ادب

خواب فروش، خواب گیر، ن م راشد

ن م راشد کی سوچ اور فکر اپنے زمانے کی کسی سیاسی و ادبی تحریک کی محتاج نہ تھی بلکہ ان کے اپنے داخلی اضطراب کا نتیجہ تھی.

شاعری ان جذبات کے اظہار کا ذریعہ ہے جو انسان عام طور پر نثر میں نہیں کہہ پاتا۔ شاعری جسے فراز نے تازہ زمانوں کی معمار کہا، سلسلہ کُن فیکون، وہی شاعری ن م راشد کے لیے خواب کی سی معذوری تھی۔ خواب فروش و خواب گیر ن م راشد، 9 اکتوبر 1975ء کو وفات کے بعد جس کی خوابوں کی طرح ہی راکھ اڑا دی گئی۔

اپنے غیر روایتی نظریات اور طرزِ زندگی کے علاوہ ایک اعتراض ان پر آج تک یہ بھی اٹھتا رہا ہے کہ ان کی میت کو ان کی دوسری بیوی شیلا، جو کہ اطالوی تھیں، کے کہنے پر لندن میں دفنایا نہیں بلکہ جلایا گیا تھا۔ اگرچہ خود ان کی ایسی کوئی وصیت سامنے نہیں آئی۔ اس سلسلے میں ان کے بیٹے شہریار سے بھی مشورہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، جو ٹریفک میں پھنس جانے کی وجہ سے بروقت پہنچ نہیں پائے۔ ایسی دوسری شخصیت عصمت چغتائی تھیں جنہیں ان کی وصیّت کے مطابق بعد از مرگ جلا دیا گیا تھا۔

اردو کے یہ منفرد روایت شکن، ترقی پسند شاعر جن کا اصل نام نذر محمد راشد تھا، یکم اگست 1910ء میں علی پور چٹھہ، ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ اقتصادیات کی تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور سے حاصل کی۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران کیپٹن کی حیثیت سے رائل انڈین آرمی کا حصہ رہے۔ آزادی سے پہلے ن م راشد، دہلی اور لکھنؤ میں آل انڈیا ریڈیو میں خدمات انجام دیتے رہے۔ آزادی کے بعد اقوامِ متحدہ کے ساتھ منسلک ہوئے اور کئی ملکوں میں خدمات سرانجام دیں۔

فیض اور راشد میں ایک قدرِ مشترک یہ بھی ہے کہ دونوں ترقی پسند شاعروں کے مجموعے دوسری جنگِ عظیم سے پہلے شائع ہوگئے تھے۔ راشد کی ماورا 1940ء اور فیض کی نقشِ فریادی 1941ء میں۔ ماورا نہ صرف اردو آزاد نظم بلکہ جدید اردو شاعری کا پہلا مجموعہ ہے۔ ماورا اردو شاعری میں انقلاب لے آئی اور یہ انقلاب صرف نثری یا آزاد نظم کی حد تک نہیں تھا، کیونکہ آزاد نظم اس سے پہلے بھی لکھی جا چکی تھی، بلکہ اس لیے بھی کہ ن م راشد نے ماورا میں ردیف و قافیہ سے ماورا ہو کر تجریدی اور علامتی شاعری کی اور تکنیک میں نئے تجربے کیے تھے۔

اس سے پہلے نظمیں واقعات کے بارے میں، موسم کے بارے میں یا حب الوطنی کے اظہار میں ہی کہی جاتی تھیں۔ انہیں باغی شاعر کہا جاتا ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے روایت میں جدیدیت پیدا کی۔ وہ شاعروں کے شاعر ہیں۔ ان کا موضوع جدید معاشرہ اور جدید فرد ہے۔

