بعد پاکستانی ٹیم اچھا کھیل پیش کرنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ پرعزم ہے۔ یہ اہم ہے کہ پاکستان اپنے مکمل جذبے کے ساتھ کرکٹ کھیلے تاکہ دنیا کو بے خوفی اور بلند ہمتی کا پیغام جائے۔
حال ہی میں ایک لیگ سیزن کھیل چکنے کے بعد امید ہے کہ کھلاڑی اس بڑی سیریز کے لیے فارم میں وہں گے۔ ہمیں دنیا کو یہ باور کروانا ہوگا کہ اس میدان میں ہماری بالادستی کو زنگ نہیں لگا ہے، اور بحیثیت ملک و قوم ہم مزید کرکٹ کے لیے بے تاب ہیں۔
مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کو ایسی کرکٹ کھیلنی ہوگی جو اس نے پہلے کبھی نہیں کھیلی، ویسی کرکٹ جس میں ہمارے شاندار ماضی اور ہمارے تابناک مستقبل کی جھلک دکھائی دے۔
روحہ ندیم کویت میں رہتی ہیں اور فری لانس کرکٹ لکھاری ہیں۔
کویت کی قومی انڈر 19 ویمن ٹیم کی نمائندگی کرنے کے بعد اب وہ الفاظ کے ذریعے کرکٹ سے منسلک ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: RohaNadym@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