پاکستان

’تاریخ میں پہلی بار ملکی معیشت کا حجم 300 ارب ڈالرز سے متجاوز‘

رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کی شرح نمو 5.28 فیصد رہی، وزیرخزانہ اسحٰق ڈار

اسلام آباد: مالی سال 17-2016 کی اقتصادی جائزہ رپورٹ وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے جاری کردی جس کے مطابق رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کی شرح نمو 5.28 فیصد رہی۔

خیال رہے کہ مالی سال 17-2016 کے لیے جی ڈی پی کی شرح نمو کا ہدف 5.7 فیصد مقرر کیا گیا تھا جو حاصل نہیں کیا جاسکا جبکہ آئندہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی کا ہدف 6 فیصد مقرر کیا جائے گا۔

معیشت کی کارکردگی

وزیر خزانہ نے بتایا کہ پاکستان کی جی ڈی پی میں انڈسٹری کا حصہ 21 فیصد، زراعت 20 اور سروسز (خدمات) کا حصہ تقریباً 60 فیصد رہا۔

رواں مالی سال کے دوران صنعتی شعبے کی شرح نمو 5.02 فیصد رہی جبکہ زراعت کی 3.46 اور سروسز کی شرح نمو 5.98 رہی جو گزشتہ تین برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 برس میں پہلی بار شرح نمو 5.28 فیصد کی سطح پر آئی ہے جبکہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت اور بین الاقوامی اداروں کے جائزوں کے مطابق پاکستان کی اقتصادی شرح نمو اب بھی کم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اقتصادی سروے پیش، حکومت معاشی ترقی کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام

اسحٰق ڈار نے بتایا کہ توانائی کی پیداوار میں گذشتہ برسوں کے مقابلے میں اضافہ ہوا جبکہ انھوں نے بتایا کہ ترقی کی شرح 5 فیصد سے بڑھ گئی ہے اور ہم نے 10 سال بعد یہ ترقی حاصل کی ہے۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ تاریخ میں پہلی بار ملکی معیشت کا حجم 300 ارب ڈالرز سے تجاوز کر گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ بجٹ میں کسانوں کے لیے کھاد، بجلی اور دیگر اشیا میں سبسڈی بھی دی جائے گی۔

اسحٰق ڈار کے مطابق ’ہم نے یوریا کھاد کی قیمت کم کی اور فی بوری قیمت 1400 روپے پر لے گئے‘، وزیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ زرعی ترقی کی شرح میں وزیراعظم کے کسان پیکج نے اہم کردار ادا کیا۔

تعمیراتی شعبہ

وزیر خزانہ نے بتایا کہ رواں مالی سال کے دوران تعمیراتی شعبے میں 9.05 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ یہ 13-2012 میں 1.08 فیصد، 14-2013 میں 5.96 فیصد، 15-2014 میں 7.26 اور 16-2015 میں 14.60 فیصد تھا۔

زراعت

وزیر خزانہ نے کہا کہ آئندہ بجٹ میں کسانوں کے لیے کھاد، بجلی اور دیگر اشیا میں سبسڈی بھی دی جائے گی۔

رواں مالی سال کے دوران زراعت کے شعبے میں 3.46 فیصڈ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

اسحٰق ڈار کے مطابق ’ہم نے یوریا کھاد کی قیمت کم کی اور فی بوری قیمت 1400 روپے پر لے گئے‘، وزیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ زرعی ترقی کی شرح میں وزیراعظم کے 341 ارب روپے کے کسان پیکج نے اہم کردار ادا کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اہم زرعی اجناس جن میں گندم،چاول، گنا اور مکئی شامل ہیں، ان کی پیداوار میں 4.12 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ رواں مالی سال کے دوران گندم کی پیداوار 25.75 ملین ٹن رہی جبکہ کپاس کی پیداوار 10.7 ملین بیلز رہی حالانکہ پاکستان کی اپنی ضرورت 14 ملین بیلز ہے۔

گزشتہ برس گنے کی پیداوار 65.48 ملین ٹن تھی جو رواں برس 73.61 ملین ٹن رہی۔

انہوں نے بتایا کہ رواں مالی سال 473 ارب روپے کے زرعی قرضے جاری ہوئے جبکہ سال کے اختتام تک زرعی قرضوں کا 700 ارب روپے کا ہدف حاصل کرلیا جائے گا۔

سروسز

وزیر خزانہ نے کہا کہ سروسز کے شعبے میں رواں سال 5.98 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور گزشتہ برس کے مقابلے میں مجموعی قومی پیداوار میں سروسز سیکٹر کا حصہ 2 فیصد بڑھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کی کئی معیشتیں ایسی ہیں جو چلتی ہی سروسز پر ہیں اور پاکستان میں اس شعبے نے اپنا حصہ بڑھا لیا ہے جو خوش آئند بات ہے۔

ہول سیل اینڈ ری ٹیل ٹریڈ میں رواں مالی سال کے دوران 6.82 فیصد اضافہ ہے جو گزشتہ تین مالی سالوں سے زیادہ ہے۔

اس کے علاوہ فنانس اینڈ انشورنس سیکٹر میں 10.77 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور جی ڈی پی میں سروسز کا حصہ ان ہی شعبوں کی بہتر کارکردگی کی وجہ سے بڑھا ہے۔