ن م راشد نہ صرف شاعر، بلکہ ایک مفکر، مترجم اور ناقد بھی تھے۔ ان کی اپنی کتابوں کے لیے لکھے گئے ان کے دیباچے ان کی ناقدانہ سوچ کا اظہار کرتے ہیں۔ جدید فارسی شاعری اور جدید ایرانی شعراء پر ان کی کتاب ”جدید فارسی شاعری“ نہ صرف اس انقلاب کی عکاس ہے جس سے بیسویں صدی میں فارسی شاعری گزری، بلکہ ان کے بحیثیتِ ناقد ہنر کا ثبوت بھی ہے۔ انہوں نے نہ صرف پاکستانی ادب اور نفسیات کے ایران سے ربط پر روشنی ڈالی بلکہ جدید ایرانی فارسی شاعری کا اردو ترجمہ بھی کیا۔ ان کی اپنی شاعری بھی فارسی شاعری سے متاثر نظر آتی ہے۔ ن م راشد کی نظموں میں فارسی تراکیب فارسی زبان سے اردو میں اس طرح منتقل کی گئی ہیں کہ وہ اردو کا ہی حصہ لگتی ہیں، جیسا کہ یزداں و اہرمن، سرزمینِ انجم، جلوہ گہ راز، فردوسِ گم گشتہ، ملائے رومی، مجذوبِ شیراز وغیرہ۔

فارسی سے متاثر ہونے کی یہی خصوصیت غالب اور اقبال کی شاعری میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ البتہ ن م راشد نے بحیثیتِ شاعر اردو میں غزل کی روایت سے بغاوت کی اور اردو شاعری میں ایک طرح سے نثری نظم کی بنیاد رکھی۔ ابتدا میں ان کی شاعری کئی انگریزی شاعروں سے متاثر تھی اور انہوں نے اردو میں سانیٹ بھی لکھے۔

ان کے بعد کے مجموعہء کلام میں ان کے نظریات کافی پختہ دکھائی دیے۔ ان کی شاعری روایتوں میں جکڑی تعلیم یافتہ مسلمان نسل کی عالمی تناظر میں ذہنی صورتِ حال کی عکاس تھی۔ ان کا مخاطب بھی یہی بدلتی ثقافتوں میں حیران کھڑا تعلیم یافتہ شخص ہی ہے۔ ان کی شاعری میں جذبات بھی نظریات کے سائے میں میچور دکھائی دیتے ہیں۔ وہ نرم نہیں بلکہ کھردرے جذبات کے شاعر ہیں۔ ان کی شعری دنیا میں حیرت زدہ سراسیمہ کرداروں کا ہجوم ہے، آدم ہے، خدا ہے، فرشتے ہیں، اور حسن کوزہ گر ہے۔

` `

ماورا میں کچھ کردار ہیں جو کہ ”میں“ کے صیغہ میں نظر آتے ہیں۔ ان کی نظموں ”رقص“، ”خود کشی“ اور ”انتقام“ میں ایسے کردار پائے جاتے ہیں جن میں ”میں“ کو بطورِ کردار استعمال کیا گیا ہے۔ یہ کردار زندگی کے مسائل، المیے اور محرومی کا شکار ہیں۔ جب کوئی بھی شاعر، ادیب یا فنکار روایت سے ہٹتا ہے تو لکیر کے فقیر دانت پیستے ہیں۔ اعتراض کرنے والوں کو یہ سمجھ نہ آ سکا کہ نظموں میں ”میں“ کا استعمال ایک شعری انداز ہے اور ضروری نہیں کہ شاعر اپنا ہی ذکر کر رہا ہو۔ یوں انہیں ابہام کا شکار، مریضانہ فرار، شکست خوردہ ذہنیت اور غیر سماجی رویوں کا مالک کہا گیا۔

مجھ سمیت کئی عام لوگوں تک ان کی شاعری ضیاء محی الدین کی آواز کے ذریعے پہنچی، جن کی خوب صورت گمبھیر آواز نے ان کی نظموں ”حسن کوزہ گر“، ”زندگی سے ڈرتے ہو“، ”میرے بھی ہیں کچھ خواب“، ”اندھا کباڑی“، ”ہم جسم“ اور ”زندگی اک پیرہ زن“ کو تحت اللفظ میں پڑھ کر مجھ جیسے بہت سے لوگوں کے دلوں میں اتارا۔ ”زندگی سے ڈرتے ہو“ اور ”میرے بھی ہیں کچھ خواب“ ایسی دو نظمیں ہیں جن میں ن م راشد خوش امید دکھائی دیے۔ اس کے بعد وہ پھر بے زاری اور بے اطمینانی کا شکار ہو کر خود میں ڈوب گئے۔

اے عشق ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب

وہ خواب ہیں آزادیء کامل کے نئے خواب

ہر سعی جگر دوز کے حاصل کے نئے خواب

آدم کی ولادت کے نئے جشن پہ لہراتے جلاجل کے نئے خواب

اس خاک کی سطوت کی منازل کے نئے خواب

یا سینہ گیتی میں نئے دل کے نئے خواب

اے عشق ازل گیر و ابد تاب

میرے بھی ہیں کچھ خواب!

