پاکستان

'ہم محب وطن لوگ تھے، 'را' کے ایجنٹ ہوگئے'

مصطفیٰ کمال کی ایم کیو ایم سے علیحدگی، نئی جماعت کی تشکیل کا اعلان
|

کراچی کے سابق ناظم مصطفیٰ کمال نے پاکستان واپسی کے بعد پہلی پریس بریفنگ میں ایم کیو ایم سے علیحدگی اور نئی جماعت بنانے کا اعلان کر دیا جبکہ انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) کے قائد الطاف حسین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

مصطفیٰ کمال نے اچانک وطن واپس آ کر 'اہم پریس کانفرنس' کا اعلان کیا تھا، پریس کانفرنس میں ان کے ہمراہ انیس قائم خانی بھی موجود تھے۔

تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہنے والی اس پریس بریفنگ میں انہوں نے کہا کہ ہم صرف دو لوگ ایک ایسی پارٹی کی بنیاد رکھ رہے ہیں کہ جس کا کوئی نام نہیں ہے۔

مصطفیٰ کمال نے پاکستانی سبز ہلالی پرچم دکھاتے ہوئے کہا یہ ہماری پارٹی کا جھنڈا ہے۔

انہوں نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ وہ ٹیکنو کریٹ حکومت کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے آنے والے کامیاب نہیں ہوتے، ورنہ سندھ میں پیر پگارا کا وزیر اعلیٰ ہوتا۔

انھوں نے پاکستانیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بہت ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے، لیکن میں اس پاکستان کے جھنڈے کے رنگ نکال کر اس میں کچھ اور رنگ ڈال کر اسے مدھم نہیں کرنا چاہتا.

مصطفیٰ کمال 2005 سے 2009 تک متحدہ قومی موومنٹ کے کراچی کے نامزد سٹی ناظم (میئر) رہ چکے ہیں — فوٹو : فیس بک

پارٹی بنانے کا مقصد بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں مقامی حکومتوں کا نظام چاہتے ہیں، اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی ضروری ہے۔

سابق سٹی ناظم کراچی نے کہا کہ ہماری جماعت ملک میں صدارتی نظام چاہتی ہے جس میں عوام صدر کو براہ راست منتخب کریں اور وہ پروفیشنل ٹیم چن کر اپنی کابینہ بنائے۔

ایم کیو ایم پر تنقید کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال نے کہا میں پارٹی کا سسٹم جانتا تھا، مجھے معلوم تھا کہ پارٹی چھوڑ دی تو جان کو خطرہ ہوگا.

’پہلے رابطہ کمیٹی مہینوں میں ذلیل ہوتی تھی، اب منٹوں ہوتی ہے‘

مصطفی کمال نے ملک سے جانے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ کسی نے ہماری کوئی شوگر مل نہیں چھینی تھی، مجھے سینیٹر بنے صرف 6 ماہ ہوئے تھے اور ساڑھے 5 سال مزید سینیٹر رہنا تھا، جبکہ انیس قائم خانی رابطہ کمیٹی کے ممبر تھے، لیکن انہوں نے بھی ممبر شپ چھوڑ دی اور ہم ملک چھوڑ کر چلے گئے.

مصطفی کمال نے کہا کہ 2008 سے 2013 کے دوران ایم کیو ایم نے 4 بار حکومت چھوڑی اور دوبارہ حکومت میں شامل ہوئے، تمام فیصلے فرد واحد الطاف حسین کرتے تھے، جبکہ 2013 میں انتخابات ایم کیو ایم اور مہاجروں کے علاقوں میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو لاکھوں ووٹ ملے، جس کے بعد امید تھی الطاف حسین اب کوئی ہوش کریں گے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 19 مئی 2013 کو نشے میں دھت ہو کر الطاف حسین نے کارکنوں کو جمع کرکے ذمہ داران سے برا سلوک کیا، پہلے رابطہ کمیٹی مہینوں میں 'ذلیل' ہوتی تھی جبکہ اب گھنٹوں اور منٹوں میں بے عزت ہوتی رہتی ہے۔

ایم کیو ایم قائد پر شدید تنقید کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال نے کہا کہ شراب نوشی کی وجہ سے پہلے وہ رات میں تقریر نہیں کرسکتے تھے، اب ان سے دن میں بھی تقریر نہیں ہوتی۔

پریس کانفرنس کے دوران وہ آبدیدہ نظر آئے، ان کی آنکھوں سے آنسو نکلتے رہے۔

مصطفیٰ کمال ایک موقع پر ایم کیو ایم میں الطاف حسین کی پسندیدہ شخصیات میں سے ایک ہوا کرتے تھے — فوٹو : بشکریہ MQM.org