بجٹ و تجارتی خسارہ / مہنگائی

وزیر خزانہ نے بتایا کہ حکومت نے بجٹ خسارہ 3.8 فیصد تک رکھنے کا ہدف کامیابی سے حاصل کیا جو 3.7 فیصد رہا۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت تجارتی خسارے کو 20.4 ارب روپے کی حد پر روکنے میں ناکام رہی اور اقتصادی جائزے میں شامل عرصے کے دوران تجارتی خسارہ 24 ارب روپے رہا۔

اسحٰق ڈار کے مطابق حکومت نے ہدف رکھا تھا کہ پانچ برس کے دوران صارف اشاریہ قیمت (سی پی آئی) کو 6 فیصد سے زیادہ نہیں بڑھنے دیں گے اور رواں مالی سال سی پی آئی 4.09 فیصد رہی۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ سی پی آئی کا تعلق براہ راست افراط زر سے ہے لہٰذا حکومت اسے قابو میں رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ جولائی 2016 سے اپریل 2017 تک مہنگائی کی شرح تسلی بخش رہی، فوڈ آئٹمز میں مہنگائی کی شرح 3.86 فیصد جبکہ نان فوڈ آئٹمز میں مہنگائی کی شرح 4.25 فیصد رہی۔

انہوں نے بتایا کہ رواں مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 7.25 ارب ڈالر تک جاپہنچا ہے جبکہ سال کے اختتام تک یہ جی ڈی پی کے 2.7 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔

ترسیلات زر، سرمایہ کاری

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال کے 10 ماہ کے دوران 15.6 ارب ڈالر رہی جبکہ توقع ہے کہ یہ 19.5 ارب ڈالر کی سطح پر پہنچنے کی توقع ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر 21 ارب ڈالر کے قریب پہنچ گئے ہیں۔

اسحٰق ڈار نے بتایا کہ رواں مالی سال کے دوران براہ راست بیرونی سرمایہ کاری ایک ارب 730 ارب ڈالر رہی جبکہ سال کے اختتام تک براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 2.58 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔

رواں برس پبلک پرائیوٹ سرمایہ کاری کا کل حجم 5026 ارب روپے رہا۔

انھوں نے بتایا کہ عالمی بینک آئندہ سال پاکستان کے جی ڈی پی کا نیا طریقہ کار متعارف کرائے گا۔

بے روزگاری

بے روزگاری کے اعداد و شمار بتاتے ہوئے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے بتایا کہ اس وقت ملک میں بے روزگاری کی شرح 5.9 فیصد ہے، انہوں نے کہا کہ یہ 2015 تک کے اعداد و شمار ہیں۔

غربت کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ 2002 میں ملک کی 34.5 فیصد آبادی خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور تھی جبکہ 2014 کے اعداد و شمار کے مطابق 9.5 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔

فی کس آمدنی

اسحٰق ڈار کے مطابق سالانہ فی کس آمدنی گزشتہ مالی سال 1333 ڈالر تھی جبکہ رواں مالی سال یہ 1629 ڈالر رہی۔

انہوں نے کہا کہ رواں برس فی کس آمدنی میں 22 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ٹیکس ریونیو رواں برس 13.1 فیصد رہا۔

قرضوں کا حجم

وزیر خزانہ نے بتایا کہ 2013 میں ملکی قرضے 14318 ارب روپے تھے جبکہ مارچ 2017 تک ملکی قرضے 20872 ارب روپے ہوگئے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان میں جون 2014 میں آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ ہوا، جس میں مسلح افواج کی خدمات قابل تعریف ہیں، نائن الیون کے بعد ایک فون کال پر لوگ بچھ گئے تھے، لیکن ہم نے دنیا کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے۔

انھوں نے بتایا کہ اس سال بھی مسلح افواج کے لیے 90 سے 100 ارب روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ جس میں متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو وغیرہ بھی شامل ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ’ہمیں توقع ہے کہ پاکستان میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا کیوں کہ ہماری افرادی قوت چین سے سستی ہے‘۔

برآمدات و درآمدات

اسحاق ڈار کے مطابق رواں مالی سال کے دوران بھی ملکی برآمدات اور درآمدات کے درمیان عدم توازن برقرار رہا اور جولائی 2016 تا اپریل 2017 کے دوران ملکی درآمدات کا حجم 37.84 ارب ڈالر جبکہ برآمدات کا حجم 17.91 ارب ڈالر رہا۔

انہوں نے کہا کہ سال کے آخر تک درآمدات 45.48 ارب ڈالر اور برآمدات کا حجم 21.76 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔

برآمداتی حجم میں کمی کی وجہ بتاتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ چونکہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے لہٰذا ان اشیاء کی قیمتوں میں بھی کمی ہوئی ہے جو پاکستان برآمد کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ برآمدات میں اضافے کے لیے حکومت کی نظریں آئی ٹی ایکسپورٹس پر ہیں اور اس مقصد کے لیے ہم نے کوریا کے اشتراک سے اسلام آباد میں آئی ٹی پارک کا اعلان کیا ہے جبکہ کراچی اور لاہور میں بھی یہ ماڈل اپنایا جائے گا۔

خیال رہے کہ مالی سال 18-2017 کا وفاقی بجٹ 26 مئی (کل) پیش کیا جائے گا جس میں آئندہ مالی سال کے اخراجات کی تفصیلات شامل ہوں گی۔