”زندگی سے ڈرتے ہو“ میں ایک ایسے انسان کا تصور ہے جو ڈرتا نہیں، حالات کا مقابلہ جانتا ہے اور ڈٹ کر مقابلہ کر سکتا ہے۔

زندگی سے ڈرتے ہو؟

زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں!

آدمی سے ڈرتے ہو؟

آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں !

آدمی زباں بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے

حروف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے

آدمی ہے وابستہ

آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ

اس سے تم نہیں ڈرتے!

اس سے تم نہیں ڈرتے!

ان کہی سے ڈرتے ہو

جو ابھی نہیں آئی، اس گھڑی سے ڈرتے ہو

اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو

` `

ن م راشد کے تخلیق کردہ علامتی کرداروں میں سے ایک ”اندھا کباڑی“ ہے جو اندھا ہے مگر بصیرت رکھتا ہے۔ اس کا شہر بصارت رکھتا ہے مگر بصیرت سے محروم ہے اور کباڑی کے آواز لگانے اور خوشامد کے باوجود کوئی اس سے خواب خریدنے نہیں آتا۔

خوب لے لو خواب

خواب اصلی ہیں کہ نقلی؟

یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑھ کر

خواب داں کوئی نہ ہو!

شام ہوجاتی ہے

میں پھر سے لگاتا ہوں صدا۔۔۔

'مفت لے لو مفت، یہ سونے کے خواب‘۔۔۔

مفت سن کر اور ڈر جاتے ہیں لوگ

اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ

'دیکھنا یہ مفت کہتا ہے، کوئی دھوکا نہ ہو؟

ایسا کوئی شعبدہ پنہاں نہ ہو؟

گھر پہنچ کر ٹوٹ جائیں یا پگھل جائیں یہ خواب؟

بھک سے اڑ جائیں کہیں

یا ہم پہ کوئی سحر کر ڈالیں یہ خواب

جی نہیں کس کام کے؟

ایسے کباڑی کے یہ خواب

ایسے نابینا کباڑی کے یہ خواب؟

رات ہو جاتی ہے

خوابوں کے پلندے سر پہ رکھ کر

منہ بسورے لوٹتا ہوں رات بھر پھر بڑبڑاتا ہوں

'یہ لے لو خواب'۔۔۔

اور لے لو مجھ سے ان کے دام بھی

خواب لے لو، خواب۔۔۔۔

میرے خواب۔۔۔

خواب۔۔۔میرے خواب۔۔۔

خواااااب۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کے داااام بھی ی ی ی۔۔۔

` `

روایتی شاعری کے علاوہ ن م راشد روایتی مشرقی محبت کو بھی چیلنج کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک محبت محض ایک تقاضا ہے۔ اس کی نظم ”میں اسے واقف الفت نہ کروں“ یوں تو سادہ ہے مگر اس میں زندگی کے کئی پہلو نمایاں ہیں۔

سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ

میں ابھی اس کو شناسائے محبت نہ کروں

روح کو اس کی اسیرِ غم الفت نہ کروں

اس کو رسوا نہ کروں، وقفِ مصیبت نہ کروں

یا

ہم محبت کے خوابوں کے مکیں

ریگ دیروز میں خوابوں کا شجر بوتے رہے

سایہ ناپید تھا سائے کی تمنا تلے سوتے رہے!

نئے زمانے کے آدمی کا انتشار اور اس کا منفی پن بھی ن م راشد سے چھپا ہوا نہیں۔

اجل ان سے مل

کہ یہ سادہ دل

نہ اہلِ صلوٰة اور نہ اہلِ شراب

نہ اہلِ ادب اور نہ اہلِ حساب

نہ اہلِ کتاب

نہ اہلِ کتاب اور نہ اہلِ مشین

نہ اہلِ خلا اور نہ اہلِ زمیں

فقط بے یقین

اجل ان سے مت کر حجاب

اجل ان سے مل

اپنے ابہام کو وہ خود بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں

کون سی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟

شام کو جب اپنی غم گاہوں سے دزدانہ نکل آتے ہیں ہم؟

زندگی کی تنگنائے تازہ تر کی جستجو

یا زوالِ عمر کا دیو سبک پا روبرو

یا انا کے دست و پا کو وسعتوں کی آرزو

کون سی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟

ان کی شاعری میں پُراسراریت ہے، ماضی اور ماضی کے تجربات، داستانیں، خواب، ناتمام خواہشیں اور پرانی یادیں ہیں۔ بھولے بسرے چہرے اور فراموش شدہ آوازیں ہیں۔ سمندر کی تہ جو لاشعور ہے۔