را سے فنڈنگ کا اعتراف

انہوں نے انکشاف کیا کہ 2010 میں عمران فاروق کے قتل کے بعد اسکاٹ لینڈ یارڈ نے الطاف حسین سمیت ایم کیو ایم کی لندن میں موجود قیادت کو انٹرویوز کے لیے طلب کرنا شروع کردیا جبکہ انہیں تین روز تک برطانوی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پوچھ گچھ کی۔

برطانوی حکام نے ایم کیو ایم کی قیادت سے را سے تعلقات کے حوالے سے سوالات کیے جسے ابتدائی طور پر مسترد کردیا گیا تاہم اسکاٹ لینڈ یارڈ کی جانب سے دستاویز پیش کرنے کے بعد الطاف حسین سمیت قیادت نے را کی حمایت کا اعتراف کرلیا۔

مصطفیٰ کمال نے انکشاف کیا کہ ایم کیو ایم کی تمام سینئر قیادت اس بات سے آگاہ ہے کہ پارٹی گزشتہ 20 سالوں سے را سے فنڈز لے رہی ہے۔

ان کا دعویٰ تھا کہ پیپلز پارٹی کے رہنما رحمان ملک ایم کیو ایم کے اعلامیے لکھواتے رہے ہیں، الطاف حسین اور رحمان ملک کی لندن میں 9,9 گھنٹے تک بیٹھک رہتی تھی۔

’الطاف حسین کو کسی کارکن، کسی مہاجر کی فکر نہیں‘

مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ہم نے الطاف حسین صاحب کے لیے دشمنیاں کیں اور ان کی ذات کے لیے دشمن بنائے، لیکن الطاف حسین کو کسی ایک کارکن، کسی مہاجر، کسی انسان کی فکر نہیں ہے، جب کسی کارکن کی لاش پر سیاست کرنی ہو تو اس کی لاش جناح گراؤنڈ میں رکھ کر پوائنٹ اسکورنگ کرلی جاتی ہے، ہم نے الطاف حسین کے لیے یہ بھی نہیں دیکھا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ۔

انہوں نے الطاف حسین کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ تحریکوں میں قربانیاں ہوتی ہیں، لیکن قربانیاں دینے کا مقصد تو بتائیں، مقصد بتائیں گے تو قربانی دیں گے، پہلے ہم محب وطن لوگ تھے، اب 'را' کے ایجنٹ ہوگئے۔

ان کا کہنا تھا کہ الطاف حسین کے لیے ہماری 2 نسلیں تباہ ہوگئیں، 35 سال پہلے اپنے باپ کو دفنانے والے اب اپنے بیٹوں کو دفنا رہے ہیں.

مصطفیٰ کمال نے کہا کہ مجھے پتہ تھا کہ جنوبی افریقہ اور ہندوستان کا سیٹ اپ رکھنے والے لڑکے یہاں مارنے کا کام کرتے ہیں،مجھے پتہ تھا کہ یہاں رہتا تو میرے اور میرے اہلخانہ کی جان کو خطرہ ہوسکتا تھا، زکوٰة فطرے کی رقم مقصد الطاف حسین کی شراب کے پیسے جمع کرنا ہے، کیا ہم نے قربانیاں اس لیے دیں کہ الطاف حسین لندن اور کینیڈا میں پراپرٹی بنائیں۔

ایم کیو ایم کے قائد کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے کے ہر شہری، جماعت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ غیر ملکی اداروں کو معلوم ہے کہ الطاف حسین کے را سے تعلقات ہیں، یہ سب کسی اور نے نہیں بتایا بلکہ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے بعد اسکاٹ لینڈ والوں نے ان کے گھر پر تفتیش کی تو وہ ان کے گھر سے ٹرک بھر کر سارے دستاویزات لے کر گئے تھے، جس کے بعد انھوں نے ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کےاہم لوگوں کو انٹرویو کے لیے بلانا شروع کیا.

انہوں نے بتایاکہ الطاف حسین اپنی قوم سے ، اپنے کارکنان سے یہ فرما رہے ہیں کہ وہ اس ملک کے محب وطن لیڈر ہیں، پاکستان کے 98 فیصد لوگوں کے نجات دہندہ ہیں اور چونکہ انھوں نے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بات کی ہے، اس لیے سب ان کے خلاف صف آراء ہیں، جبکہ کارکنان یہ سمجھ رہے ہیں کہ قائد بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں اور رینجرز اور اسٹیبلشمنٹ ہمارے خلاف ہے، اس لیے وہ ان سے لڑ رہے ہیں.

