جیت کے جشن میں کمزوریوں کو مت بھولیں
جو ٹیم کچھ دن پہلے تک آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی میں کوالیفائی کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی، آج کپ اٹھائے اپنے وطن واپس لوٹی ہے۔ اس شاندار جیت نے ایک بار پھر یہ بات ثابت کر دی ہے کہ پاکستان ایک ناقابل یقین ٹیم ہے جو کہیں بھی کسی بھی وقت سب کو سرپرائز کر سکتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ جیت بہت سی خامیوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ بعض لوگوں کی رائے میں اس جیت کو محض پاکستان کی اچھی قسمت کہا جا سکتا ہے کیونکہ پہلے میچ میں ہندوستان سے شکست کے بعد جنوبی افریقہ سے جیت میں بارش کا بہت بڑا ہاتھ تھا اور سری لنکا کے خلاف ہماری باؤلنگ میں بہتری تو نظر آئی مگر ہماری بیٹنگ لائن اپ ان کے عام سے باؤلنگ اٹیک کے سامنے بھی کافی مشکلات کا شکار نظر آئی۔
یہ قبل ازوقت ہوگا کہ ابھی سے پاکستانی نوجوان کھلاڑیوں کو انگلینڈ یا ہندوستان کے کھلاڑیوں کے ہم پلہ سمجھا جائے۔ نوجوان اوپنر فخر زمان ایک اچھے اور پر اعتماد بیٹسمین کی حیثیت سے ٹیم میں تو شامل ہوئے ہیں، مگر ہندوستان کے ٹاپ آرڈر بیٹسمین تجربے اور تکنیک میں ابھی بھی ان سے کہیں اوپر ہیں۔
ہندوستان کو بڑے میچ میں ہرانے کے بعد بھی ہندوستانی ٹیم کو کسی طور پر بھی ہلکا نہیں لیا جا سکتا، ان کے بلے باز کسی بھی میچ کو اپنے حق میں کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس جیت کے بعد بھی اگر دیکھا جائے تو ہمارا مڈل آرڈر اس طرح سے مؤثر نہیں ہے جس طرح ہونا چاہیے۔ آئے دن مڈل آرڈر میں تبدیلیاں اس بات کی واضح مثال ہے۔
پڑھیے: جیت گئے!
خدانخواستہ اس فائنل میں اگر ہندوستان کی بیٹنگ چل جاتی تو پہلی اننگ کے آخری اوورز میں سلو رن ریٹ ہی ہماری شکست کی وجہ بنتا۔ اگر ہماری اوپننگ اچھا آغاز نہ دے پاتی تو شعیب ملک، محمد حفیظ، عماد وسیم اور سرفراز احمد پر پوری طرح بھروسہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ میرے خیال میں سرفراز احمد کا عماد وسیم کو خود سے پہلے بھیجنے کا فیصلہ ٹھیک نہیں تھا، کیونکہ ٹیم کے کپتان خود ایک بیٹسمین بھی ہیں، پھر بھی ایک آل راؤنڈر کو اتنے بڑے میچ میں فوقیت دینا ایک بہت بڑی غلطی بھی ثابت ہو سکتی تھی.
عماد وسیم کی آخری اوورز میں غیر ذمہ دارانہ بیٹنگ اور غلط شاٹس نے اس چیز کو ثابت بھی کیا۔ دوسری جانب ہندوستان کے آل راؤنڈر ہاردک پانڈیا کو دیکھا جائے تو انہوں نے اتنے پریشر میں بھی بہت ہی گیندوں پر ففٹی اسکور کی اور محض دو اوورز میں رن ریٹ کافی بہتر بنا دیا۔ اسی طرح نوجوان کھلاڑی حسن علی اس ٹورنامنٹ میں گولڈن بال کے حقدار تو بنے مگر ابھی بھی ان کو اپنے آپ کو ٹاپ ٹین باؤلرز کی صف میں لانے کے لیے خاصی محنت درکار ہوگی۔
بلاشبہ محمد عامر ایک اچھا باؤلر ہے مگر پچاس اوورز کے میچ میں اس کے حصے میں محض دس اوورز آتے ہیں۔ جنید خان کی اس ٹورنامنٹ میں کارکردگی تو اچھی رہی ہے مگر ماضی میں فٹنس مسائل اور خراب کارکردگی کی وجہ سے وہ ایک طویل عرصہ ٹیم سے باہر بھی رہے ہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کی فتح بہت بڑی فتح ہے مگر اس فتح کے سائے میں ہمیں ان تمام خامیوں پر بھی نظر رکھنی ہوگی۔ اس جیت کے بعد سب سے بڑا چیلنج اس تسلسل کو برقرار رکھنا ہے۔ اگر پاکستان کے موجودہ پلیئنگ الیون کو دیکھا جائے جس نے یکے بعد دیگرے اپنی ٹیم کو فتوحات دلوائی ہیں، تو یہ ایک ایسی ٹیم نظر آئے گی جس میں ہر شعبے میں بھرپور طریقے سے لوہا منوانے کی صلاحیت موجود ہے، مگر اسے بھرپور توجہ کی اشد ضرورت ہے اور ابھی بھی ایک لمبا سفر طے کرنا باقی ہے۔
اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ کرکٹ بورڈ کی قومی ٹیم کے لیے گیارہ کھلاڑیوں کی تلاش ختم ہو گئی ہے۔ یہ سب کریڈٹ پی ایس ایل اور ملک میں ہونے والے ڈومیسٹک کرکٹ ٹورنامنٹس کو بھی جاتا ہے جہاں سے یہ نوجوان کھلاڑی ابھر کر آئے۔
ایسے تمام نوجوان کھلاڑیوں نے پرفارم کر کے دکھایا ہے جن کی کرکٹ کا آغاز ہی ابھی ہوا ہے، جو کم از کم دو یا تین ورلڈ کپ کھیل سکتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی اب ذمہ داری بنتی ہے کہ ان نوجوان کھلاڑیوں پر پوری طرح سے بھروسہ کرے اور ان کی کھیل میں مہارت کو مزید نکھارنے کے ساتھ ساتھ ان کے کردار اور فٹنس پر خصوصی توجہ دی جائے۔
پڑھیے: نیوی کا 'فخر' جو ایڈم گلکرسٹ بن سکتا ہے
کاکول اکیڈمی میں آرمی سپروائزرز کی نگرانی میں فٹنس کے مسائل کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے جیسا آپ نے ماضی میں کیا۔ اگر پاکستان کا باؤلنگ اٹیک ایک مضبوط اٹیک سمجھا جا رہا ہے تو اس کو مزید مؤثر اور زیادہ عرصہ لے کر چلنے کے لیے فٹنس انتہائی اہم ہے۔
ٹیم کے کسی اہم کھلاڑی کو معمولی کمر درد کی بنیاد پر محض ایک میچ کے لیے آرام دینا بظاہر بہت معمولی سی بات معلوم ہوتی ہے جیسے ہم نے انگلینڈ اور پاکستان کے سیمی فائنل میں عامر کو دیکھا، مگر بعض اوقات ایسے اقدام پورے میچ اور پورے ٹورنامنٹ میں کارکردگی کا رخ موڑ سکتے ہیں۔ اسی لیے ہمیں فٹنس کو اپنی پہلی ترجیح بنانی ہوگی اسی کے ذریعے فیلڈنگ کے میدان میں بھی اپنے آپ کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے جس میں پاکستان ٹیم ہمیشہ سے کمزور نظر آئی ہے۔
دوسری انتہائی اہم بات یہ ہے کہ ان کھلاڑیوں کو اب متحدہ عرب امارات کی صحرائی پچوں سے جس قدر ممکن ہو سکے دور رکھا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے میدانوں پر بین الاقوامی کرکٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہوم سیریز ان ممالک میں کروانا مجبوری ہے، مگر ایسے اقدامات کرنا بھی مشکل نہیں جن کے ذریعے ان میدانوں کو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے میدانوں اور پچوں کے معیار کے مطابق تیار کیا جا سکے۔
ڈومیسٹک کرکٹ کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل لیگز اور کاؤنٹی کرکٹ میں بھی کھلاڑیوں کو بھرپور سپورٹ کیا جائے تا کہ ان میں خود اعتمادی آئے اور بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل کر سیکھنے کا موقع ملے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اتنے نوجوان کھلاڑی ایک ہی وقت میں پاکستان ٹیم کا حصہ بنے ہیں اور مؤثر ثابت ہو رہے ہیں۔ کرکٹ بورڈ کے لیے ضروری ہے کہ ان کو کسی بھی قسم کی دھڑا بندی سے دور رکھا جائے۔
اگر ان تمام شعبوں پر ایک ایک کر کے مسلسل توجہ دی جائے، ٹیم کا فٹنس انسٹرکٹر اپنے آپ کو ٹیم کے کپتان جتنا ذمہ دار سمجھے، ٹیم کے کوچ اور کرکٹ بورڈ کی نظر میں سب کھلاڑی برابر ہوں تو وہ دن دور نہیں کہ جب دنیا میں ناقابل یقین ٹیم کے نام سے پہچانے جانی والی ٹیم قابل بھروسہ بھی ثابت ہو اور دنیا کی نظر میں ایک مضبوط ٹیم بن کر ابھرے گی۔
وقاص علی چوہدری ڈان نیوز اسلام آباد میں کرنٹ افیئرز پروڈیوسر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