سمندرکی تہ میں

سمندر کی سنگین تہ میں

ہے صندوق۔۔۔۔۔۔۔

صندوق میں ایک ڈبیا میں ڈبیا

میں ڈبیا

قافیہ اور ردیف کی غیرموجودگی میں ن م راشد کی تشبیہوں، استعاروں اور تلمیح نے ان کی نظموں کو حُسن دیا ہے۔

عشق کا ہیجان آدھی رات اور تیرا شباب

تیری آنکھ اور میرا دل

عنکبوت اور اس کا بے چارہ شکار

ان کی کچھ تلمیحات تاریخی ہیں، جیسے ”سلیماں سر بہ زانو اور سبا ویراں“

سلیماں سر بزانو اور سبا ویراں

سبا ویراں، سبا آسیب کا مسکن

سب آلام کا انبارِ بے پایاں!

سبا ویراں کہ اب تک اس زمیں پر ہیں

کسی عیار کے غارت گروں کے نقشِ پا باقی

سبا باقی، نہ مہروئے سبا باقی!

اور ”اسرافیل کی موت“ جو ن م راشد نے ایوب کے مارشل لائی دور میں آزادیء تحریر و تقریر پر پابندی پر لکھی تھی۔

مرگِ اسرافیل سے

دیکھتے رہ جائیں گے دنیا کے آمر بھی

زبان بندی کے خواب!

جس میں مجبوروں کی سرگوشی تو ہو

اس خداوندی کے خواب!

کئی نظمیں کہانی کی طرز پر ہیں خاص طور پر لا=انسان اور گماں کا ممکن میں، مثلاً حسن کوزہ گر اور ابولہب کی شادی۔

”حسن کوزہ گر“ کو اردو شاعری کا شاہکار کہا جاتا ہے۔ اس میں عشق اور تخلیق کے بارے میں نظم میں جو کچھ کہا گیا، بے مثال ہے۔ اردو اور فارسی کی شعری روایت میں آدمی بھی مٹی کا بنا ہے اور کوزہ بھی۔ دونوں کا مقدر خاک ہونا ہے۔ کوزے میں صہبا سما سکتی ہے اور انسان کا دل معرفت کی مے سے لبریز ہو سکتا ہے۔ اس صوفیانہ رنگ میں، ن م راشد نے نظم میں اردو غزل کی کیفیات پرو کر یہ بے مثال اور لازوال افسانوی نظم لکھی۔ وہ ایک فنکار کا المیہ بیان کرتے ہیں جو اب کوزہ گری کی صلاحیت سے محروم ہو گیا ہے اور تخلیق کی صلاحیت دوبارہ پانے کے لیے اپنے محبوب کی ایک نگاہ کا طلب گار ہے۔ انہوں نے یہاں فن اور عشق کا تعلق بتایا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے ضروری ہیں۔

جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے

یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں!

تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطار یوسف

کی دکان پر میں نے دیکھا

تو تیری نگاہوں میں وہ تابناکی تھی

میں جس کی حسرت میں

نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں

تمنا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد

لیکن تو چاہے تو میں پھر پلٹ جاﺅں

ان اپنے مہجور کوزوں کی جانب

گل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب

معیشت کے اظہار فن کے سہاروں کی جانب

کہ میں اس گل و لا سے

اس رنگ و روغن سے پھر وہ شرارے نکالوں

کہ جن سے دلوں کے خرابے ہوں روشن

` `

اتنے برسوں میں ان پر اور ان کی شاعری پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے، ان کی شاعری پر تحریریں اور تعبیریں سامنے آتی رہیں لیکن وہ نہ صرف عام قاری بلکہ جدید اردو شاعری کے ناقد کو بھی اپنی شاعری سے چونکاتے اور کچھ کچھ ڈراتے ہی رہے ہیں۔ ایسا کیا تھا جس نے ن م راشد کی شاعری کو لازوال بنا دیا؟ کیا وہ ان کی شاعری کے موضوعات کا تنوع تھا؟ ان کا جدید وژن، نظریات، وقت سے آگے دیکھنے والی نگاہ، یا وہ وژن جس نے آگے بڑھتے زمانے کا ساتھ دیا اور حالات سے غیر متعلق نہ ہوا؟

