تمام تر دشواریوں کے باوجود افغانستان کا یادگار سفر
تمام تر دشواریوں کے باوجود افغانستان کا یادگار سفر
ہماری ملاقات اسلام آباد ایئرپورٹ کے آمد ہال میں سامان کے بیلٹ کے پاس ہوئی۔ نہیں، ہم کسی پرواز سے آنے والے مسافر نہیں تھے بلکہ ہم تو روانگی والے مسافر تھے جن کی پرواز آخری منٹ پر منسوخ کر دی گئی تھی۔ وجہ ہمیں خراب موسم بتائی گئی تھی مگر ماحول تو کچھ اور ہی پیغام دے رہا تھا۔
دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات اس سے پہلے اس قدر کشیدہ نہیں ہوئے تھے۔ زمینی سرحدیں ہفتوں طویل بندش کے بعد ابھی ہی دوبارہ کھولی گئی تھیں۔ ایسا محسوس ہوا کہ خراب موسم سے کہیں زیادہ خراب حالات درجنوں مسافروں کی دشواری کا سبب بنتے ہیں۔
ہمارے پاسپورٹس پر ایگزٹ اسٹیمپس کو خارج کروانے اور پی آئی اے دفتر کی طرف سے پرواز کی منسوخی کے لیے دستاویزات لینے کے بعد ہمیں بیلٹ سے اپنا سامان اٹھانے کی ہدایت کی گئی۔
اس وقت ایک ساتھی مسافر نے مجھ سے پوچھا کہ میں افغانستان کس سلسلے میں جارہا ہوں۔ کیا کسی کاروبار کے سلسلے میں؟ میں نے جواب دیا نہیں، میں تو وہاں سیر کی غرض سے جا رہا ہوں۔
انہوں نے حیرانگی کے ساتھ مجھے وہاں ہرگز نہ جانے کا مشورہ دیا۔ جب میں نے ان سے کہا کہ آپ بھی تو وہیں جا رہے تھے، تو انہوں نے بتایا کہ وہ وہاں پاکستانی سفارت خانے کے ایک سینئر افسر ہیں۔
انہوں بتایا کہ انہیں وہاں پھنسے اور اغوا شدہ پاکستانیوں کی مدد کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ افسوس کہ یہ ان کی ملازمت کا حصہ تھا۔
ایک پاکستانی سفارتکار کی جانب سے سختی کے ساتھ خبردار کیے جانے اور اس کے ساتھ افغانستان میں سفری خطرات کے بارے میں آگاہی کی وجہ سے میں بھاری دل کے ساتھ وہاں نہ جانے کا فیصلہ تقریباً کر چکا تھا۔
یہ میری اس ملک میں جانے کی دوسری ناکام کوشش ہوگی، جو اسلام آباد، جہاں میں کئی سالوں سے رہائش پذیر ہوں اور کام کرتا ہوں، سے محض 300 کلومیٹرز دور ہے۔ کوئی ایسا شخص جو سیر و سیاحت کو بے انتہا پسند کرتا ہے، اس شخص کی سفری تاریخ میں ایسی کمی کس طرح قابل قبول ہوگی؟ بلکہ باعث شرمندگی ہوگی۔
میں نے پہلی بار افغانستان 1978 کے سرخ انقلاب کے تھوڑے عرصے بعد 1979 میں طورخم بارڈر سے دیکھا تھا۔ ملک میں لاک ڈاؤن جاری تھا اور وہاں جانے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
چند سالوں بعد میں نے ایک بار پھر افغانستان جانے کی کوشش کی۔ اس وقت میں ایران میں تھا اور روس، بالٹک، مشرقی یورپ اور بالکن کے طویل زمینی سفر کے اختتام سے پہلے اپنا اگلا اسٹاپ افغانستان کو منتخب کیا تھا۔
میں نے استنبول میں واقع افغان قونصل خانے میں ویزا کی درخواست دی۔ انٹرویو کرنے والے سفارت کار نے وہاں موجود اندرونی خطرات کی وجہ سے میرے وہاں جانے کی سختی سے مخالفت کی۔ میرے بے حد اصرار پر انہوں نے مجھے ویزا جاری کر دیا۔
لیکن قسمت کو کچھ اور منظور تھا، میں تہران میں بیمار ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے اپنا سفر محدود کرنے پر مجبور ہو گیا۔ مشن اس بار بھی نہ چاہتے ہوئے ادھورا رہ گیا۔
اب جب کابل جانے کے لیے تیار پرواز میں سوار ہونے والا تھا کہ پرواز ہی منسوخ کر دی گئی۔ لگتا ہے میرے اور کابل کی قسمت کے ستارے ہمیں ملنے ہی نہیں دیتے۔ میں جانے یا نہ جانے کی کشمکش میں الجھا تھا۔
تمام تر وارننگ پر دھیان دیے بغیر میں نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔ اس لیے اگلے دن بنا کوئی پرواہ کیے بغیر ہاتھوں میں کم ایئر کا ٹکٹ تھامے افغانستان کی طرف نکل پڑا۔
جب نصف خالی پرواز کابل ایئر پورٹ پر اتری تب رات ہو چکی تھی۔ گاڑیوں کے لیے بند خالی پارکنگز سے گزرتے ہوئے میں اپنے ڈرائیور محمد نبی کو دیکھا، جو شرمیلے انداز میں مسکرا رہا تھا۔ وہ تیز قدموں کے ساتھ اپنی پرائیوٹ ٹیکسی تک لے گیا اور مجھے میرے ہوٹل تک پہنچایا۔
ہوٹل کی پہچان کے لیے کسی قسم کا سائن بورڈ آویزاں ہی نہیں تھا۔ دیکھنے میں یہ کسی ہائی سیکیورٹی جیل سے کم نہ تھا۔ لوہے کے تین دروازوں سے گزرنے کے بعد بالآخر میں اپنے کمرے تک پہنچا۔
یہ ایک درمیانے درجے کا ہوٹل تھا جس میں میرے قیام کا بندوبست ایک پاکستانی پشتون نے کیا تھا جو 10 دنوں کی ایک ورکشاپ میں شریک ہونے کے لیے اسی ہوٹل میں قیام پذیر تھا۔ اس نے میرا تعارف ایک افغان پشتون سے کروایا جنہوں نے میرے کمرے اور سفر کا بندوبست کیا تھا۔
میں نے پہلی بار کوئی ہوٹل دیکھا جس میں کمرے کے کرائے میں ناشتے کے علاوہ رات کا کھانا بھی شامل تھا۔ اس کی وجہ بھی تھی۔ مجھے کسی افغان شخص کے بغیر باہر سیر و تفریح کے لیے نکلنے سے سختی سے منع کیا گیا، اور خاص طور پر رات کے وقت تو بالکل بھی نہیں۔ میرے پاس اور کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