'الطاف حسین لاشوں پر سیاست کرتے تھے'

مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ایم کیو ایم کے قائد لاشوں پرسیاست کرتے تھے، وہ لاشوں کی سیاست پر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرتے اسی لیے ان کو لاشیں درکار ہوتی ہیں، الطاف حسین کو 2 نسلیں کھا جانے کے بعد بھی ترس نہیں آرہا، ان کو 7، 8 ہزار لاشیں چاہئیں تاکہ وہ ان پر سیاست کرسکیں، الطاف حسین کو کراچی میں ہر وقت 4,5 لاشیں گرانا پسند ہے۔

انہوں نے صولت مرزا اور اجمل پہاڑی کے ساتھ ساتھ عمران فاروق کے قتل کرنے والے ملزم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ تمام افراد پیدائشی قاتل تھے؟، صولت مرزا کو شاہد حامد کا قاتل کس نے بنایا؟ وہ تو شاہد حامد کو جانتا بھی نہیں ہوگا، پارٹی نے اس کو پہچاننے سے انکار کر دیا، یہ ہمیں کہاں لے جایا گیا ہے،مہاجر برادری کو الطاف حسین کی وجہ سے 'را' کے ایجنٹ تصور کیا جا سکتا ہے، عوام الطاف حسین کی وجہ سے را کا ایجنٹ نہ سمجھے، الطاف حسین کے اعمال کی وجہ سے اردو بولنے والوں سے نفرت نہ کریں، یہ بھی باقی صوبوں کے لوگوں کی طرح محب وطن ہیں۔

الطاف حسین کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا 'یہ آدمی ہمیں کہاں لے گیا'، مصطفیٰ کمال یہ کہتے ہوئے شدید جذباتی ہو گئے اور بے اختیار رو پڑے، اور مزید کہا کہ الطاف حسین توبہ کریں اوربربادی کا سفر روک دیں۔

ان کا دعویٰ تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ کا ملٹری ونگ پاکستان میں بیتھ کر نہیں چلتا بلکہ اس کو باہر سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔

قبل ازیں 4 سال تک کراچی کے ناظم رہنے والے مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس کا اعلامیہ ایم کیو ایم کے غیر فعال رہنما انیس قائم خانی نے جاری کیا۔

اعلامیے میں پریس کانفرنس کے مقام کے طور پر ٖڈیفنس کے ایک بنگلے کا پتہ درج ہے جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما عمومی طور پر ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر پریس کانفرنسز کرتے ہیں۔

ڈان نیوز کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ پریس کانفرنس کس موضوع پر ہوگی۔

واضح رہے کہ مصطفی کمال 2005 سے 2009 تک متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے کراچی کے نامزد ناظم رہے، ایم کیو ایم نے انھیں 2011 میں سینیٹ کا ٹکٹ جاری کیا تاہم اپریل 2014 میں وہ سینیٹ سے مستعفی ہو گئے اور اس کے بعد سے وہ پارٹی میں مکمل طور پر غیر فعال ہو گئے، آج کل وہ دبئی میں پاکستان کی ایک بہت بڑی ریئل اسٹیٹ کمپنی میں ملازمت کر رہے ہیں۔

دوسری جانب انیس قائم خانی متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر رہ چکے ہیں، 2013 کے بعد سے وہ پارٹی میں غیر فعال شمار کیے جاتے ہیں جبکہ ڈاکٹر عاصم حسین کیس میں ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں :آئندہ 15 روز 'انتہائی اہم'، ایم کیو ایم

یاد رہے کہ 15 روز قبل متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے 18 فروری سے 3 مارچ تک 15 روز کو اہم قرار دیا تھا اور پارٹی کے قائد الطاف حسین کا حوالہ دیتے ہوئے رابطہ کمیٹی نے عوام سے اپیل کی تھی کہ 'وہ آئندہ 15 یوم تک انتہائی احتیاط، ہوش مندی کے ساتھ گزاریں اور نہ صرف اپنی آنکھیں بلکہ اپنا ذہن بھی کھلا رکھ کر آمد ورفت کریں'۔

مصطفی کمال کی پریس کانفرنس کے اعلان کے بعد ایم کیو ایم کی جانب سے باقاعدہ کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا، تاہم ایم کیو ایم رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ "پرواہ مہ کاوہ (پشتو: پرواہ مت کرو) ، یہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا آخری کارڈ ہے جو پہلے کی طرح ناکام ہو گا"۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