کیا اس لیے کہ وہ روایت شکن تھے؟ انہوں نے روایت پسندوں اور مذہبی ذہنیت کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ خود ترقی پسندوں اور روشن خیالوں نے بھی انہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔ شاید اس سب سے بڑھ کر ان کی شاعری کے زندہ رہنے کا سبب وہ سحر ہے جو وہ اپنے چونکا دینے والے جدت پسند خیالات سے پھونکتے ہیں۔

انہیں غلط طور پر تنقید کا نشانہ ہی نہیں بنایا گیا بلکہ غلط وجوہات کی بنا پر ان کی تعریف بھی کی گئی۔ کچھ نے ان کی تعریف صرف اس لیے کی کہ انہوں نے کٹر ملا اور روایتی مذہبی خیالات کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ کچھ نے انہیں صرف اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے اردو میں نثری نظم کی روایت ڈالی، جو قافیے اور ردیف کی شعری روایتوں میں جکڑے کچھ ناقدوں کی رائے میں شاعری ہی نہیں۔ آزاد نظم کو ایک نیا لہجہ اور نئی صورت عطا کرنے والوں میں ن م راشد اور میرا جی قابلِ ذکر ہیں۔ آزاد نظم کا شروع میں خوب مذاق بھی اڑایا گیا۔ شوکت تھانوی، کنہیا لال کپور اور شفیق الرحمٰن نے اس کی پیروڈیاں لکھیں۔

ن م راشد کی سوچ اور فکر اپنے زمانے کی کسی سیاسی اور ادبی تحریک کی محتاج نہ تھی بلکہ ان کے اپنے داخلی اضطراب کا نتیجہ تھی جو ہر سوچ اور فکر والے شخص کا نصیب ہے۔ یہی اضطراب ان کی شاعری میں جا بجا دکھائی دیتا ہے۔ ان کی شاعری جذبات کو محض اکساتی نہیں ہے بلکہ ان کا مطمع نظر انسان کی آزادی ہے، روایتوں سے، گھسی پٹی سوچ سے، اور اس سے بڑے پیمانے پر مغرب کی ثقافتی اور فکری غلامی سے مشرق کی آزادی۔

سنتے ہیں کہ نوجوانی میں علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک سے بہت متاثر تھے اور باقاعدہ وردی پہن کر اور بیلچہ ہاتھ میں لیے مارچ کیا کرتے تھے۔ پھر کچھ اثر ان کے ایران میں قیام نے بھی ڈالا ہوگا، اور اس زمانے کا ایران جو روشن خیال اور انقلاب پسند تھا، غالباً وہیں ان سامراج مخالف نظریات نے تشکیل پائی ہوگی۔ ”دل میرا صحرا نوردِ پیرِ دل“ کی تخلیق تب ہوئی جب عرب قوم پرستی عروج پر تھی اور فلسطینی تحریک زور پکڑ رہی تھی۔ یہ نظم مغربی استعمار کے خلاف احتجاج کا اظہار تھی۔ انہوں نے ”آگ“ کی علامت کا جگہ جگہ استعمال کیا ہے جو تیسری دنیا میں آزادی اور حریت کی للکار ہے۔

پھر نئی آگ جو کہ مقدس ہے

نئی آگ، دل

دل ناتواں کی نئی آگ سب کا سرور

نئی آگ سب سے مقدس ہمیں

نئی آگ ہر چشم و لب کا سرور

نئی آگ سب کا سرور

ایران میں برٹش تیل کی کمپنیوں کو قومی تحویل میں لینے پر مصدق کی حکومت کا گرایا جانا، ملائیشیا میں مغرب کی سرپرستی میں مارشل لاء، 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی شکست اور تقریباً تمام اسلامی ممالک میں آمروں کی پشت پناہی، ان سب کا اثر ن م راشد کی شاعری میں جھلکتا ہے۔

تمام تر تنقید اور تعریف کے باوجود یہ طے ہے کہ ن م راشد کی شاعری کو زندہ رکھنے کے لیے ان کی ایک نظم اور ان کا تخلیق کردہ ایک کردار ہی کافی ہے، ”حسن کوزہ گر“۔

اب جو لوٹا ہوں جہاں زاد،

تو میں سوچتا ہوں:

شاید اس جھونپڑے کی چھت پہ یہ مکڑی مری محرومی کی

جسے تنتی چلی جاتی ہے، وہ جالا تو نہیں ہوں مَیں بھی؟

یہ سیہ جھونپڑا مَیں جس میں پڑا سوچتا ہوں

میرے افلاس کے روندے ہوئے اجداد کی

بس ایک نشانی ہے یہی

ان کے فن، ان کی معیشت کی کہانی ہے یہی

مَیں جو لوٹا ہوں تو وہ سوختہ بخت

آکے مجھے دیکھتی ہے

دیر تک دیکھتی رہ جاتی ہے

میرے اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں

کھیل اِک سادہ محبّت کا

شب و روز کے اِس بڑھتے ہوئے کھوکھلے پن میں جو کبھی کھیلتے ہیں

کبھی رو لیتے ہیں مل کر، کبھی گا لیتے ہیں

اور مل کر کبھی ہنس لیتے ہیں

دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں

حرف سرحد ہیں، جہاں زاد، معانی سرحد

عشق سرحد ہے، جوانی سرحد

اشک سرحد ہیں، تبسّم کی روانی سرحد

دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں

(دردِ محرومی کی، تنہائی کی سرحد بھی کہیں ہے کہ نہیں؟)

میرے اِس جھونپڑے میں کتنی ہی خوشبوئیں ہیں

جو مرے گرد سدا رینگتی ہیں

اسی اِک رات کی خوشبو کی طرح رینگتی ہیں

در و دیوار سے لپٹی ہوئی اِس گرد کی خوشبو بھی ہے

میرے افلاس کی، تنہائی کی

یادوں، تمنّاؤں کی خوشبوئیں بھی

پھر بھی اِس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں

یہ مرا جھونپڑا تاریک ہے، گندہ ہے، پراگندہ ہے

ہاں، کبھی دور درختوں سے پرندوں کے صدا آتی ہے

کبھی انجیروں کے، زیتونوں کے باغوں کی مہک آتی ہے

تو مَیں جی اٹھتا ہوں

تو مَیں کہتا ہوں کہ لو آج نہا کر نکلا!

ورنہ اِس گھر میں کوئی سیج نہیں، عطر نہیں ہے

کوئی پنکھا بھی نہیں

تجھے جس عشق کی خو ہے

مجھے اس عشق کا یارا بھی نہیں!

تو ہنسے گی، اے جہاں زاد، عجب بات

کہ جذبات کا حاتم بھی مَیں

اور اشیا کا پرستار بھی مَیں

اور ثروت جو نہیں اس کا طلب گار بھی مَیں!

تو جو ہنستی رہی اس رات تذبذب پہ مرے

میری دو رنگی پہ پھر سے ہنس دے!

عشق سے کس نے مگر پایا ہے کچھ اپنے سوا؟

اے جہاں زاد

ہے ہر عشق سوال ایسا کہ عاشق کے سوا

اس کا نہیں کوئی جواب

یہی کافی ہے کہ باطن کے صدا گونج اٹھے!

'ماورا' سے لے کر 'ایران میں اجنبی' تک اور اس کے بعد 'لا= انسان' کی نظموں کو غور سے پڑھا جائے تو ن م راشد کی شاعری کا جو کردار تشکیل پاتا ہے، اس کا تعلق ہم اس روایات سے باآسانی جوڑ سکتے ہیں جسے ہم دانشوری کی روایت کہتے ہیں۔ مشرق میں رومی سے لے کر اقبال تک اس روایت کے سلسلے پھیلے ہوئے ہیں۔ آج بھی ن م راشد کی آزاد نظمیں انسانی نفسیات کا احاطہ کرتیں محسوس ہوتی ہیں۔ میرے جیسے فلسفہ پسند آج بھی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ن م راشد تھا یا ن م راشد ہے۔